Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Amir Khakwani
  4. Qazi Faez Isa

Qazi Faez Isa

قاضی فائز عیسیٰ

چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلوں نے تو خیر ہم سب کو بے پناہ مایوس کیا ہی ہے، مائی لارڈ کے کمنٹس اور بھی زیادہ حیران وپریشان کرتے ہیں۔ ایک کیس میں جناب والا نے فرمایا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے ریٹرنگ آفیسرز کے معاملے پر فیصلہ دے کر پورا انتخابی عمل روک دیا تھا۔ آپ اپنا کام کریں، دوسروں کو اپنا کام کرنے دیں۔

جناب قاضی فائز عیسیٰ کے اسی مائنڈ سیٹ کی وجہ سے پاکستانی تاریخ کا بدترین انتخابی سانحہ آٹھ فروری الیکشن کے موقعہ پر ہوا جب کروڑوں عوام کے فیصلے کو بدل دیا گیا اور ایک بدترین شکست کھانے والی جماعت کو راتوں رات بلکہ دو دن لگا کر جتوایا گیا اور انہیں حکومت سونپی گئی۔

کیا مورخ یہ کہے گا کہ عدالت اپنا کام کر رہی تھی اور الیکشن کمیشن اپنا کام کر رہا تھا؟ نہیں مائی لارڈ، تاریخ اور مورخ یہ کہے گا کہ پاکستانی عدلیہ اس بدترین دھوکے اور خوفناک انتخابی دھاندلی پر تماشا دیکھتی رہی بلکہ چیف جسٹس آف پاکستان شعوری یا غیر شعوری طور پر اس سب کچھ کے سہولت کار بنے۔ پہلے بلے کا نشان چھین کر اور پھر اس پوری انتخابی دھاندلی کا خاموشی بلکہ مزے سے تماشا دیکھ کر۔

لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ شاندار اور تاریخی تھا۔ انہوں نے الیکشن کمیشن کو اپنے بیوروکریٹ ریٹرننگ آفیسر اور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفسر لگانے سے روکا۔ اس لئے کہ اگر ڈپٹی کمشنر ضلع کا ریٹرننگ افسر ہوگا تو ہماری بیوروکریسی تو حکومت کا کہنا مانتی ہے، ان کی بے دام غلام ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے فاضل ججوں اور جناب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے انتخابی عمل جاری رکھنے کے نام پر لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو بلڈوز کر دیا اور یوں وہی بیوروکریٹ ریٹرننگ افسر اور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفسر بنے اور پھر وہی نتیجہ آیا جو ہم سب نے دیکھا۔ ایسے انتخابی عمل کا کیا فائدہ جس کا انجام بدترین دھاندلی اور عوام کے بے پناہ مینڈیٹ کو چوری کرنے پر ہو۔

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ تاریخ کی عدالت میں یقینا قصور وار ٹھیریں گے، ان کا شمار پاکستانی تاریخ کے چند بدنام اور بدترین چیف جسٹس صاحبان میں ہوگا، جنہوں نے انصاف کا خون کیا اور جو عوامی مینڈیٹ کے مخالف سمت میں کھڑے ہوئے۔

آج لوگ خاموش ہیں کہ ان کے عہدے اور منصب کا احترام ہے، لیکن اس سے سچ اور حقیقت بدل تو نہیں جائے گی۔

ایک اور معزز اور فاضل جج جسٹس نعیم افغان نے آج فرمایا کہ میں جب بلوچستان ہائی کورٹ کا چیف جسٹس تھا تو میں نے کہہ دیا تھا کہ الیکشن ٹریبونلز بنانا چیف الیکشن کمشنر کا اختیار ہے۔ جناب والا نے اپنا مائنڈ شو کر دیا کہ اس کیس میں وہ کیا فیصلہ سنائیں گے۔

نہایت احترام کے ساتھ عرض ہے کہ مائی لارڈ آپ غلط، آپ کی ججمنٹ غلط، آپ کا وہ کہنا غلط، آپ کی سوچ غلط۔ آپ اسی دنیا میں رہتے ہیں، کسی اور دنیا سے تشریف نہیں لائے۔ جب الیکشن کمیشن بدترین دھاندلی پر تلا ہوا ہو، ہائی کورٹ کے جج صاحبان اس کے لئے قابل قبول نہ ہوں اور وہ اپنی پسند کے منظور نظر جج لگانا چاہ رہا ہوں، اس مقصد کے لئے وہ چاہتا ہو کہ ریٹائر جج صاحبان لگائے جائیں تب کیا ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ بیٹھی تماشا دیکھتی رہے؟ افسوس کہ یہی سب کچھ کر رہے ہیں، چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ اور ان کے ہم خیال جج صاحبان۔

ان سب کو تاریخ کی عدالت میں اور مورخ کے دیانت دارانہ فیصلے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یقین رکھیں کہ وہ فیصلہ ان کے خلاف ہوگا۔ یہ عہدہ، یہ اختیار، یہ قوت کتنا عرصہ مزید رہے گی؟ چھ ماہ، ایک سال، اگر اپنی من پسند ترمیم کرا لی تب بھی تین سال سے زیادہ نہیں۔

پاکستانی عوام، ملک اور تاریخ کی عمر ان سب کی مدت سے بہت زیادہ ہے۔ عوام کے فیصلے، تاریخ کے فیصلے اور مورخ کے فیصلے سے انہیں ڈرنا چاہے۔ کسی جج کے حصے میں عزت آتی ہے اور کسی کے حصے میں بے پناہ ذلت۔

جو غلطیاں، غلط فیصلے یہ کر چکے ہیں، ان کی کسی حد تک تلافی کر سکتے ہیں۔ صرف انصاف اور عدل سے فیصلے کریں۔ اگر انہیں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار پسند نہیں، عطا بندیال پسند نہیں تو ویسے فیصلے بھی نہ کریں۔ عدل اور انصاف پر چلیں، ان کا بول بالا ہوگا۔

Check Also

Richard Grenell Aur Pakistan

By Muhammad Yousaf