N League Adeas Ke Hawale Se Banjar Kyun Hai?
ن لیگ آئیڈیاز کے حوالے سے بنجر کیوں ہے؟
یہ سمجھ سے باہر ہے کہ میاں نواز شریف نے مسلم لیگ کی صدارت سنبھالنے کے لئے اٹھائیس مئی کا دن کیوں منتخب کیا؟ کیا وہ اسے بھی ایٹمی دھماکہ کرنے جیسا کوئی اقدام سمجھ رہے ہیں؟
نواز شریف پچھلے سال بھی مسلم لیگ ن کی صدارت سنبھال سکتے تھے، شہبازشریف کی مسلم لیگ صدارت ایک علامتی چیز ہی تھی، عملی طور پر تو مسلم لیگ کو نواز شریف ہی کنٹرول کر رہے تھے۔ اس لئے اب مسلم لیگ ن کی صدارت سنبھالنا بھی ایک علامتی فیصلہ ہے، اس کے لئے اتنا شورشرابا کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ شائد وہ اسٹیبلشمنٹ کو کسی نوعیت کا پیغام دینا چاہ رہے ہیں۔
بہرحال ان کی تقریر حسب روایت خاصی کمزور اور مایوس کن تھی۔
بدقسمتی سے میاں نواز شریف نوے کے عشرے کی سیاست اور سوچ سے باہر نہیں آ سکے۔ انہیں اپنے پورے سیاسی کیرئر کی یہی اہم کامیابی لگتی ہے کہ انہوں نے موٹر وے بنائی۔ موٹر وے تو آج سے تیس پینتیس سال پہلے بن گئی تھی۔ اب اس سے آگے چلو بھئی۔ اس کے بعد ن لیگ کتنی بار حکومت میں آئی، کبھی نواز شریف وزیراعظم بنے تو کبھی ان کی آشیرباد سے شاہد خاقان عباسی اور شہباز شریف وزیراعظم بنے۔ سوال یہ ہے کہ ن لیگ نے ماضی میں کیا کیا اور آئندہ کیا کرنا چاہتی ہے؟
ایٹمی دھماکوں کو بھی اتنا طویل عرصہ گزر گیا ہے کہ اب ملک میں شائد ہی کوئی ایسا شخص ہو جس کے لئے اس واقعے کے ساتھ رومانویت وابستہ رہی ہو۔ چھبیس سال گزر گئے۔ ن لیگ اور نواز شریف اب ایٹمی دھماکوں اور یوم تکبیر کو گلوریفائی کرنے کی جتنی کوشش کریں، بات نہیں بنے گی۔ بھارت نے ایٹمی دھماکے بی جے پی کے دور میں کئے تھے۔ مودی کی حالیہ کمپین میں آپ نے کہیں سنا کہ ان کی پارٹی نے ایٹمی دھماکے کرنے کا کریڈٹ لے کر اپنے ووٹروں کا خون گرمانے کی کوشش کی ہو۔ ان کے جو بھی اچھے برے نعرے ہیں، سب تازہ واقعات سے متعلق ہیں یا آئندہ کے لئے خواب بیچنے کی کوشش کی جارہی۔
وہ نئی نسل جو پچھلے اٹھائیس سال میں پیدا ہوئی یا جو لوگ تب پانچ سات سال کے تھے، (پینتیس سال تک کے لوگ) ان کی تعداد کئی کروڑ تک پہنچ چکی ہے ہے۔ ان کروڑوں لوگوں کے لئے پہلی موٹر وے یا ایٹمی دھماکوں میں کوئی دلچسپی نہیں رہ گئی۔ یہ لوگ ماضی بلکہ ماضی قدیم کے بجائے حال اور مستقبل میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔
ن لیگ کا بحران ہی یہی ہے کہ انہیں ان کروڑوں نوجوان ووٹروں کی سوچ اور مائنڈ سیٹ کا اندازہ نہیں ہو رہا۔ یہ سمجھ ہی نہیں پا رہے کہ اس بہت بڑے یوتھ ووٹ بینک کو ان گھسی پٹی باتوں اور کلیشے ٹائپ گفتگو سے متاثر نہیں کیا جا سکتا۔
میرے تینوں بڑے بچوں کے خیر سے شناختی کارڈ بن گئے ہیں، یعنی اگلے الیکشن میں وہ ووٹ ڈال سکیں گے، ان میں سے کسی کو بھی پہلی موٹروے سے کوئی سروکار نہیں، انہیں ایٹمی دھماکوں اور کلنٹن کے مبینہ فون سے ٹکے کی دلچسپی بھی نہیں اور نہ ہی انہیں دو ہزار چودہ کے دھرنے اور امپائر کی انگلی کا کچھ پتہ ہے۔
2014 میں یہ آٹھ نو سال کے تھے۔ ان کی تمام تر دلچسپی آج کی دنیا میں ہے یا مستقبل کے پاکستان پر ان کی نظر ہے۔ وہ ن لیگ کو کیوں ووٹ دیں گے جن کے پاس نوجوانوں کے لئے کوئی پلان ہی نہیں، جو پرانی سیاست کر رہے ہیں، موروثیت سے چمٹے ہوئے اور ماضی کے گلے شکوے کرنے میں وقت ضائع کرتے ہیں۔
نئی نسل کے بچے اپنے مستقبل اور ملک کے مستقبل سے کنسرنڈ ہیں، اس بارے میں ن لیگ کے پاس کچھ بھی بتانے کو نہیں۔
اب یہی دیکھ لیں کہ شہباز شریف نے بڑے جوش وخروش سے کہا کہ دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن میں دھاندلی ہوئی تھی اور تحریک انصاف کو جتوایا گیا تھا۔ آج ہر ایک کی دلچسپی اس میں ہے کہ ابھی تین ماہ پہلے ہونے والے الیکشن میں کیا ہوا؟ ہر کوئی جانتا ہے کہ ن لیگ یہ الیکشن بری طرح ہار گئی تھی اور تحریک انصاف سے الیکشن چھینا گیا۔
یہ بات جاننے والے لوگ اور خاص کر نئی نسل شریف برادران کے دو ہزار اٹھارہ کے واویلے پر بے زاری اور کوفت سے سر جھٹکنے کے سوا اور کیا کر سکتی ہے؟
ہر گزرتا دن یہ رائے مستحکم کر رہا ہے کہ ن لیگ کی سیاست ختم ہو چکی، اس کے پاس کوئی پلان، منصوبہ اور ویژن نہیں۔
ایسا ہی ہے کہ کوئی آج کے سمارٹ فون اور اس پر نیٹ فلیکس، ایمیزون وغیرہ جیسی ایپ کے زمانے میں پرانا خراب گھسا پٹا وی سی آر چلا کر فلم دکھانے کی کوشش کرے۔ ویسے تو اپنی نئی نسل کو ہم وی سی آر کے بارے میں بھی نہیں سمجھا سکتے۔
دو ہزار چودہ کے دھرنے، اٹھانوے کے دھماکوں اور نوے بانوے کی پہلی موٹر وے کی کہانیاں اب سنانا بھی ایسا ہی ایک بیکار، عبث کھیل ہے۔ میاں نوازشریف نے اپنا اور دوسروں کا وقت آج ضائع ہی کیا۔ افسوس کہ ان کے آس پاس موجود خوشامدی حضرات یہ بات انہیں بتائیں گے نہ سوچنے دیں گے۔