Maulana Abul Kalam Azad Par Taan Kyun?
مولانا ابوالکلام آزاد پر طعن کیوں؟
مولانا ابوالکلام آزاد کی فکر، سوچ اور ان کے بعض علمی تفردات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، مگر یہ سب علمی شائستگی سے ہونا چاہیے۔ مولانا آزاد کی شخصیت پر لعن طعن کا کوئی جواز نہیں۔ وہ قابل احترام ہیں۔
ہم تقسیم ہند کے حوالے سے ان کی رائے سے اختلاف رکھتے ہیں۔ قیام پاکستان کے موقعہ پر مولانا کا جو سیاسی موقف تھا، ہم اسے درست نہیں سمجھتے، اس سے اختلاف کرتے ہیں، بلکہ میرے جیسے لوگوں کی رائے میں مولانا تب رانگ سائیڈ آف ہسٹری پر تھے۔ مجھے مگر مولانا کی دیانت پر کوئی شبہ نہیں، ان کی رائے تب بھی ان کی دیانت دارانہ سوچ کی غماز تھی۔
مولانا آزاد کی ایک حیثیت علمی ہے، ایک حیثیت ادبی ہے۔ ان کی کتابیں خاص کر غبار خاطر پڑھنا کسی سوغات سے کم نہیں۔ مولانا کی بیشتر بلکہ شائد تمام کتابیں پاکستان میں دستیاب ہیں بلکہ کئی کئی پبلشرز نے شائع کی ہیں۔ ان کی ادھوری رہ جانے والی تفسیر قرآن بھی پاکستان میں دستیاب ہے۔
مولانا آزاد کی علمی اور ادبی حیثیت لاجواب ہے۔ کوئی پرلے درجے کا متعصب یا بدذوق شخص ہی مولانا کی تحریروں پر طعن کر سکتا ہے۔
قیام پاکستان سے پہلے کی شدید بحرانی اور ٹکرائو کی سیاست کے ہنگام قائداعظم نے مولانا آزاد پر ایک فقرہ کسا تھا۔ وہ دو معاصر سیاستدان کا معاملہ تھا۔ قائداعظم، گاندھی جی، پنڈت نہرو اور مولانا آزاد، مولانا مدنی وغیرہ معاصر تھے۔ ایک دوسرے کے حوالے سے کسی نے اگر کچھ کہا تو وہ ان کا باہمی معاملہ ہے۔ ہمیں اس سب سے باہر رہنا چاہیے۔ وہ بات وہیں ختم ہوگئی، اسے بڑھانا چاہیے نہ دہرانا۔
آج اداکار عامر خان کے حوالے سے ایک پوسٹ کی تو بعض لوگوں نے کمنٹس میں کہا کہ مولانا آزاد پاکستان کے دشمن تھے تو ہمیں ان پر تنقید کرنے کا حق ہے۔ میرا نہیں خیال کہ مولانا آزاد کو پاکستان کا دشمن کہا جا سکتا ہے۔
قیام پاکستان کی انہوں نے مخالفت ضرور کی (اور میرے خیال میں ان کا موقف اور استدلال غلط تھا) مگر پاکستان بننے کے بعد مولانا آزاد کا رویہ مختلف رہا۔ ان سے پاکستان کے خلاف کچھ بھی مروی نہیں۔ بلکہ بعض روایتوں میں انہوں نے پاکستان کے لئے مثبت کلمات کا اظہار کیا۔
ایک بار وہ کہیں جاتے ہوئے کراچی ائیرپورٹ پر رکے تو مزار قائد پر فاتحہ خوانی کرنے گئے۔ مولانا آزاد کا معاملہ قطعی طور پر سردار پٹیل جیسا نہیں بلکہ پنڈت نہرو کی طرح بھی نہیں تھا۔ مولانا آزاد کو دشمنان پاکستان کی صف میں شامل کرنا میرے خیال میں زیادتی اور ظلم ہوگا۔
ہمارے خیال میں مولانا آزاد کا احترام کرتے ہوئے ان پر طعن نہیں کرنا چاہیے۔ وہ برصغیر کے مسلمانوں کی تہذیبی، سیاسی اور علمی زندگی کا اہم حصہ رہے ہیں۔ اس زندگی کا کچھ حصہ پاکستانی مسلمانوں کا ورثہ بھی ہے۔ ہم اس ورثے کے طالب ہوں یا نہ ہوں، بہرحال مولانا کو اپنا حریف نہ بنائیں۔
ہاں اس حوالے سے مولانا کے وہ حامی اور مقلدین بھی احتیاط فرمائیں جو ریاست پاکستان یا کسی ریاستی بیانیے سے اپنی بیزاری، تعصب اور منفی سوچ کو ظاہر کرنے کے لئے مولانا کے کاندھوں پر بندوق رکھ کر چلانا چاہتے ہیں۔
جو جا بجا مولانا کی پاکستان کے وجود کے حوالے سے کسی منفی پیش گوئی کو بڑے چائو سے پیش کرتے ہیں۔ دراصل زیادہ تر ردعمل ایسی پیش گوئیوں پر آتا ہے اور اس کے تمام تر ذمہ دار مولانا کے بظاہر محبین اور حامی ہی ہیں۔
مولانا آزاد کی بہت سی آرا اور پیش گوئیاں ہیں، ہوں گی۔ ان میں سے کوئی درست نکل آئی تو بعض غلط بھی نکلیں۔ ہر آدمی اپنے لمحہ موجود اور اس وقت کی دنیا میں رہتے ہوئے بہت سی باتیں کرتا ہے، بعض باتیں میٹافور ہوتی ہیں، پیش گوئی نہیں۔
جیسے بہت سے لوگ مختلف سپرپاورز کی تباہی کی باتیں کرتے رہتے ہیں، بعض چین کی تباہی کی باتیں بھی کر رہے ہوں گے، کل کو کچھ نہ کچھ ہو ہی جاتا ہے تو ان کی وہ بات سچی پیش گوئی نہیں بن جاتی، ایک میٹافور ہی رہے گی۔
میرا خیال ہے کہ چھہتر برس گزرنے کے بعد ہمیں موو آن کرنا چاہیے، آگے بڑھنا چاہیے۔ اب مولانا کی پون صدی قبل کی سیاسی سوچ اور رائے ہمارا بنیادی ایشو نہیں رہا۔ معاملات بہت آگے بڑھ چکے ہیں، نئے مسائل، نئے ایشوز، نئے چیلنجز درپیش ہیں۔
البتہ مولانا کی علمی، ادبی آرا یا تحریریں اب بھی ایک خاص حد تک اہم، متعلق اور تروتازہ ہیں۔ ان پر بات ہوسکتی ہے۔ ہمیں اپنے بزرگوں کا احترام کرنا چاہیے۔ خاندان کے بعض بزرگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی ہمارے والد یا دادا نانا سے نہیں بنی تھی، مگر وہ بہرحال خاندان کے بزرگ ہی ہیں۔
ہمارے اجداد نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ اپنے بزرگوں کا احترام کرو اور پرانی نسل کے اختلاف کا یہ مطلب نہیں کہ نئی نسل کو زبان درازی کی اجازت مل جائے۔ ہم نے تو اپنے بڑوں سے یہی سیکھا اور یہی بھلا لگتا ہے۔ فیس بک کے احباب کو بھی میرا یہی مشورہ ہے۔