Sunday, 28 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Amir Khakwani/
  4. Kuch Zikr e Khair Jamaat e Islami Aur Jmaatiyon Ka

Kuch Zikr e Khair Jamaat e Islami Aur Jmaatiyon Ka

کچھ ذکر خیر جماعت اسلامی اور جماعتیوں کا

میں تحریک انصاف کے لوگوں کو تنقید کے حوالے سے سب سے برا ردعمل دینے والا سمجھتا ہوں۔ زرا تنقید کی نہیں اور فوری گالیوں کی بوچھاڑ بھی ہوجائے گی اور پھر جگہ جگہ یہ لوگ میرے خلاف پوسٹیں کرتے، چپکاتے پھریں گے۔ خیر اب تو ایسے شدت پسندوں میں سے بہت سے میرے ہاتھوں بلاک ہوچکے ہیں تو ان کا زہریلا پروپیگنڈہ مجھے نظر ہی نہیں آتا۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی پرجوش انصافین کی پوسٹ سے گزرا تو وہاں پر سو کمنٹس دیکھے مگر مجھے صرف بیس پچیس نظر آ رہے ہوتے ہیں۔

ن لیگ والے بھی منفی ردعمل میں کم نہیں، پی پی والے نسبتاً کم شدید ردعمل دیتے ہیں، شائد میرے حلقہ میں ہیں ہی کم۔ جے یوآئی والے ویسے چپ پڑے رہتے ہیں، مگر مولانا فضل الرحمن ان کی ریڈلائن ہے۔ مولانا پر تنقید ہوئی نہیں اور سب نیزے بھالے تان کر حملہ آور ہوجاتے ہیں۔

ان شدید منفی ردعمل دینے والوں میں جماعت اسلامی والے بھی شامل ہیں۔ مجھے پڑھنے والوں میں جماعت، جمعیت اور سابقین جمعیت کا خاصا بڑا حصہ ہے۔ اس کی وجہ شائد یہ کہ میرے کئی موضوعات ان کی بھی دلچسپی کا موضوع ہیں، خاص کر اسلامی تحریکوں پر تحریریں یا اسلامک کلچر، سیکولرازم وغیرہ کے رد میں لکھنا، کتابیں بھی جماعت کے حلقے میں پڑھی جاتی ہیں تو کتابوں پر تحریریں بھی یہ پڑھتے ہی ہیں۔

اس کے باوجود جیسے ہی جماعت اسلامی پر تنقید ہو، تب ان میں سے بھی بہت سے ایسے نکل آتے ہیں جو اپنی بدزبانی، دریدہ دہنی میں دوسری جماعتوں سے بازی لینے کی کوشش کرتے ہیں۔

مجال ہے کبھی یہ اپنی غلطی تسلیم کریں یا یہ تسلیم کریں کہ ان کی جماعت نے کوئی غلطی کی ہے، ان کی کوئی پالیسی غلط ہوسکتی ہے یا شکست بلکہ بدترین شکست ہونے میں جماعت کی پالیسیوں کا کردار ہے۔

نہیں، قطعی نہیں۔ ان کے خیال میں اگر جماعت اسلامی کو بدترین شکست ہوئی، اس کے نوے فیصد امیدوارون کی ضمانتیں ضبط ہوگئی ہیں تو اس کی ذمے دار قوم اور ووٹر ہیں۔ یہ ان کی نالائقی ہے کہ جماعت اسلامی کے ہیروں کا انتخاب نہیں کیا۔

کمال ہے بھیا۔ گویا جمہوریت نہ ہوئی، آپ کی ملکیہ لونڈی ہوئی۔ آپ جیت گئے تو خوب، ہار گئے تو پھر اپنی ناکام حکمت عملی، کمزور مبہم، تھکے ہوئے بیانیہ اور امیر صاحب کے رٹے رٹائے فرسودہ صدیوں پرانے بیانات کا قصور نہیں بلکہ قصور وار پاکستانی عوام ہے۔ سبحان اللہ۔

جیسے ہی کسی نے تنقید کی، فوری طور پر اس تجزیہ کار کو دشمن ڈیکلیئر کر دیا۔ ساتھ تہمتیں، مختلف لیبل بھی چسپاں کر دئیے اور ساتھ یہ اعلان بھی فرما دیا کہ ہم تو اسے اپنا ہمدرد سمجھتے تھے، یہ تو فلاں فلاں نکلا۔

بندہ پوچھے بھیا جی آپ کے اس اعلان سے تو اب بے چارے لکھنے والے پریشان ہوجائیں گے، ان کی روٹی بند ہوجائے گی، پانی ان کو خرید کر پینا پڑے گا، سماجی بائیکاٹ ہوجائے گا، حقہ پانی بند، گائوں سے باہر جا کر رہنا پڑے گا۔

حد ہی ہوتی ہے۔ حال یہ ہے کہ ایسا عالم تنہائی جماعت اسلامی پر اس خاکسار نے پچھلے تیس پینتیس برسوں میں نہیں دیکھا۔ ستائیس اٹھائیس سال صحافت میں ہوگئے ہیں۔ آج میڈیا، ڈیجیٹل میڈیا، سوشل میڈیا، کہیں پر جماعت سے ہمدردی رکھنے والا کوئی تجزیہ کار نظر ہی نہیں آتا۔ کوئی ایسا ملتا ہی نہیں جو چار لفظ ان سے ہمدردی کے لکھ دے۔

یہ ہم جیسے پرانی نسل والے ہی ہیں جو پھر بھی اپنا سا تجزیہ کرنے کی کوشش کر ڈالتے ہیں کہ چلو غیر متعلق اور غیر اہم ہی ہوگئی، مگر ہے تو اسلامی تحریکی پارٹی ہی۔ ہے تو مولانا مودودی کی جماعت جس نے اپنے زمانے میں بہترین لوگوں کو پیدا کیا۔

البتہ ایک بات ضرور کہوں گا کہ جماعت کے نظم سے متعلق لوگوں کو میں نے بہترین پایا۔ جماعت کے سوشل میڈیا سیل نے کبھی بدتمیزی نہیں کی۔ اسی طرح جماعت کے مرکزی، صوبائی ذمہ داران سے لے کر تحصیل ضلع کی سطح تک، سب شائستہ اور برداشت والے ہیں۔ لیاقت بلوچ، فرید پراچہ، امیر العظیم، احسان اللہ وقاص، وقاص جعفری، ذکراللہ مجاہد، مشتاق مانگٹ صاحبان اور دیگر احباب ہمیشہ شائستگی، اخلاق اور حلیمی کے ساتھ بات سنتے، پڑھتے ہیں، کبھی انہوں نے تلخ نوائی نہیں کی۔ کبھی ردعمل بھی دینا ہو تو تہذیب اور شائستگی سے دیتے ہیں۔ یہ ظاہر ہے جماعت کی کلاسیکل تربیت کا نتیجہ ہے۔

Check Also

Batu Caves Of Kuala Lumpur

By Altaf Ahmad Aamir