Jo Apni Jagha Datte Hue Hain
جو اپنی جگہ ڈٹے ہوئے ہیں
میں صرف تین چار سال پہلے تک کئی صحافیوں اور وہ لاگرز کو ناپسند کرتا تھا، ان کے خاص انداز کے جارحانہ صحافت پر تنقید کرتا اور اسے نامناسب خیال کرتا۔ ان میں سرفہرست مطیع اللہ جان تھے۔ مطیع اللہ جان جس انداز میں رپورٹنگ کرتے، جارحانہ سوال کرتے اور مائیک دوسرے کے منہ میں زبردستی ٹھونس دیتے اورجواب نہ دینے والے کے ساتھ بھاگ بھاگ کر وہی سوال دہراتے رہتے، یہ سب بہت برا لگتا اور اس پر کئی بار سوشل میڈیا میں پوسٹیں بھی لگائیں۔
اسی طرح اسد طور کا معاملہ ہے۔ انہیں میں زیادہ نہیں جانتا تھا، جب ان کی پٹائی ہوئی، تب ان کے نام کا پتہ چلا۔ ان کےولاگز بعد میں سنتا رہا، خاص کرسابق چیف جسٹس عطا بندیال کے آخری چند مہینوں میں۔ وہ بھی بہت سخت جارحانہ انداز میں تنقید کیا کرتے اور بندیال پسند جج اور آئین پسند ججوں کی اصطلاحات استعمال کرتے جسے میں مناسب نہیں سمجھتا تھا۔
اعزاز سید، عمر چیمہ، انصار عباسی کا بھی ناقد تھا۔
اب وقت بدل چکا ہے، کردار اپنی جگہ بھی تبدیل کر چکے ہیں۔ پہلے جو حکومت میں تھے اب وہ اپوزیشن میں اور معتوب ہیں۔ جو معتوب تھے اب وہ حکومت میں ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کے منظور نظر۔
اس بدلتے منظرنامے میں کئی صحافی اور ولاگر بدل گئے ہیں۔ ان کی پوزشینز بھی تبدیل ہوگئی ہیں۔ جو کل خود کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ کہتے تھےا ور ان کا کہنا تھا کہ وہ عمران خان کے اس لئے نقاد ہیں کہ یہ اسٹیبلشمنٹ کا منظور نظراور ساتھی ہے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ وہ ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کھڑے ہوں گے۔
آج جب مقتدر قوتیں پوری قوت سے عمران خان اور اس کی پارٹی کو کچلنا چاہ رہی ہے، ان کا جیتا ہوا الیکشن چھین لیا گیا اور ہاری ہوئی ن لیگ کو حکومت تھما دی گئی۔ یہی قوتیں پوری طرح موجودہ حکومت اور ن لیگ کے پیچھے کھڑی ہیں، تو جو لوگ ماضی میں دعوے کرتے تھے، اب ان میں سے بیشتر پوری قوت اور اپنے تمام تر ہنر، صلاحیتوں کے ساتھ حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں، ن لیگ اور شریف برادران کا دفاع کر رہے ہیں، عمران خان کے خلاف جھوٹے، بے بنیاد پروپیگنڈے کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔
ایسے میں چند ایک نام ایسے ہیں جو آج بھی پوری جرات، دلیری اور قوت کے ساتھ اپنی اصل جگہ پر کھڑے ہیں۔ وہ کل بھی اینٹی اسٹیبلشمنٹ تھے، آج بھی اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہیں۔ وہ کل بھی اسٹیبلشمنٹ عدلیہ گٹھ جوڑ کے مخالف تھے، آج بھی مخالف ہیں۔ کل انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کی اتحادی تحریک انصاف اور عمران خان کی مخالفت کی تھی تو آج وہ اسٹیبلشمنٹ کی اتحادی ن لیگ، پیپلزپارٹی کے ناقد ہیں۔
میرا خیال ہے کہ یہ دلیر بے باک صحافی خراج تحسین، شاباش اور سلام کے مستحق ہیں۔ ان میں سرفہرست مطیع اللہ جان اور اسد طور ہیں۔ مجھے مطیع اللہ جان کے جارحانہ انداز صحافت سے آج بھی اختلاف ہوگا، وہ جس طرح مائیک لے کر سوال کا جواب نہ دینے والوں کا پیچھا کرتے ہیں، میں اسے رپورٹنگ سٹائل نہیں سمجھتا، مطیع اللہ جان مگر تبدیل نہیں ہوا۔ وہ آج بھی پہلے کی طرح اپنے موقف اور سٹینڈ پر قائم ہے۔ جو قابل تعریف بات ہے۔
میں آج بھی یہ سمجھتا ہوں کہ اسد طور کو نسبتاً محتاط اورکچھ زیادہ شائستہ الفاظ میں ولاگ کرنا چاہیے، وہ ارطغرل ڈرامے کے کردار ترگت کی طرح بڑا تیز دھار کلہاڑا چلانے کے بجائے صرف خنجر چبھوئے گا تب بھی یہ بڑا کام ہوگا۔
ان کے اسلوب اور طریقہ کار یا بعض ولاگز میں دی گئی خبروں سے اختلاف ہوسکتا ہے، مگر یہ بہرحال طے ہوچکا کہ ان کا سٹینڈ مصنوعی یا جھوٹا نہیں تھا۔ یہ اپنی سوچ، فکر اور اصول میں سچے اور کھرے تھے۔ یہ ناقابل فروخت تھے اور ناقابل فروخت ہیں۔ یہ کل بھی جسے درست سمجھتے تھے، وہیں کھڑے تھے، آج بھی یہ جسے درست سمجھتےہیں وہیں کھڑے ہیں۔
مطیع اللہ جان، اسد طور! میں ایک عام صحافی، اوور ویٹ، بلڈ پریشر، شوگر کا مریض ہوں، آپ کا عملی ساتھ نہیں دے سکتا، آپ جیسی جرات بھی نہیں رکھتا، آپ جیسی قربانیاں دینے کی شائد سکت بھی نہیں، یہ بات مگر کھل کر کہنا چاہتا ہوں کہ میں آپ لوگوں کے لئے دعاگو ہوں، آپ کی جرات اور دلیری کا مداح ہوں۔ دل کھول کر آپ کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ آپ کو سلام پیش کرتا ہوں۔
رب کریم آپ سب کی حفاظت کرے، اللہ کی لافانی امان میں رہو، اسی کی شیلڈ میں زندگی بسر ہو، ہر قسم کے شر سے حفاظت ہو اور استقامت کے ساتھ سیدھے راستے پرچلتے رہو۔
اس فہرست میں کورٹ رپورٹنگ کے حوالے سے حسنات ملک کا نام بھی لیا جا سکتا ہے۔ یہ کل سابق چیف جسٹس عطا بندیال کے کمزور فیصلوں کے ناقد تھے تو آج چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے کمزور فیصلوں کے بھی پرزور ناقد ہیں۔ احمد نورانی ایک انتہا پر جا چکے ہیں، مگر بہرحال وہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہی تھے اور ہیں۔
نوٹ: میں اس تحریر کو مثبت ہی رکھنا چاہتا ہوں، اس لئے کسی کے خلاف بات نہیں کروں گا، آپ خود اندازہ کر سکتے ہیں کہ کون کل خود کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ کہتا تھا اور آج وہ عملی طور پر اسٹیبلشمنٹ پلس ن لیگی حکومت کا دفاع کرنے والا اور ان کا ترجمان اور ساتھی بنا ہوا ہے۔
نوٹ نمبر دو: کئی ایسے دلیر اور جرات مند صحافی ایسے بھی ہیں جو آج حکومت کے جبر اور دبائو کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان میں سے بعض کو اپنی نوکری سے ہاتھ دھونے پڑے۔ ان کا نام اس اوپر والی فہرست میں اس لئے نہیں لیا کہ یہ تحریک انصاف کے دور میں تحریک انصاف کے ساتھ کھڑے تھے، یہ تب بھی ن لیگ کے مخالف تھے اور آج بھی یہ ن لیگ اور پی ڈی ایم جماعتوں کے مخالف ہیں۔ کل کو یہ خیال کیا جاتا تھا کہ یہ صحافی اسٹیبلشمنٹ کے آلہ کار ہیں، مگر آج یہ مغالطہ دور ہوچکا۔
یہ صحافی، ولاگر، یوٹیوبر بھی دلیر اور جرات مند ہیں۔ جرات سے اپنی بات کہہ رہے ہیں۔ ان میں بہت سے نام آتے ہیں، میں ممکن ہے بعض نام بھول جائوں تو اس کی پیشگی معذرت۔
(میں ہارون الرشید صاحب، ارشاد احمد عارف صاحب، اوریا مقبول جان، زاہد حسین، مظہر عباس صاحبان اور دیگر سینئر صحافیوں اور ایڈیٹرز کا نام نہیں لے رہا کہ اپنے سے زیادہ سینئر لوگوں پر ججمنٹ دینا نامناسب ہے)۔
عمران ریاض، صابر شاکر، اسداللہ خان، سمیع ابراہیم، خاور گھمن، چودھری غلام رسول، صدیق جان، طارق متین، عیسیٰ نقوی، ثاقب بشیر وغیرہ وغیرہ۔
ان میں سے بعض کے انداز صحافت اور اسلوب یا جارحانہ انداز سے مجھے کل بھی اختلاف تھا، آج بھی ہے، مگر بہرحال یہ جرات سے اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں اور دبائو کا مقابلہ کر رہے ہیں جو کہ قابل تعریف ہے۔
تیسرا نوٹ: محترم شاہین صہبائی اور وجاہت ایس خان اور کسی حد تک ڈاکٹر معید پیرزادہ کو میں اس فہرست میں شامل نہیں کرتا، میرے نزدیک صہبائی صاحب ریڈ لائنز کراس کر چکے ہیں، وہ اب ذمہ دارانہ صحافت نہیں کر رہے اور عجیب وغریب سازشی تھیوریز کے اسیر ہیں۔ صہبائی صاحب اپنا توازن کھو چکے ہیں اور وجاہت ایس خان بھی۔ ڈاکٹر معید پیرزادہ بھی اسی جانب جا رہے ہیں۔ اس کا خیال رکھنا چاہیے کہ حکومت یا اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت آپ کو ملک مخالفوں کی صف میں نہ لے جائے۔ یہ بات ان محترم صاحبان کو ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے۔