Cricket World Cup, India Se Shikast Kahani
کرکٹ ورلڈ کپ، انڈیا سے شکست کہانی
آج زیادہ تنقید اور گالیاں پاکستانی بلے بازوں کو پڑیں گی اور وہ بالکل ذمہ دار ہیں مگر بولروں نے بھی بہت غلطیاں کیں، وکٹ کے دونوں طرف گیندیں کراتے رہے اور کئی فضول چوکے کھائے۔ ان کی خوش قسمتی کہ ٹھیک وقت پر وکٹیں ملتی رہیں۔ نسیم شاہ نے بھی ابتدا میں ایسا کیا، کوہلی ایک بری اور لوز گیند پر آوٹ ہوا، اسی طرح روہت شرما جس گیند پر آوٹ ہوا، ویسی گیند پر وہ پہلے چھکا لگا چکا تھا۔
شاہین شاہ اور حارث روف بھی کچھ سیکھنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ محمد عامر نے چوتھا اوور کرایا، اس میں گیند کو آگے رکھ کر باہر سوئنگ کرائی اور مسلسل اکثر پٹیل کو بیٹ کرایا۔ اگلے اوور میں شاہین آیا اور آتے ہی بے تکی شارٹ پچ کرا کر اسی اکثر پٹیل سے چھکا اور چوکا کھا لیا۔ وقار یونس حیران ہو کر بولا کہ شاہین کو نظر بھی آ رہا کہ عامر نے اسے کیسی گیندیں کرائی ہیں، اسے ویسے کرںا چاہئیے تھا، نیا تجربہ کیوں کیا؟
یہی حارث نے کیا، خواہ مخواہ لیگ سٹمپ پر گیندیں کرا کر چوکے کھائے۔ شکر ہے بعد میں بہتر باولنگ کرائی حارث ہمیشہ ٹیپ بال باولر کی طرح سوچتا ہے۔ عماد وسیم نے بہت اچھی باولنگ کرائی، سب سے اچھا وہ رہا۔ عامرنے عمدہ باولنگ کرائی اور نسیم شاہ نے بھی۔ پاکستان پندرہ بیس رنز کم دے سکتا تھا اگر بمرا، سراج جیسی نپی تلی باولنگ کراتے۔
بیٹنگ میں بابر کا قصور نہیں، وہ اچھا کھیل رہا تھا، بمرا کو اچھا چوکا لگایا اور پھر کٹ کرکے سنگل لینے گیا مگر سافٹ ہینڈ سے شاٹ نہ کھیل سکا۔ سٹارٹ مگر اچھا تھا اور دباو نہیں تھا۔ عثمان خان بھی رک کر تو کھیلا، اندھا دھند وکٹ تھرو نہیں کی مگر انٹرنیشنل کرکٹ میں وہ غیر معمولی کھیل پیش نہیں کر پا رہا۔
پاکستان نے دس اوورز میں چھ کی ایوریج سے رنز بنائے تھے اور صرف ایک آوٹ ہوا تھا، اگلے دس اوورز میں صرف چھ کی ایورج سے ساٹھ باسٹھ رنز بنانے تھے۔ انڈین تب دباو میں آ گئے تھے۔
عثمان خان ایک اچھی گیند پر آوٹ ہوا۔ فخر آیا، آتے ہی اکثر پٹیل کو لمبا چھکا مارا، اگلے اوور میں سراج کو چوکا۔ میں نے تب بچوں سے کہا کہ اگر فخر زماں صرف چار اوورز بندہ بن کر کھیل لے تو پاکستان میچ جیت جائے گا۔ فخر کی وجہ سے روہت نے فاسٹ باولر لگا دئیے مگر ایک اوور سپنر نے لازمی کرانا تھا، اس سے فخر فائدہ اٹھا سکتا تھا۔
فخر دس سال سے کھیل رہا ہے، تین چار ورلڈ کپ کھیل چکا ہے، بھارت کے خلاف بھی کئی میچ کھیلے ہیں مگر ہمیشہ یہ ڈفر، احمق اور فاتر العقل رہا ہے۔ مجال ہے جو کبھی میچ کی سیچوئشن کو دیکھ کر کھیلے۔ کتنے ہی میچ اس کی فضولیات کی وجہ سے ہم ہارے۔ وہ ٹیم کا سب سے اچھا ہٹر ہے تو تھوڑا سنبھال کر کھیلے۔
آج بھی فخر نے مایوس ہی کیا۔ اگلے اوور میں پانڈیا کو خواہ مخواہ باہر نکل کر نہایت غیر ضروری شاٹ کھیل کر آوٹ ہوگیا۔ اسے پتہ ہے کہ پانڈیا شارٹ آف لینتھ گیند کراتا ہے، اسے باہر نکل کر اس پچ پر کھیلنا بنتا ہی نہیں۔ فخر نے اپنی وکٹ تھرو کی جو مجرمانہ غفلت تھی۔
اس کے بعد شاداب کا آنا بنتا تھا کیونکہ اس نے پچھلے میچ میں اچھی بیٹنگ کی تھی۔ نجانے کیوں عماد وسیم کو بھیج دیا گیا، جس سے کوئی شاٹ ہی نہیں لگ رہی تھی اور جو مسلسل گیندیں مس کر رہا تھا۔ میچ ہارنے کی ذمہ داری عماد وسیم پر بھی عائد ہوتی ہے، اس نے دباو بڑھایا اور اکثر پٹیل جس کے اوور میں رنز بنانے چاہیے تھی اس کی تین گیندیں عجیب و غریب انداز میں مس کیں اور پھر ایک سنگل کیا یعنی چار گیندوں میں صرف ایک رنز۔
اس سے پہلے چودہ اوور میں تراسی رنز تھے اور تین آوٹ۔ رضوان بیٹنگ کر رہا تھا چھ اوورز میں صرف سینتیس رنز بنانے تھا۔ روہت شرما نے بمرا کو بلایا۔ کمنٹری باکس میں وقار یونس چلا رہا تھا کہ بمرا کا اوور بہت اہم ہے، اسے احتیاط سے کھیلنا چاہئیے کیونکہ اس کے بعد انڈین دباو میں آ جانے تھے، ارشدیپ کا اوور بھی تھا اور اکثر پٹیل اور پانڈیا کاایک ایک اوور بھی۔
ہمیں باہر بیٹھ کر سمجھ آرہی تھی کہ بمرا پر رسک نہ لیا جائے، سنگلز لئے جائیں اور اگلے دو اوورز میں ہٹنگ کی کوشش کی جائے۔
رضوان جیسے تجربہ کار اور سیٹ بلے باز نے مگر پہلی گیند کو عجیب و غریب کراس شاٹ مارنے کی کوشش کی اور بولڈ ہو گئا۔ یہ نہایت احمقانہ اور غیر ضروری شاٹ تھا۔ رضوان کو سیدھا کھیل کر سنگل لے لینا چاہئیے تھا۔ رضوان کا آوٹ ہونا ٹرننگ پوائنٹ تھا۔ پھر ٹیم ایسے دباو میں آئی کہ نہ اکثر پٹیل کو مار سکی نہ پانڈیا کو۔
شاداب اور افتخار نے ہمیشہ کی طرح مایوس کرتے ہوئے وکٹیں گنوائیں اور پھر آخری اوور میں اٹھارہ کا ہدف ملا جو اس پچ پر ناممکن تھا۔ نسیم شاہ نے بلا گھمایا تو سہی۔ بہتر ہوتا کہ شاداب اور افتخار سے نسیم ہی کو پہلے بھیج دیتے شائد ایک دو باونڈریاں لگا ہی لیتا۔
انڈیا کی ٹیم نے اچھی نپی تلی باولنگ کی خاص کر بمرا ایکسٹرا آرڈنری تھا، سراج نے بھی بہت اچھی باولنگ کی۔ پانڈیا نے اہم بریک تھرو دئیے۔ سب سے بڑھ کر ان کے باولرز نے پچ کو سمجھ کر گڈ لینتھ پر نپی تلی باولنگ کی۔ اس باولنگ کا توڑ صرف بابر اور رضوان کر سکتے تھے یا فخر اپنی غیر معمولی ہٹنگ سے۔ یہ نہیں کر پائے اور پاکستان جس کے میچ جیتنے کے چانسز ایک وقت میں بانوے فیصد تھے، وہ آرام سے ہار گیا۔
ہماری مینٹل ٹف نیس کا ایشو بھی ہے مگر یہ بھی مانیں کہ ہمارے کھلاڑیوں کے تکنیکی مسائل بھی بہت سے ہیں۔ پچ اور سیچوئشن کو سمجھ کر کھیلنا انہیں نہیں آتا۔ ہم اپنے پی ایس ایل کے بہت گیت گاتے ہیں حالانکہ ایسا شائد نہیں۔ پی ایس ایل میں چھکوں کی بارش کرنے والے انٹرنیشنل میچز میں کوالٹی باولنگ پر صفر کیوں ہو جاتے ہیں؟ اس لئے کہ پی ایس ایل میں کوالٹی باولر ایک دو ہی ہیں، باقی کمزور لنکس ہیں۔
اگر کرکٹ میں چیمپئن بننا ہے تو بہت کچھ بدلنا پڑے گا اور افتخار جیسے چلے ہوئے کارتوسوں سے ہمیشہ کے لئے جان چھڑائی جائے۔ شاداب سے بھی، جبکہ فخر زماں اگر موقعہ کے مطابق نہیں کھیل سکتا تو اس کا کیا فائدہ؟ پھر نئے کھلاڑی ڈھونڈے اور ان پر محنت کی جائے۔