Sunday, 28 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Amir Khakwani/
  4. Boycott

Boycott

بائیکاٹ

احتجاج کے طور پر کسی غیر ملکی پراڈکٹ یا پراڈکٹس کے بائیکاٹ کا میں مخالف نہیں۔ یہ ایک پرامن احتجاجی حکمت عملی ہے، اسے اپنانے میں کوئی حرج نہیں۔ فلسطین کے حوالے سے بعض پراڈکٹ اور برانڈز کا بائیکاٹ کیا گیا۔ یہ بھی ٹھیک ہے۔ احتجاج ظاہر کرنے کا یہ بھی ایک طریقہ ہے۔

میں ذاتی طور پر روٹین میں بھی کوشش کرتا ہوں کہ روزمرہ اشیا کے حوالے سے مقامی مصنوعات اور برانڈز کو ترجیح دی جائے۔ جیسے ہمارے گھر میں چائے کی پتی کئی برسوں سے وائٹل کی استعمال ہوتی ہے، کوکنگ آئل صوفی کا، پنیر اگر لینا پڑے تو کسی مقامی کمپنی کا، اسی طرح بعض دیگر اشیا بھی۔ اب تو سرف بھی بریو نامی ایک کمپنی کا استعمال ہورہا۔

برگر، سینڈوچ بنانے والے مشہور برانڈز ویسے بھی ترجیح نہیں کہ مہنگے زیادہ ہیں اور اونچی دکان پھیکا پکوان والا معاملہ ہے۔ مجھے اس سے اختلاف نہیں کہ کوئی مکڈ انلڈ یا کے ا یف سی کا با ئیکاٹ کر رہا۔ یہ پسند اور ترجیح کا معاملہ ہے۔

تاہم یہ ذہن میں رہے کہ امپورٹ کی گئی بعض دیگر چیزوں اور ان برگر اوٹ لیٹس میں بنیادی فرق یہ ہے کہ یہ فرنچائز ہیں اور ان کے مالک پاکستانی ہیں اور ان اوٹ لیٹس پر ہزاروں لاکھوں پاکستانی لیبر کام کر رہی، یہ ریاست پاکستان کو کروڑوں اربوں کا ٹیکس بھی دیتے ہیں بلکہ مقامی کمپںنی توگڑبڑ کر جائے گی، کارپوریٹ کلچر والی یہ کمپنیاں زیادہ ٹیکس دیتی ہیں۔

اس لئے ان کے بائیکاٹ کے حوالے سے شدت نہیں اپنانی چاہیے۔ کوئی چاہے تو کر دے، نہ چاہے تو نہ کرے۔

پی ایس ایل خالص پاکستانی برانڈ ہے، پاکستانی پراڈکٹ۔ اس کے سپانسرز میں کے ایف سی کے شامل ہونے پر احتجاج کرنے میں حرج نہیں۔ مقصد اپنی حساسیت بتانا اور مظلوموں کے ساتھ یک جہتی دکھانا ہے۔ ضرور ایسا کریں۔

اگر آپ کا جی چاہتا ہے تو پی ایس ایل میچز بھی نہ دیکھیں۔ ویسے جسے کرکٹ پسند نہیں، اس نے تو پی ایس ایل میچز عام حالات میں بھی نہیں دیکھنے۔ ہماری عرض بس یہ ہے کہ شدت نہ دکھائیں۔

اگر کوئی پی ایس ایل میچز دیکھتا ہے اور اس برگر برانڈ کے پرشدت حد بائیکاٹ کا حامی نہیں تو اسے مجرم نہ بنائیں۔ اسے ظالموں کاساتھی بھی ڈیکلئیر نہ کریں، اسے مظلوموں کے خون سے ہولی کھیلنے اور معصوم بچوں کے المناک قتل میں شریک ہونے کے جذباتی طعنے بھی نہ دیں۔

یہ شدت پسندی ہے۔ انتہائی سوچ ہے اور پی ایس ایل دیکھنے یا اس کا تذکرہ کرنے والے کو ان فرینڈ کرنے کی دھمکی تو خیر حد سے گزرنا ہی ہے۔

مکرر عرض ہے کہ آپ جسے درست سمجھتے ہیں، ضرور کریں، اس کی تلقین بھی کریں۔ یہ آپ کا حق ہے۔

اگر دوسرے آپ کی طرح نہیں کر رہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ظالم، بے حس، پتھر دل یا نفس کے غلام ہیں۔ ضروری نہیں کہ ایسا ہو۔ ممکن ہے ان کی تعبیر و تشریح مختلف ہو، ممکن ہے وہ آپ کی اس حوالے سے رائے سے متفق نہ ہوں۔ انہیں حسن ظن کی رعایت دیجئے۔

Check Also

Bhook, Khauf Aur Sabr

By Javed Ayaz Khan