Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Amir Khakwani
  4. Bachiyon Ki Shadi Kab Ho?

Bachiyon Ki Shadi Kab Ho?

بچیوں کی شادی کب ہو؟

میرا خیال ہے کہ بعض اوقات چیزوں کا دیکھنے کا اینگل ایسا ہوتا ہے کہ دو لوگوں کو ایک ہی چیز مختلف نظر آتی ہے، جیسے ایک اینگل سے چھ 6 اور دوسرے سے نو 9 نظر آتا ہے۔ ایسا ہی خواتین کی شادی کی بحث کا ہے، پچیس یا پینتیس یا کچھ اور۔ یہ بحث خاصی بڑھ گئی ہے اور اس میں تندی آ رہی ہے اور کسی حد تک پرسنل اٹیک بھی۔

میرا خیال ہے کہ بحث کو ختم کرکے آگے بڑھنا چاہیے۔ دونوں نقطہ نظر سامنے آ گئے ہیں، دونوں کے حق اور رد میں دلائل بھی۔میرے نزدیک دونوں فریق اپنے نقطہ نظر میں کسی حد تک ٹھیک ہیں، افراط و تفریط البتہ ممکن ہے۔

ہمارے نوجوان دوست اور سپیشل ایجوکیش ایکسپرٹ کی یہ بات تو اپنی جگہ ٹھیک ہے کہ بیٹیوں کی شادی میں غیر ضروری تاخیر نہیں ہونی چاہئیے بائیس چوبیس پچیس چھبیس تک شادی ہو جائے تو اچھا ہے۔اس دوران ایم اے، ایم فل بھی ہو جاتا ہے اور ایم بی بی ایس تک مکمل ہو جاتا ہے بلکہ ہاوس جاب بھی۔ اچھا اور مناسب رشتہ ملے تو شادی کر دینی چاہئیے۔

بچی کی پروفیشنل تعلیم ہے یا وہ کیرئر اورینٹڈ ہے تو سسرال والوں سے بات پہلے طے کر لی جائے، لڑکے سے بھی ڈسکس کیا جائے علیحدگی میں اور ساس سسر سے بھی واضح طور پر بات کر لی جائے۔یہ بھی دیکھ لیا جائے کہ اس گھرانے کا عمومی مزاج کیسا ہے؟ اگر ان کی اپنی بچیاں جاب کر رہی ہیں تو وہ بہو کو کیوں روکیں گے یا اگر ساس بھی جاب کرتی رہیں، ریٹائر پروفیسر، ڈاکٹر یا سرکاری ملازم وغیرہ تو رکاوٹ بہو کے لئے کم ہی ائے گی۔

باقی یہ بات تو ٹیکنیکل اور میڈیکل ڈیٹا کی ہے کہ دیر سے شادی کرنے کی صورت میں کس حد تک طبی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں یا خدانخواستہ بعض کیسز میں سپیشل بچہ ہونے کا کتنا امکان ہے۔یہ تو میڈیکل سائنس اور جدید ریسرچ اور ڈیٹا کا سوال ہے۔ اگر بات امر واقعہ ہے یا نہیں؟ اس پر ڈاکٹرز رائے دیں۔ جہاں تک میری معلومات ہیں، اس پر مختلف میڈیکل آرا اور ریسرچز موجود ہیں۔

یہ بہت ضروری ہے کہ جو بات جتنی ہے اتنی کہی جائے، اس میں مبالغہ نہیں ہو۔

ہم نے بے شماد شادیاں دیکھی ہیں جن میں خاتون پینتیس، اڑتیس یا چالیس کی تھیں، ان کے صحت مند بچے ہوئے اور وہ بہت خوش و خرم زندگی گزار رہی ہیں۔ میچور ہونے کی وجہ سے وہ خاوندوں کے ساتھ بہت اچھا ایڈجسٹ بھی کر لیتی ہیں اور ان میں تحمل بھی زیادہ ہوتا ہے۔ جبکہ کئی نو عمر لڑکیوں کی اولاد سپیشل دیکھی اور ان کی شادیاں جذباتیت سے ناکام ہوتی بھی نظر آئیں۔

تو کوئی بہت ہارڈ فاسٹ اصول نہیں بنا سکتے۔ اگر دو تین یا ایک فیصد تک امکان ہو تو وہ استثنائی قرار پاتا ہے، اسے جنرل اصول نہیں بنا سکتے۔

اس میں ایک بہت اہم فیکٹر یہ بھی ہے کہ بیشتر کیسز میں یعنی ساٹھ ستر فیصد سے زیادہ معاملات میں لڑکی یا والدین خود دیر نہیں کر رہے ہوتے، انہیں کوئی مناسب رشتہ دستیاب نہیں ہوتا۔ ایک اچھی، سلجھی ہوئی، اعلی تعلیم یافتہ لڑکی پڑھ لکھ کر گھر بیٹھی ہے، رشتہ نہ آئے تو وہ کیا کرے؟

مجبور ہو کر لڑکیاں جاب شروع کر دیتی ہیں یا آگے ایم فل، پی ایچ ڈی وغیرہ میں داخلہ لے لیتی ہیں اور بہت بار کوئی پوچھے تو تعلیم یا جاب کا عذر کر دیتی ہیں۔ اور کیا کہیں؟ کیا یہ کہیں کہ میں چونکہ زیادہ خوبصورت، تیز طرار، تمطرو نہیں ہوں اسی لئے کوئی اچھا رشتہ نہیں آ رہا؟ یہ بات کوئی عورت قطعی نہیں کہہ سکتی۔

چند فیصد کیسز میں برادری وغیرہ کی رکاوٹ آتی ہے یا والدین چاہتے ہیں کہ لڑکے کی جاب بہتر ہو یا اپنا مکان وغیرہ تاکہ کچھ تو معاشی سکیورٹی ہو۔ اس حوالے سے والدین کو معقول اور لچکدار رہنا چاہئیے۔

میرے خیال میں غلطی یہ ہوئی کہ جو باتیں کہنی چاہئیے تھیں وہ کہی تو گئیں مگر انداز کچھ درشت یا حتمی ہوگیا، کہیں بعض ایسے جملے بھی جو شائد بہت سی خواتین کے دل دکھا گئے۔ ہم لائٹ وے میں بھی تھرٹی پلس لڑکی کو آنٹی یاتھرٹی پلس لڑکے کو انکل نہیں کہہ سکتے۔ خواتین کے لئے لفظ آنٹی تو استعمال کرنا بنتا ہی نہیں۔ صرف باجی، آپی، اپیا، بجو وغیرہ ہی ہونا چاہئیے۔ ان کی عمر کے اخری سانس تک۔

باقی یقین مانئے تھرٹی پلس خواتین کسی سے کم نہیں۔ وہ زیادہ میچور، سمجھدار، زیادہ اٹریکٹو اور گریس فل ہوتی ہیں، اپنے خاوندوں کا ساتھ دینے والی، اپنا رشتہ نبھانے والی کہ انہیں علم ہوتا ہے یہ رشتہ نبھانا اور کامیاب کرنا ہے۔

خواتین سے معذرت مگر خالص مردانہ زبان میں یہ ضرور کہنا چاہوں گاکہ تھرٹی پلس میچور خواتین فزیکلی اپنے خاوندوں سے بہت اچھا، بہتر اور نہایت راحت بخش تعلق بناتی ہیں۔ اپنی اویرنیس، سمجھداری، ذہنی پختگی کی وجہ سے وہ بے جا شرمیلی بوبو نہیں بنتیں اور اپنے خاوند کی جسمانی ضرورتوں اور اموشنل نیڈز کو بہت اچھے سے پوری کرتی ہیں۔

ٹین ایجر یا نوجوان لڑکیاں بہت بار قربت کے لمحات میں بے جا شرم، غیر ضروری حجاب یا تکلف کا شکار رہتی ہیں۔ ان کے خاوندوں کو زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے اپنی پارٹنر کی تربیت پر۔

بالکل ایسے کہ بیس بائیس سالہ یا پچیس سالہ لڑکا جزبات میں پھنکتا، بھبھکتا ہوا ہمیشہ عجلت میں رہے گا۔ تھرٹی پلس میچور مرد کا رویہ نسبتا زیادہ معتدل، ٹھیراو والا ہوگا، تمام باکسز پر ٹک مارک کرنے والا۔

بات طویل ہوگئی مگر ضروری تھی۔

نچوڑ یہ کہ اگر بائیس سے پچیس چھبیس تک لڑکی کی شادی ہو جائے تو اچھا ہے، اس کے فوائد ہیں۔

اگر شادی میں تاخیر ہوئی اور عمر تیس سے بڑھ کر پینتیس یا آگے چلی گئی تو اس تاخیر کے بہت سے اسباب ہوتے ہیں اور بہت بار لڑکی یا والدین کا قصور نہیں، اس لئے انہیں ہم مطعون نہیں کر سکتے۔

ہم صرف سلیقے سے ترغیب دے سکتے ہیں اور ان اسباب کے سدباب کی کوشش جن کی وجہ سے دیر ہوتی ہے۔ جیسے لڑکوں کو بھی ترغیب دینا کہ اعلی تعلیم یافتہ گھرانوں میں شادی کرو اور صرف شکل یا دولت کے پیچھے نہ بھاگو۔

مزید یہ کہ زیادہ عمر کی شادی اور پریگنینسی کے کچھ مسائل ہو سکتے ہیں مگر ایسا نہیں کہ ٹرائی ہی نہ کی جائے یا بچے صحت مند نہیں ہوں گے۔ ہرگز نہیں۔ البتہ اگر لیٹ عمر میں پریگنینسی ہے تو زیادہ ہوشیار، مستعد اور سمجھدار رہنا ہوگا۔ الٹرا ساونڈ وغیرہ کو عام گائنی ڈاکٹر کے بجائے کسی اچھے ریڈیالوجسٹ وغیرہ کو دکھانا، بروقت ڈاکٹر کے مشورے کے مطابق ملٹی وٹامن سپیلیمنٹ اور رب کریم سے متواتر دعا۔ ان شااللہ سب خیر رہے گی اور odds آپ ہی کے فیور میں جائیں گے۔

سوشل میڈیا پر ایسے مباحث میں حرج نہیں۔ میرے جیسے کم معلومات والوں کو بہت فائدہ پہنچتا ہے ہاں بحث آگے بڑھے تو تلخی پیدا ہوتی ہے جو مناسب نہیں۔ ایک دوسرے کو بلاک کرنا دراصل اپنے لئے معلومات کے ایک در کو بند کرنا ہی ہے۔ اسلئے اگے بڑھنا چاہیے، دل صاف کرکے۔ دل شفاف رہنے چاہئیں۔ یہ خدا کا گھر ہیں۔

Check Also

Phone Hamare Janaze Nigal Gaye

By Azhar Hussain Bhatti