Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ali Hassan
  4. Qaum Ki Soch Ka Hairan Kun Safar

Qaum Ki Soch Ka Hairan Kun Safar

قوم کی سوچ کا حیران کن سفر

پاکستانی قوم، جو کبھی امریکہ کو اپنی مشکلات کی جڑ قرار دے رہی تھی اور "غلامی نامنظور" کے نعرے لگا رہی تھی، آج اسی امریکہ سے ڈونلڈ ٹرمپ کی فتح کے ذریعے عمران خان کے لیے امیدیں باندھ رہی ہے۔ یہ ایک ایسی قوم کی کہانی ہے جو چند ماہ کے اندر جذبات، نعروں، اور بیانیوں کے زیرِ اثر اپنے موقف اور سوچ کو یکسر تبدیل کر دیتی ہے۔

عمران خان کے اقتدار کے خاتمے سے شروع ہونے والا یہ سفر، جہاں عوام نے بیرونی سازش کے خلاف علم بلند کیا، آج اس تضاد پر منتج ہوا کہ وہی قوم، جس نے امریکی مداخلت کو اپنی خودمختاری کے خلاف سمجھا، اب اسی بیرونی طاقت سے مدد کی امید لگائے بیٹھی ہے۔ یہ تضاد ہماری اجتماعی سوچ اور قومی پختگی کے فقدان کو ظاہر کرتا ہے۔

یہ سب اس وقت شروع ہوا جب عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے ہٹایا گیا۔ خان صاحب نے اس سیاسی تبدیلی کو بیرونی سازش قرار دیا اور دعویٰ کیا کہ امریکہ نے ان کی حکومت ختم کرنے کے لیے سازش کی ہے۔ "غلامی نامنظور" کا نعرہ بلند کیا گیا، جس نے نوجوانوں کو خاص طور پر متحرک کر دیا۔ وہی نوجوان، جو ملک کی اکثریتی آبادی کا حصہ ہیں اور کسی بھی تبدیلی کے لیے فیصلہ کن کردار ادا کر سکتے ہیں، اس بیانیے کے پیچھے کھڑے ہو گئے۔ عوامی اجتماعات، جلسے اور ریلیاں اس بات کا مظہر تھیں کہ قوم نے اس بیانیے کو نہ صرف قبول کیا بلکہ اسے اپنی قومی غیرت اور خودمختاری کی علامت بنا لیا۔

تاہم، یہ جوش زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکا۔ وقت گزرنے کے ساتھ، حالات نے ایک نیا رخ اختیار کیا۔ عمران خان کو جیل بھیج دیا گیا، اور سیاسی منظرنامہ بدلنے لگا۔ جب یہ امید پیدا ہوئی کہ نئے چیف جسٹس کی تقرری سے انصاف کی راہ ہموار ہوگی، تو حکومت نے آئینی ترامیم کے ذریعے عدلیہ پر اثر ڈال کر اپنی مرضی کا چیف جسٹس مقرر کر دیا۔ عوام، جو پہلے ہی سیاسی مایوسی کا شکار تھے، اس نئے فیصلے سے مزید بددل ہو گئے۔ اس دوران، امریکی انتخابات قریب آئے، اور پاکستانی عوام، خاص طور پر خان کے حامی، اس سوچ میں مبتلا ہو گئے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی ممکنہ جیت عمران خان کے لیے ایک نئی امید ہو سکتی ہے۔ وہی قوم، جو کچھ ماہ پہلے تک امریکہ کو اپنی مشکلات کا ذمہ دار ٹھہرا رہی تھی، اب اسی امریکہ سے عمران خان کی رہائی اور بحالی کی امید باندھ رہی تھی۔ یہ ایک غیر معمولی تضاد تھا، جو ہماری اجتماعی سوچ اور جذباتی سیاست کی غیر مستقل مزاجی کو ظاہر کرتا ہے۔

یہاں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ عمران خان نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ ٹرمپ ان کی مدد کریں گے۔ ان کا مؤقف صرف اتنا تھا کہ امریکہ کو غیر جانبدار رہنا چاہیے۔ لیکن عوام نے ان کے مؤقف کو اپنی خواہشات کے مطابق تعبیر کیا اور یہ فرض کر لیا کہ ٹرمپ کی ممکنہ جیت عمران خان کے لیے حالات بدل سکتی ہے۔ یہ سوچ پاکستانی عوام کی اجتماعی نفسیات کو نمایاں کرتی ہے، جو جذباتی سیاست اور بیرونی طاقتوں پر انحصار کے گرد گھومتی ہے۔

عوام کا یہ رویہ مزید سوالات کو جنم دیتا ہے۔ کیا یہ رویہ ہمیں ایک خودمختار قوم بننے میں مدد دے سکتا ہے؟ عوام صرف اس وقت اسٹیبلشمنٹ یا بیرونی طاقتوں کے خلاف ہوتے ہیں جب وہ ان کی پسندیدہ قیادت کے خلاف کام کرتی ہیں، لیکن جیسے ہی یہی قوتیں ان کے حق میں ہوں، ان کا رویہ بدل جاتا ہے۔ یہ طرزِ فکر اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ہم ابھی تک اصولی سیاست کے بجائے شخصیت پرستی کے دائرے میں پھنسے ہوئے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ اس صورتحال سے نکلنے کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے؟ سب سے پہلے، عوام کو یہ سمجھنا ہوگا کہ کوئی بھی بیرونی طاقت ہماری حالت نہیں بدل سکتی جب تک ہم خود اپنی سوچ اور عمل کو درست نہ کریں۔ جذباتی بیانیے وقتی طور پر عوام کو متحرک کر سکتے ہیں، لیکن ان کا اثر ہمیشہ مختصر مدت کے لیے ہوتا ہے۔ ہمیں ایک ایسی اجتماعی سوچ پیدا کرنی ہوگی جو طویل المدتی حکمت عملی اور قومی مفادات پر مبنی ہو۔

پاکستان کے نوجوان، جو قوم کا سب سے بڑا اثاثہ ہیں، ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی توانائیاں تعلیم، تحقیق، اور عملی جدوجہد کی طرف موڑیں۔ یہ وہی نوجوان ہیں جنہوں نے "غلامی نامنظور" کے نعرے کو ایک تحریک میں بدل دیا، لیکن انہیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آزادی کا مطلب صرف نعرے لگانا نہیں بلکہ اپنی سوچ اور عمل کو آزاد کرنا ہے۔

یہ وقت ہے کہ ہم بحیثیت قوم اپنے تضادات کو سمجھیں اور ان سے سبق سیکھیں۔ اگر ہم اپنی اجتماعی طاقت کو صحیح سمت میں استعمال کریں اور قومی خودمختاری پر یقین رکھتے ہوئے اپنے مسائل کا حل خود تلاش کریں، تو ہم اپنی مشکلات پر قابو پا سکتے ہیں۔ لیکن یہ سب تبھی ممکن ہوگا جب ہم اپنی کمزوریوں کو تسلیم کریں اور ان سے سبق لے کر اپنی سمت کو درست کریں۔

About Ali Hassan

Ali Hassan is from Sargodha. He is doing BS International Relations and political science from university of lahore sargodha campus. He is interested in writing on different political and social issues.

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari