Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ahsan Iqbal
  4. Phansi Ho, Phansna Na Ho

Phansi Ho, Phansna Na Ho

پھانسی ہو، پھانسنا نہ ہو

کسی معاشرے میں اگر کوئی خوبی پروان چڑھے تو معاشرے کا ہر فرد اس مجموعی تعریف میں شامل ہوتا ہے جو اس خوبی پر کی جاتی ہے اگرچہ اس کی انفرادی حالت اس کے الٹ ہی کیوں نہ ہو۔ بالکل اسی طرح اگر معاشرے کا کوئی فرد کسی قسم کی کوئی برائی کرتا ہے تو اس کے ناپاک چھینٹے اس معاشرے پر دھبہ لگا دیتے ہیں اگرچہ اس معاشرے کی اکثریت بہتر ہی کیوں نہ ہو۔

گزشتہ چند برسوں سےجنسی جرائم کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے۔ اس درندگی نے انسانیت کا شیرازہ بکھیر دیا ہے۔ اور انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کا کسی درجہ میں کوئی لحاظ نہیں رکھا۔ اگرچہ اس برائی و جرم کا مرتکب کوئی درندہ صفت انسان ہی ہوتا ہے لیکن چونکہ وہ جیسا بھی ہو اس معاشرے کا ایک فرد ہی ہوتا ہے جس کی برائی سے اہل معاشرہ کرب و بلا میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

کچھ عرصہ پہلے معصوم زینب اس درندگی کا شکار ہوئی، پورے ملک میں ایک کہرام مچ گیا، ہر فرد چاہے اس کا تعلق کسی بھی طبقہ سے ہو اس نے حتی الوسع اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائی، اسی دباؤ میں آکر حساس ادارے اور تفتیشی مشینری متحرک ہوئی اور 14 دن میں وہ درندہ صفت انسان قانون کے شکنجے میں آگیا، چنانچہ اس وقت کی حکومت نے ایک بڑی پریس کانفرس کر کے عوام کومطلع کیا کہ مجرم پکڑا جا چکا ہے، ایک رخ یہ تھا تو دوسری طرف اس واقعہ نے کتنی ہی معصوم جانوں پر ہونے والے ظلم سے پردہ اٹھا یا جو عوام کی نظروں سے پوشیدہ تھے، اور نہ جانے کب تک رہتے، وہ الگ ہیں، اور ان کے مجرم کہاں ہیں؟ بحیثیت پاکستانی یہ سوال بنتا ہے۔ پھر اس ظالم کے بارے میں عوامی رائے تھی کہ اسے عبرت ناک سزا دی جائے تا کہ دوبارہ کوئی اس درندگی کی ہمت نہ کر سکے، چنانچہ اس کو پھانسی ہوگئی۔ ہم خوش ہوگئے کامیابی مل گئی، بس کام ختم ہوگیا، لیکن شاید اس بات کو بھلا بیٹھے کہ ابھی تک جتنی بھی تگ ودو کی گئی وہ مجرم کو تلاش میں تھی۔ ابھی اس سے آگے کا مرحلہ باقی تھا کہ جرم کے راستے روکے جاتے، اس جرم کی وجہ تلاش کی جاتی، اس پر کوئی قابل ذکر کام ہوتا، کسی کو نظر آتا لیکن ہم چپ سادھ کر خواب خرگوش میں کھو جاتے ہیں۔

یہ سب یاد دہانی کے طور پر ذکر کردیا، اب آتے ہیں موٹر وے واقعہ کی طرف۔ اس واقعہ میں ملوث اور بچوں پر جنسی تشدد کرنے والوں میں واحد چیز جو مشترک ہے وہ حیا اور انسانیت کا فقدان ہے۔ چنانچہ ہر طرف ایک دفعہ پھر شور ہے کہ مجرم کو عبرت ناک سزا دی جائے۔ یہاں تک تو بات ٹھیک ہے، ہونی چاہئے۔ لیکن ایک سوال کا جواب دیتے جائیں کہ زینب کیس میں بھی سزا ہوئی تھی، لیکن پھر کیا ہوا؟ اس کے جواب کے طور پر ایک تازہ رپورتاژ (رپورٹ) ملاحظہ فرما لیں، قصور کی زینب کے علاوہ بھی بہت سی ایسی جانیں نظر آئیں گی جن کا قصور محض ان کی معصومیت ہے۔ آپ کو ایسے مظلوم بھی ملیں گے جن کی آوازیں اٹھی ضرور تھی لیکن نا جانے پھر کہاں دب کر رہ گئیں۔

ملک بھر میں غیر سرکاری تنظیم جو جنسی ہراسگی کے متعلق سروے کرتی ہے اس کی حالیہ رپورتاژ کے مطابق سال 2020 کے ابتدائی 6 ماہ (جنوری تا جون) میں کم ازکم 8 بچے یومیہ اس ظلم کا شکار ہوئے ہیں اور مجموعی طور پر 1489 بچوں کو درندگی کا نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ جن میں 785 بچیاں اور 704 بچے شامل ہیں۔ سب سے زیادہ 853 کیس پنجاب میں رپورٹ ہوئے اور اسی طرح بالترتیب سندھ میں 477، خیبر پختون خوا میں 91، اسلام آباد میں 35، بلوچستان 22، کشمیر 10 اور گلگت میں ایک کیس رپورٹ ہوا۔ 2019 کے تقابل میں 2020 کے ابتدائی چھ ماہ میں زیادتی کے کیس کم ہونے چاہیے تھے لیکن ان میں 14 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ آخر کیوں؟ اس کا جواب اس وقت بالکل واضح ہو جاتا ہے جب ہم یہ سوچ سکیں کہ اتنے واقعات میں سے کتنوں کو سزا ہوئی؟ اور کون سے چوراہے پر کس مجرم کو لٹکایا گیا؟ اگر آپ نے بھی انگلیوں پہ گنتی شروع کر ڈالی ہے تو چھوڑ دیجئے، بڑوں سے سنا ہے جس کام کوئی فائدہ نہ ہو اس میں مغز کھپانا بڑی غفلت کی بات ہے۔

اس لئے حالیہ واقعہ کے مجرم کی سزا پر ہی بات ختم کرنا تعاون علی المعصیہ کے زمرے میں نہیں آئے گا تو کہاں جائے گا۔ ظلم کرنے والے چند ایک مجرموں کو پھانسی دے کر قوم کو اپنے اس چنگل میں پھانسنا کہ تمام معاملات صرف اسی سے سدھر جائیں گےتو کیا واقعی مجرم رک جائے گا؟ اور اگر یہی خیال ہے تو پھر"ایں خیال است و محال است و جنوں"۔ مجرم کا تعاقب کرنا اور وہ بھی تب جب تک افراتفری نہ ہوتو یقین مانیے رواں برس چھ ماہ کی تازہ رپورٹ اگر آنکھیں ہوں تو کھولنےکو کافی ہے۔ وقتی شور وغوغا کو روکنے کے لئے کچھ بھی کیا جائے لیکن اس کا مستقل حل ہی امن کی راہیں ہموار کرسکتا ہے۔ اور جب تک کڑی سزاؤں کا طلاق کلی طور پر نہیں ہوگا، اور جرم کے سد باب کے لئے کوئی سنجیدہ قدم اٹھائی دیتا دکھائی نہیں دے گا تب تک کوئی مجرم تو کسی نہ کسی دن شکنجے میں آسکتا ہے، لیکن اس جرم کی جڑ باقی رہے گی، کچھ ہی عرصے بعد وہ جرم دوبارہ سر اٹھا کر پوری امت کا سر شرم سے جھکا دے گا۔ اس لئے اگر حالیہ واقعہ کے مجرم کو پھانسی کی سزا ہو بھی جائے تو ایک دفعہ پھر غور کیجئے گا کہ کہیں پھانسنے کا کوئی ٹوٹکہ نہ ہو۔ اگر فی الفور اس بات کو سمجھنے میں دشواری پیش آئے تو آنے والے دن اس کے حقیقی روپ سےپردہ ضرور اٹھائیں گے۔ فانتظروا انّی معکم من المنتظرین۔

Check Also

Gold Jiska Hai, Wo Bhi Hamara Larka Hai

By Asif Masood