Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ahsan Iqbal
  4. Kya Ulma Karam Jazbati Faisla Kar Rahe Hain?

Kya Ulma Karam Jazbati Faisla Kar Rahe Hain?

کیا علماءکرام جذباتی فیصلہ کر رہے ہیں؟

14 اپریل کو جامعہ دارالعلوم کراچی میں اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ کے زیر اہتمام تمام مکاتب فکر کے علماء کا اجلاس ہوا، جس میں موجودہ وبائی صورت حال پر تبادلہ خیال ہوا۔ اس اجلاس میں بذریعہ ٹیلیفون مولانا فضل الرحمان صاحب (امیر جمیعت علماء اسلام) مولانا ساجد میر صاحب (امیر مرکزی جمیعت اہل حدیث) لیاقت بلوچ صاحب اور ناظم وفاق المدارس العربیہ نے شرکت کی۔ اور اس اعلامیہ کی تائید کی۔

یہ اعلامیہ کیا ہے اس بارے اکثر لوگ غلط فہمی کا شکار ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں شاید یہ اعلامیہ جذباتیت کی عکاسی ہے۔ جبکہ پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینئر سیاست دان نے ان علماء کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان کو ملٹری علماء کا لقب دیا ہے۔ اس اعلامیہ میں کیا کہا گیا آیئے اک نظر اس پر بھی ڈالتے ہیں۔

اعلامیہ: یہ وبا جہاں خالق کائنات کی قدرت کا مظاہر ہے وہیں نسل انسانی کیے لئے آزمائش اور ابتلا بھی ہے۔ اس لیے ہمیں اپنے رب کی طرف رجوع کرنا چاہیے اور توبہ و استغفار کرنا چاہیے۔ وبا سے متاثر ہونے والے اورلاک ڈاؤن سے بے روزگار ہونے والوں کی مدد ہماری قومی ذمہ داری ہے۔ حکومت یا دیگر حضرات جو بھی اس ذمہ داری کو پورا کر رہے ہیں، وہ قابل تعریف ہیں۔ اس کام کو مزید منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ نیز حکومت یا اطباء کی طرف سے جو بھی احتیاطی ہدایات دی جا رہی ہیں، ان پر سب کا عمل کرنا ضروری ہے۔ احتیاطی تدابیر میں میل جول کم کرنا، بلا ضرورت اجتماع سے روکنا بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے، جس کی سب کو پابندی کرنی چاہیے۔ مگر لازمی سروسزمیں کام کو معطل نہیں کیا جاسکتا، اسی لئے ضروری کام کو جاری رکھنے کا اہتمام کیا جارہا ہے۔ مثلاً سپر مارکیٹ، بنک اور ضروریات کی تقسیم کی ٹیم کو کام کی اجازت ہے، لیکن اس میں احتیاطی تدابیر پر عمل نہیں ہورہا، اور کثیر تعداد میں لوگوں کا ہجوم وہاں جمع رہتا ہے، اس میں لوگوں کو مناسب فاصلے کے ساتھ ضروریات پوری کرنے کا اہتمام کرایا جائے۔ اسی طرح ایک مسلمان کے لئے مساجد میں نماز باجماعت اور جمعہ کا اجتماع ایک اہم ضرورت ہے۔ خاص طور پر رمضان میں مسجد کی حاضری اور نماز باجماعت نہ صرف ایک ضرورت ہے بلکہ اس آزمائش کے موقع پر خاص طور پر رجوع الی اللہ ہی وبا کو دور کرنے کا ایک اہم سبب ہو سکتا ہے۔ اس کو حتی الامکان احتیاطی تدابیر کے ساتھ جاری رکھنا بھی ضروری ہے۔ احتیاطی تدابیر کا دائرہ اور دورانیہ ہر جگہ، موقع، محل، تقاضائے وقت اور وہاں کی ضرورت کے مطابق اختیار کیا جانا چاہئے۔ اس کے لئے یہ اجتماع موجودہ حالات میں مندرجہ طریقہ کار کا مطالبہ کرتا ہے۔

(۱)۔ احتیاطی تدابیر کے ساتھ مساجد کھلی رہیں۔ ان میں پنج وقتہ نماز باجماعت، نماز جمعہ جاری رہے، تین یا پانچ افراد کی پابندی قابل عمل ثابت نہیں ہو رہی۔ (۲)۔ جو لوگ بیمار ہیں، یا وائرس سے متاثر ہیں، یا متاثرہ فرد کی عیادت پر مامور ہیں وہ مسجد نہ آئیں۔ ان شاء اللہ انہیں گھر پر ہی باجماعت نماز کا ثواب ملے گا۔ (۳)۔ معمر حضرات کے بارے میں چونکہ اطباء کی رائے یہ ہے کہ ان کی قوت مدافعت کمزور ہونے کی بنا پر وبا کا نشانہ بن سکتے ہیں، اس لئے وہ خود کو مسجد آنے سے معذور سمجھیں۔ (۴)۔ مسجد سے قالین ہٹا کر ان کو ہر نماز کے بعد حتی الامکان جراثیم کش ادویہ سے دھویا جائے۔ (۵)۔ مسجد کے دروازوں پر حتی الامکان سینی ٹائزر لگانے کا اہتمام کیا جائے۔ اس کے لئے محلے کے اہل خیر اس کا انتظام اپنی شرعی ذمہ داری سمجھ کر کریں۔ (۶)۔ مسجد کی صف بندی میں اس بات کا اہتمام کیا جائے کہ دو صفوں کے درمیان ایک صف کا فاصلہ ہو، اور ایک صف میں بھی مقتدی مناسب فاصلہ کے ساتھ کھڑے ہوں۔ اگرچہ معمول کے حالات میں ایسا کرنا مکروہ ہے، تاہم عذر کی بنا پر ان شاء اللہ کراہت باقی نہیں رہے گی۔ (۷)۔ تمام حضرات وضو گھر سے کر کے آئیں۔ (۸)۔ نمازی ہاتھ صابن سے دھو کر اور ماسک پہن کر آنے کا اہتمام کریں۔ (۹)۔ سنتیں بھی تمام لوگ گھر سے پڑھ کر آئیں، اور بقیہ سنن اور نوافل بھی گھر جا کر ادا کریں۔ (۱۰)۔ نماز جمعہ میں اردو تقریر بند کر دی جائے۔ اور اگر ضرورت ہوتو صرف پانچ منٹ کے لئے احتیاطی تدابیر سے آگاہ کیا جائے۔ (۱۱)۔ خطبہ جمعہ میں صرف ضرور ی حمد و صلوۃ، تقوی کے بارے میں ایک آیت، اور مسلمانوں کے لئے مصائب سے نجات کی دعا پر اکتفا کیا جائے۔ (۱۲)۔ نماز کےبعد بھی نمازی جمع ہونے کے بجائے مناسب فاصلہ رکھ کر گھروں کو جائیں۔ (۱۳)۔ ائمہ مساجد عوام کو احتیاطی تدابیر کرنے کی تلقین کریں، البتہ عمل کرانے کی ذمہ داری انتظامیہ پر ہے، اس لئے ائمہ مساجد کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جائے گا۔

حکومت سندھ نے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ائمہ مساجد کے خلاف ایف آئی آر درج کیں ہیں، جس سے باہمی اعتماد مجروح ہوا۔ آئند ایسی کارروائیوں کا اعادہ نہ کیا جائے اور حسب وعدہ تمام ایف آئی آر واپس لیتے ہوئے گرفتار آئمہ کو فوری رہا کیا جائے۔

یہ اجلاس ملک کے میڈیکل اور پیرا میڈیکل سٹاف کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتا ہے۔ ان کی اور پوری قوم اور انسانیت کی سلامتی کے لئے دعاؤں کی اپیل کرتا ہے۔ اجلاس یہ بھی اپیل کرتا ہے کہ پوری قوم متحد ہو کر اپنی خدمات سر انجام دے اور ہر طرح کی سیاسی، گروہی، فرقہ وارانہ اور عصبیت کو بالائے طاق رکھ کر اپنے اپنے فرائض انجام دیں۔ ان امور کی تنفیذ اور عمل درآمد کے لئے تمام شریک اداروں اور جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل ایک بارہ رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔

اگر اس اجلاس کے نکات کو سامنے رکھ کر دور نہیں بلکہ ملک پاکستان کے دارالخلافہ کی مساجد پر ہی اک نگاہ ڈال لی جائے۔ جب سے لاک ڈاؤن ہوا ہے چند ایک سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیو کے علاوہ کہیں بھی مساجد ہجوم سے نہ بچ سکی۔ میں اسلام آباد کی کئی مساجد میں گیا ہوں، وہاں لوگ باقاعدہ نماز پڑھنے آتے ہیں۔ کچھ مساجد میں لوگ احتیاطی تدابیر کرتے ہیں اور کچھ میں کوئی مذہبی راہنمائی نہ ہونے کی بنا پر نہیں کرتے، لیکن تقریباً لوگ جاتے ہیں۔ کراچی جس کے لاک ڈاؤن کے نہایت سخت ہونے کےلوگ قائل ہیں، لیکن جمعہ کے دن کیا ہوتا ہے؟ کراچی والے سب جانتے ہیں جو کسی ایک ویڈیو کی آڑ میں چھپایا نہیں جاسکتا۔ اب جبکہ ہمارے ملک میں کچھ طبقات مذہبی معاملے میں ایک غیر جانبدار مذہبی پیشوا و راہنما کے علاوہ کسی کی بات پر عمل کرنے پر رضا مند نہیں ہوتے، چاہے وہ اعلی حکام ہی کیوں نا ہوں۔ جس کے نتیجے میں غیر محتاط ہجوم مزید خطرناک ہو سکتا تھا۔ ایسے میں جید علماء کرام کا ایک اجلاس ہونا اور اتفاق رائے سے مسئلہ کو حل کرنا خوش آئند بات ہے۔

لہذا میڈیا کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے تصویر کے دونوں رخ دکھانے چاہیے۔ اور بجائے علماء کرام کو جزباتی قرار دینے کے خود کو جزباتیت اور تنگ نظری کے اس چھوٹے دائرے سے باہر نکالنا چاہیے۔ ایک طرف لوگوں کے بغیر احتیاط کے ہجوم کی خبریں چلانا اور دوسری طرف علماء کی احتیاطی تدابیر کی تلقین اور ترغیب کو کسی اور رنگ میں پیش کرنا یہ آزاد میڈیا کو زیب نہیں دیتا، بشرطیکہ میڈیا صحیح معنوں میں آزاد ہو۔ اس اعلامیہ کے متعلق مفتی تقی عثمانی صاحب نے فرمایا: زبانی باتوں اور غلط افواہوں کے بجائے جو کچھ اعلامیہ میں بیان ہوا ہے اس کے الفاظ پر بھروسہ کیا جائے یہ کوئی جذباتی بیان نہیں بلکہ نہایت سنجیدہ تجاویز اور مطالبات پر مشتمل ہے۔

Check Also

Mein Kalla e Kafi Aan

By Syed Mehdi Bukhari