Jamhuri Quwat
جمہوری قوت
جنوبی ایشیا کے شمال مغرب میں خشک اور سرسبز صحراؤں، حسین وادیوں کے نظاروں، قدیم تہذیبوں کا پتا دیتے دریاؤں، فلک بوسی کرتے بلند و بالا پہاڑی سلسلوں، معاشی قوتوں سے بھرپور شہروں اور اپنے منفرد موسموں پر مشتمل زمینی حصہ پاکستان کہلاتا ہے۔ اس کی مشرقی سرحد بھارت، مغربی سرحد افغانستان اور ایران سے ملتی ہے اس کے جنوب میں بحیرہ عرب کی بے کراں موجوں کی سکونت جبکہ شمال میں چین اور وسطی ایشیاء کے ممالک ہیں۔
ریاستِ پاکستان کے آئین کے مطابق ریاستی نظام کے بارے میں مشہور ہے کہ یہاں پر اربابِ اختیار جو بھی ہوں مگر حکمرانی اس کی حدود میں مُقیم عوام کی ہوگی جن کی انتہائی معتبر رائے (جو کہ الیکشن سے پہلے تک ہی معتبر ہوتی ہے) سے عوامی نمائندگان کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ یہاں اس نظام کو جمہوریت کہتے ہیں یعنی ریاستی جمہور اس کے مستقبل سنوارنے کے مراحل میں برابر شریک ہوتے ہیں۔ عوامی نمائندگان قانون بناتے ہیں اور اس پر عمل درآمد قانونی اداروں کا کام اور اس قانون کی تشریح عدلیہ کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
اس ریاست کی 75 سالہ حیات میں یہاں پر 33 سال حکومت لاٹھی نے کی اور باقی لاٹھی کے سہارے کی گئی۔ مگر پھر بھی اس ریاست کے جمہور کی دیدہ دلیری دیکھیں کہ یہ جمہور کی بالادستی اور جمہوریت کی بقاء کی خاطر عام انتخابات میں حصہ لیتے ہیں۔ مذکورہ بالا جمہوریت کی جو تعریف بیان کی گئی ہے اس سے زیادہ یہاں کے باسی بھی نہیں جانتے کہ جمہوریت کس گیڈر سنگی کا نام ہے ہمارے اس نظامِ حکومت میں فرائض کیا ہیں اور ان فرائض کی بنیاد پہ ہم کو کن حقوق کے لئے بولنا ہے یہ لوگ نہیں جانتے۔
اس ریاست کی عوام صرف اجتماعی احتجاج کرنے کو جمہوریت سمجھتی ہے اور اسی حق کی اجازت ان کو دی گئی ہے۔ اگر اس کے علاوہ آپ کسی بھی امر میں دخل انداز ہوں گے تو یہاں کی سب سے بڑی رازدارانہ طاقت جو اپنی طلسماتی قوت سے اس ریاست کو کرہ ارض پہ قائم رکھے ہوئے ہے وہ خطرے میں پڑ جائے گی اور وہ قوت خود جمہوریت ہے۔ یہ جمہوریت ایسی طلسماتی طاقت ہے جو یہاں ہر ڈوبتے حکمران اور اُس کے حاشیہ برداروں کے بوقتِ اُفتادکام آتی ہے۔
اس قوتِ جاؤدانی کی اصل کو ستر حجابوں میں یہاں کے نام نہاد حکام نے جمہور سے چھپا کر رکھا ہے اور وقتِ ضرورت یہ اِنہی کرتا دھرتا لوگوں کے کام آتی ہے۔ یہاں پر پچھلی چار دہائیوں سے دو خاندان برسرِ اقتدار رہے۔ ان دونوں خاندانوں کے درمیان بلا کی دشمنی ہے اور اُس دشمنی کی بنیاد بھی یہی جادوئی طاقت جمہوریت ہے۔ یہ 35 سال اسی قوت کی پہرے داری چھیننے میں گزار چکے ہیں مگر انتہائی چابک دستی سے تاکہ کسی طرح کا جانی نقصان نہ ہو۔
کیوں کہ جب تک یہ ملک ہے یہاں جمہوریت کو مسئلہ تو رہےگا اگر ہم نہیں ہوں گے تو اس کی حفاظت کون کرے گا؟ ان تمام باتوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے انہوں نے اپنے شہزادوں اور شہزادیوں کو اس خطرناک جنگ میں جھونک دیا ہے۔ باقی اس ملک کی قوتِ مدافعت کو اندرونی اذہان نے ٹھیس پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور پھر شروع دن سے ہی اس کو بیرونی قوتوں نے بھی تختہِ مشک بنا رکھا ہے جس سے یہ آج تک مستحکم نہیں ہوا۔
یہ دنیا کا واحد ملک ہے کہ جہاں بغیر رفائے عامہ کیے صرف جمہوریت کا نعرہ بلند کرنے پر اس ریاست کے سیاہ سفید کے مالک بن سکتے ہیں۔ صرف ایک راگ الاپنا ہے کہ جمہوریت کو خطرہ ہے۔ یہاں جب جب حق کا پرچم بلند ہوا، جمہوریت کو خطرہ لاحق ہوگیا، یہاں کی عدلیہ نے جب بھی سچ کا ساتھ دینا چاہا، بچاری جمہوریت کو خطرہ آن پڑا۔ جب بھی غریب سڑک پر نکلا حکام کو جمہوریت خطرے میں ملی۔ اس ملک میں کسی کو کسی سے کچھ سروکار نہیں۔
جو چاہو کرو مگر یہاں کی برمودا ٹرائی اینگل پاور کے کسے نقطے کو ایذا نہ پہنچے۔ اس مثلثی قوت پہ کبھی ضرور عرق ریزی کروں گا مگر یہاں اشارہ کرتا چلوں کہ اس کے تین نقاط میں سے ایک نقطہ یہاں کی انتظامیہ ہے، دوسرا نقطہ یہاں کی اشرافیہ ہے اور تیسرا نقطہ شہر کا دروغہ ہے۔ آپ نے جو سوچا وہ بھی درست ہے کہ تیسرا نقطہ تو عوام کو ہونا چاہے تھا۔ مگر آپ غلط ہیں! عوام تو یہاں کے مزارع ہیں جو اس ملک کی آبیاری کر رہے ہیں۔
یہاں یورپ، امریکہ اور خلیجی ممالک کے مہمان آ کر بڑے بڑے عہدوں کی ٹھاٹھ باٹ کے مزے لیتے ہیں اور اپنی آمرانہ اور عیاش طبیعت کو اس ملک کی عوام کی بے چارگی سے سکون پہنچاتے ہیں اور عہدوں سے فارغ ہونے کے بعد اپنے اپنے وطن واپس لوٹ جاتے ہیں گو کہ خدا کی دی ہوئی ہر نعمت ان کے پاس ہے مگر بدقسمتی سے وہ پردہ جمہوریت کے پیچھے ہے اور اس جمہوری قوت کو حق کی جیت، عدل کی سر بلندی، سیاسی استحکام، معاشی امن، اور اقتصادی خوشحالی، جیسے عناصر سے خطرہ ہے جو کہ اس ملک کو بچانے کے لئے نا گزیر ہیں مگر حکام کے مطابق یا جمہوریت بچ سکتی ہے یا پھر ملک۔ یعنی یا شاہ کی شاہی بچے گی یا عوام۔