Sunday, 06 October 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Adeel Ilyas
  4. Kya Insan Waqai Azad Hai?

Kya Insan Waqai Azad Hai?

کیا انسان واقعی آزاد ہے؟

آزادی ہمیشہ سے انسانی فکر کا ایک اہم موضوع رہا ہے۔ ہر دور میں فلسفیوں، دانشوروں، اور مفکرین نے یہ سوال اٹھایا کہ کیا انسان واقعی آزاد ہے یا نہیں؟ آزادی کی تعریف اور اس کا دائرہ کیا ہے؟ کیا ہم اپنی مرضی سے زندگی گزار سکتے ہیں یا ہم قدرت، معاشرت اور نفسیات کے غلام ہیں؟

سب سے پہلے، ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ آزادی کے کئی پہلو ہوتے ہیں۔ ظاہری یا خارجی آزادی وہ ہوتی ہے جس میں انسان کو کسی ظاہری جبر یا پابندی کا سامنا نہ ہو۔ جیسے کہ سیاسی آزادی، جس کا مطلب ہے کہ آپ اپنی مرضی کے مطابق رہ سکتے ہیں، بول سکتے ہیں اور اپنی زندگی کے فیصلے خود کر سکتے ہیں۔ لیکن کیا یہ مکمل آزادی ہے؟ کیا ہم واقعی ان تمام عوامل سے آزاد ہیں جو ہمارے فیصلوں اور زندگی کے راستوں کو متاثر کرتے ہیں؟

فطری اور قدرتی قوانین

انسان کا جسم اور اس کی بقا قدرت کے قوانین کے تابع ہیں۔ ہم نہ تو اپنی زندگی کے آغاز کو کنٹرول کر سکتے ہیں اور نہ ہی اس کے اختتام کو۔ قدرتی آفات، بیماریاں، اور موت ہماری آزادی پر سب سے بڑے حملے ہیں۔ انسان جتنا بھی طاقتور ہو، وہ فطری قوانین سے فرار نہیں پا سکتا۔ ہم زمین کی کشش ثقل سے آزاد نہیں ہو سکتے، ہم ہوا کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے اور نہ ہی ہم وقت کے سفر کو روک سکتے ہیں۔

معاشرتی اور ثقافتی دباؤ

ہماری زندگی کا ایک اور پہلو سماجی دباؤ ہے۔ ہم ایک معاشرتی ماحول میں پیدا ہوتے ہیں، جہاں ہماری شناخت، سوچ، اور زندگی کے انتخاب معاشرتی اصولوں، روایات اور توقعات کے مطابق ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ہم اپنی مرضی سے لباس کا انتخاب نہیں کر سکتے اگر وہ معاشرتی معیار سے ہٹ کر ہو، ورنہ ہمیں تنقید اور مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح، ہمارے معاشرتی تعلقات اور کردار بھی معاشرتی نظام کی طرف سے طے کیے جاتے ہیں۔

نفسیاتی آزادی

انسان کی نفسیاتی حالت بھی اس کی آزادی پر گہرے اثرات ڈالتی ہے۔ ہمارا ذہن بہت سے عوامل کا غلام ہوتا ہے، ہماری پرورش، تجربات، خوف اور خواب ہماری سوچ اور انتخاب کو محدود کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، کسی شخص کا بچپن کا کوئی منفی واقعہ اس کے مستقبل کے فیصلوں اور رویوں پر گہرا اثر ڈال سکتا ہے۔ یہاں تک کہ بہت سے لوگ اپنی زندگی کے بڑے فیصلے اپنے نفسیاتی خوف کی بنیاد پر کرتے ہیں۔

روحانی اور داخلی

تاہم، ایک پہلو جو انسان کو حقیقی آزادی کی طرف لے جا سکتا ہے، وہ اس کی داخلی یا روحانی آزادی ہے۔ مذہبی اور روحانی تعلیمات کے مطابق، جب انسان اپنی خواہشات اور نفسانی خواہشات پر قابو پا لیتا ہے، تو وہ حقیقی معنوں میں آزاد ہو جاتا ہے۔ یہ آزادی دنیاوی دباؤ اور فانی عوامل سے آزاد ہوتی ہے۔ صوفیاء اور عرفاء کے نزدیک حقیقی آزادی وہ ہے جب انسان اپنی ذات سے بلند ہو کر خدا کے ساتھ قرب حاصل کر لیتا ہے۔

اقصیٰ شاعرہ کا کہنا

اقصیٰ شاعرہ، جو اپنے خیالات اور حساس دل کی ترجمان ہیں، آزادی کے بارے میں ایک منفرد نظریہ رکھتی ہیں۔ ان کے نزدیک آزادی کا تعلق محض جسمانی یا سماجی دباؤ سے نہیں، بلکہ یہ دل اور روح کی کیفیت ہے۔ اقصیٰ کا کہنا ہے:

"آزاد وہ نہیں جو جسمانی قید سے رہا ہو۔

آزاد تو وہ ہے جو دل کی قید سے چھوٹا ہو۔ "

اقصیٰ کے خیال میں انسان جب تک اپنے دل کی خواہشات اور خود ساختہ قید سے آزاد نہیں ہوتا، تب تک وہ کسی بھی دوسری آزادی کو مکمل طور پر محسوس نہیں کر سکتا۔ انسان کی سب سے بڑی آزادی اپنی ذات کی قید سے رہائی ہے، اور یہ وہ مقام ہے جہاں انسان اپنے آپ کو مکمل طور پر آزاد سمجھ سکتا ہے۔

کیا انسان آزاد ہے؟ اس سوال کا جواب اس بات پر منحصر ہے کہ ہم آزادی کو کیسے دیکھتے ہیں۔ فطری، سماجی، اور نفسیاتی سطح پر انسان کو مختلف پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن داخلی اور روحانی سطح پر وہ ایک بلند تر آزادی حاصل کر سکتا ہے۔ اگر ہم اپنی اندرونی قوتوں اور خوفوں سے آزاد ہو جائیں تو شاید ہم اس دنیا میں بھی ایک قسم کی حقیقی آزادی حاصل کر سکیں۔

About Adeel Ilyas

Adeel Ilyas is an ex-Pakistani formal cricketer and the owner of Al-Falaq International Schools. He is a social expert and a professor of English literature. His columns and articles focus on personal development, education, and community service, offering unique insights from his diverse experiences.

Check Also

Mard Afzal Lekin?

By Qurratulain Shoaib