Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Abid Hashmi
  4. Youm Al-Fatah Golden Jubilee

Youm Al-Fatah Golden Jubilee

یوم الفتح گولڈن جوبلی

وادی کشمیر میں حکومتی سطح پر یوم ختم نبوت سرکاری طور پر منایا جائے گا۔ بعض تحریکیں بعض تاریخوں کو تاریخ، بنا دیتی ہیں۔ جیسے 1953ء کی تحریک ختم نبوت نے 7 ستمبر 1974ء کو تاریخ بنایا۔ اسلامیانِ پاکستان نے حصولِ آزادی وطن کی بنیاد کلمہ طیبہ پر رکھی۔ ان کے رگ و ریشے میں کلمہ طیبہ اپنی حقیقت و معنویت کے ساتھ موجود ہے۔

عقیدہ ختم نبوت انسانیت پر ایک احسان عظیم ہے۔ مسلمانوں کا اجماعی عقیدہ ہے کہ حضور سرور کائنات ﷺ اللہ تعالیٰ کے آخری نبیﷺ اور برحق رسول ہیں۔ آپ ﷺ کے بعد قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا۔ قرآن کریم آخری آسمانی کتاب اور اُمت محمدیہ ﷺ آخری اُمّت ہے۔ اُمت کا اس بات پر بھی اجماع ہے کہ ختم نبوت ﷺ کا منکر دائرہ اسلام سے خارج ہے۔

حضور سرور کائنات ﷺ کی حیات ظاہری میں مسیلمہ کذاب، اسود عنسی اور سجاح بنت حارث نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا مگر ذلّت و رسوائی سے ہم کنار ہوئے۔ اُمت مسلمہ نے رسول کریم ﷺ کو تمام تر عظمت و شان کے ساتھ تمام انبیاء اور رسولوں کا امام و سردار اور نبی آخر الزماں تسلیم کیا ہے۔

قادیانیت، اسلام کے خلاف سازش اور اعلانیہ بغاوت ہے۔ صلحائے اُمت اور علماء و مشائخ نے متحد ہوکر ان باطل عقائد کی بیخ کنی کے لیے ہر محاذ پر ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور انہیں دندان شکن جواب دیا اور قرآن و حدیث کی روشنی میں ختم نبوت کا صحیح مفہوم اپنی تالیفات، تصانیف اور بیانات کے ذریعے واضح کرکے اُمت مسلمہ کی صحیح، فکری، علمی اور اعتقادی راہ نمائی کی اور جھوٹے مدعیان نبوّت کی ناپاک سازشوں کو ناکام بنایا اور عملی جہاد کرتے ہوئے اس فتنے کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا۔

حضور اکرم ﷺ کی ختم نبوت کا اعلان در حقیقت اس اُمت پر ایک احسان عظیم ہے، اس عقیدے نے اُمت کو وحدت کی لڑی میں پَرودیا ہے، آپ پوری دُنیا میں کہیں چلے جائیں اور آپ ہر دور اور ہر عہد کی تاریخ کا مطالعہ کریں آپ کو نظر آئے گا کہ خواہ کسی قوم، کسی زبان، کسی علاقے اور کسی عہد کا باشندہ ہو، اگر وہ مسلمان ہے اور حضور اکرم ﷺ پر اس کا ایمان ہے تو اس کے عقائد، اس کی عبادات، اس کے دین کے ارکان، اس کے طریقے میں آپ کو یکسانیت اور وحدت نظر آئے گی جس طرح حضور اکرم ﷺ کے زمانے میں پانچ نمازیں فرض تھیں، اسی طرح آج بھی پانچ نمازیں فرض ہیں، ان کے جو اوقات حضور اکرم ﷺ کے زمانے میں تھے، وہی آج بھی ہیں جو اوقات سعودی عرب میں ہیں، وہی اوقات امریکہ اور یورپ اور ایشیائی ممالک میں ہیں، اسی طرح روزہ، حج، زکوٰۃ اور دیگر احکام بھی سب کے لئے یکساں ہیں، یہ سب نتیجہ ہے ختم نبوت کا، اتمام نبوت کا، اکمال شریعت کا۔

اسی لئے علامہ اقبالؒ نے یہ حقیقت واشگاف الفاظ میں بیان کی۔ "دین وشریعت تو قائم ہیں کتاب وسنت سے، دین وشریعت کی بقا اور دین وشریعت کا استمرار اور وجود مربوط ہے کتاب وسنت سے، جب تک کتاب وسنت ہے، دین باقی ہے، دین و شریعت باقی ہے، لیکن اُمت کی بقاء ختم نبوت کے عقیدے سے ہے"۔

قرآن کریم نے اس عقیدہ ختم نبوت کو واضح الفاظ میں بیان فرمایا، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "محمد (ﷺ) تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں، مگر اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں"۔ (سورۃالاحزاب)اللہ تعالیٰ نے حجۃ الوداع کے موقع پر یہ آیت نازل فرمائی جس میں تکمیلِ دین کا اعلان کیا: "آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنا احسان پورا کردیا اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسند کیا"۔ (سورۃ المائدہ)

فتنہ قادیانیت کا آغاز ہندوستان کے ایک قصبہ "قادیان" سے ہوا اس کا بانی انگریز کا خود ساختہ ایجنٹ "مرزا غلام احمد قادیانی" تھا جس نے انگریز رؤسا کو خوش کرنے کیلئے کبھی خدائی کا دعویٰ کیا تو کبھی نبوت کااعلان کیا، کبھی حضور ﷺ سے اپنے آپ کو افضل کہا اور کبھی سب انبیاء ورسل علیہم الصلوٰۃ والسلام سے افضل ہونے کا دعویٰ کیا، کبھی مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا تو کبھی "تذکرہ" نامی کتاب کو قرآن مجید سے افضل قراردیا، کبھی قادیان حاضری کو حج وعمرہ سے افضل کہا تو کبھی اپنے گھر والوں اور ماننے والوں کو صحابہ کرام اور اہل بیت عظام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے افضل قراردیا، حتیٰ کہ اپنی بیویوں کو "امہات المومنین" اور ماننے والوں کو صحابہ قرار دیا (نعوذ باللہ)، الغرض اس سے جو ہوا اس نے کیا اور حضور نبی کریم ﷺ کے سچے امتیوں سے جو ہوسکتا تھا انہوں نے خدا کے فضل سے کر دکھایا۔

قرآن کریم کی سو سے زائد آیات سے عقیدہ ختم نبوت ثابت ہوتا ہے، حضور اکرم ﷺ نے صاف اور واضح طور پر اعلان فرمایا: "میری امت میں تیس جھوٹے پیدا ہوں گے، ہر ایک یہی کہے گا کہ وہ نبی ہے، حالانکہ میں اللہ کا آخری نبی ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں"۔ (سنن ابوداؤد، ترمذی)

قومی اسمبلی نے مرزا ناصر پر 11 دن اور مرزائیت کی لاہوری شاخ کے امیر پر 7 گھنٹے مسلسل بحث کی، 7 ستمبر 1974ء کو وہ مبارک دن آ پہنچا جب قومی اسمبلی نے متفقہ طورپر دن 4 بج کر 35 منٹ پر قادیانیوں کی دونوں شاخوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا، ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے قائد ایوان کی حیثیت سے خصوصی خطاب کیا، عبدالحفیظ پیرزادہ نے اس سلسلے میں آئینی ترمیم کا تاریخی بل پیش کیا جسے اتفاق رائے سے منظور کیا گیا اور اس عظیم کامیابی پر حزب اقتدار و حزب اختلاف خوشی و مسرت سے آپس میں بغل گیر ہوگئے۔

آغا شورش کشمیریؒ، علامہ محمود احمد رضویؒ، مولانا محمد اجمل خانؒ، اور علامہ احسان الٰہی ظہیرؒ کہا کرتے تھے کہ مولیٰ "تیری ادا پر قربان جائیں کہ تونے اپنے محبوب حضرت محمد ﷺ کی ختم نبوت کا فیصلہ کسی چوک اور چوراہے میں نہیں کرایا بلکہ پارلیمنٹ میں کروایا کہ حضور ﷺ کے بعد جو دعویٰ نبوت کرے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ قادیانی آج بھی پاکستانی قانون کے مطابق غیر مسلم ہونے کے باوجود اپنی سازشوں میں مصروف ہیں اور وہ سادہ لوح مسلمانوں کو یہ کہہ کر دھوکا دے رہے ہیں کہ ہمارا کلمہ، نماز، روزہ تم جیسا ہے پھر فرق کس بات کا ہے، پھر ہم کافر کیوں؟

اس کا واضح اور دو ٹوک جواب ان کا حضرت محمد ﷺ کے بعد مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی ماننا ہے اور حضور خاتم النبین ﷺ کے بعد کسی امتی کا دعویٰ نبوت کفر ہے اور اس کی نبوت کوتسلیم کرنا بھی کفر ہے، آئیے آج کے اس تاریخی دن ہم اس بات کا عہد کریں کہ حضور نبی کریم ﷺ کی ختم نبوت کے تحفظ کے لیے دن رات ایک کردیں گے، اللہ تعالیٰ کی ذات بڑی قدر دان ہے وہ اس عمل پر یقیناً اپنی رضا اور جنت کی صورت میں نوازے گی۔ ختم نبوت زندہ باد۔

Check Also

Aankh Jo Kuch Dekhti Hai (2)

By Prof. Riffat Mazhar