Naya Saal, Naya Azm, Naye Irade
نیا سال، نیا عزم، نئے ارادے

جوں ہی تقویم کا ایک ورق پلٹتا ہے، ہم ایک نئے سال میں داخل ہو جاتے ہیں۔ ہر نیا سال ہمیں زندگی میں نئی امید، نئے ارادے اور مثبت تبدیلیوں کا موقع فراہم کرتا ہے۔ یہ وقت ہوتا ہے خود احتسابی کا، پچھلے سال کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا جائزہ لینے کا اور آنے والے دنوں کو بہتر بنانے کا۔ نیا سال صرف کیلنڈر کی تبدیلی کا نام نہیں، بلکہ اپنے اندر جھانکنے، خود سے سوال کرنے اور بہتری کی طرف قدم بڑھانے کا وقت ہے۔
ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم نے گزشتہ سال کیا کھویا، کیا پایا اور وہ کون سے شعبے ہیں جن میں ہمیں خود کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب ہم اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کا عزم کرتے ہیں۔ جیسے، اگر پھولوں کا شوق ہے تو کانٹوں کو سہنا سیکھیں، زندگی ایک حسین مگر پیچیدہ سفر ہے۔ یہ نہ صرف خوشیوں، کامیابیوں اور راحتوں کا امتزاج ہے بلکہ آزمائشوں، تلخیوں اور تکلیفوں سے بھی عبارت ہے۔ جو لوگ زندگی میں خوبصورتی، کامیابی اور اعلیٰ مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں، انہیں یہ حقیقت تسلیم کرنی پڑتی ہے کہ ان راستوں میں مشکلات، رکاوٹیں اور قربانیاں لازمی آتی ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے اگر کسی کو پھولوں سے محبت ہو، تو اُسے ان کے ساتھ لگے کانٹوں کو بھی سہنا آتا ہو۔
پھول صرف خوشبو نہیں دیتے، احتیاط کا پیغام بھی دیتے ہیں، ان کے ساتھ کانٹے ہوتے ہیں، جو اس بات کا درس دیتے ہیں کہ ہر خوبصورتی کے پیچھے ایک قربانی، صبر اور ضبط کی داستان چھپی ہوتی ہے۔ اگر انسان صرف پھول کی خوشبو اور رنگت چاہے، مگر کانٹوں سے بچنا چاہے، تو یہ حقیقت سے فرار ہے۔ کامیاب لوگ وہی ہوتے ہیں جو چیلنجز کا سامنا کرتے ہیں، ہار نہیں مانتے اور ہر زخم کو اپنے حوصلے سے مرہم دیتے ہیں۔
سماجی اور ذاتی زندگی میں بھی یہی اصول لاگو ہوتا ہے۔ اگر آپ عزت، مقام، محبت، یا علم کی بلندیوں تک جانا چاہتے ہیں تو تنقید، ناکامی، حسد اور رکاوٹوں کو جھیلنے کی طاقت پیدا کرنا ہوگی۔ جو کانٹوں سے خوف کھاتے ہیں، وہ کبھی پھولوں کے لمس کو نہیں پا سکتے۔ زندگی میں ہر بڑا مقصد قربانی مانگتا ہے۔ چاہے وہ علم حاصل کرنا ہو، معاشرتی بہتری لانا ہو، یا روحانی سکون کی جستجو، ہر منزل ایک سفر سے گزر کر ملتی ہے اور یہ سفر کبھی آسان نہیں ہوتا۔
اگر واقعی پھولوں سے محبت ہے، تو کانٹوں کو سہنا سیکھنا ہوگا۔ مشکلات، ناکامیاں اور تنقید کو برداشت کرنا سیکھنا ہوگا۔ یہی افراد زندگی میں نہ صرف کامیاب ہوتے ہیں بلکہ دوسروں کے لیے بھی مثال بن جاتے ہیں۔ "پھول وہی کھلتے ہیں جو آندھیوں میں جھکنا جانتے ہوں!"
گزرے سال میں جن کے حسد، دشمنی منافقت نے آپ کو مشکلات سے دوچار کیا، نئے سال کے آغاز میں انہیں بھول کر آگے بڑھیں، وقتی تسکین کے بجائے دائمی سکون پائیں کیوں کہ معاف کرنا انسان کے کردار کی سب سے بلند اور خوبصورت صفت ہے۔ ہم زندگی میں کئی ایسے مراحل سے گزرتے ہیں جہاں کچھ لوگ ہمیں تکلیف دیتے ہیں، ہماری عزتِ نفس مجروح کرتے ہیں، یا ہماری راہوں میں کانٹے بچھاتے ہیں۔ ایسے وقت میں دل انتقام کی طرف مائل ہوتا ہے، لیکن اگر ہم واقعی سکون چاہتے ہیں تو ہمیں معاف کرنا سیکھنا ہوگا۔ اگر نئے سال میں زندگی کو امن، محبت اور راحت کا گہوارہ بنانا ہے تو دل سے گِلوں، شکوؤں اور ناراضگیوں کا بوجھ اتارنا ہوگا۔ جن لوگوں نے آپ کی زندگی کو اجیرن بنایا، آپ کو رلایا، تکلیف دی، ان کو معاف کر دینا صرف دوسروں پر احسان نہیں بلکہ اپنے دل کو آزاد کرنے کا عمل ہے۔ معاف کرنا کمزوری نہیں بلکہ بڑی طاقت ہے۔
قرآن و حدیث میں بارہا معافی کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جو معاف کرتا ہے، اللہ اس کی عزت بڑھاتا ہے"۔ یعنی معاف کرنا رب کی رضا کا ذریعہ ہے اور دنیا و آخرت کی کامیابی کی علامت بھی۔ جب ہم معاف کرتے ہیں تو ہمارے دل سے نفرت کا زہر نکل جاتا ہے۔ ہم ذہنی دباؤ، غصے اور مایوسی سے نجات پاتے ہیں۔ یہ وہ مقام ہے جہاں سے زندگی میں ایک نیا، مثبت اور روشن سفر شروع ہوتا ہے۔ معاف کرنا دراصل اپنی ذات پر احسان ہے۔
لہٰذا، اگر زندگی میں کسی نے آپ کو ستایا ہو، آپ کے ساتھ ناانصافی کی ہو، تو یاد رکھیں، انتقام سے شاید وقتی تسکین ہو، لیکن معافی سے ہمیشہ کا سکون ملتا ہے۔ جو لوگ آپ کو توڑنا چاہتے تھے، ان کو یہی جواب دیں کہ آپ ان سے بلند ہو چکے ہیں۔ دل صاف کریں، آگے بڑھیں اور زندگی کو نئی امید کے ساتھ گلے لگائیں۔ نئے سال میں یہ عزم کیجئے کہ اپنی ذات کا نہیں بلکہ ملک و قوم کا مفاد مقدم رکھیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو وقت عطا کیا ہے، وہ ایک نعمت ہے۔ اس کا بہترین استعمال ہی حقیقی شکر گزاری ہے۔
نیا سال ہمیں موقع دیتا ہے کہ ہم اپنی کوتاہیوں کو سدھاریں، بگڑے ہوئے تعلقات کو جوڑیں اور دنیا کے لیے مثبت اثر چھوڑنے کی کوشش کریں۔ اجتماعی سوچ اپنائیں۔ نئے سال میں ہمیں اپنے لیے ہی نہیں بلکہ قوم و ملت کے لیے بھی سوچنا چاہیے۔ تعلیم، اخلاق، امن، برداشت اور ترقی میں کردار ادا کرنے کی نیت کریں۔ جو علم و ہنر رکھتے ہیں، وہ دوسروں کو سکھائیں۔ جو وسائل رکھتے ہیں، وہ ان لوگوں کی مدد کریں جو ضرورت مند ہیں۔
نئے سال 2026 میں ہم سب کو اپنے رویوں میں سب سے اہم تبدیلی قوتِ برداشت کی صورت میں لانی چاہیے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ جیسے ہم اپنے نظریات، خیالات کو اہمیت دیتے ہیں، ویسے ہی دوسروں کے نظریات اور خیالات کا احترام بھی لازم ہے۔ اختلافات کو دشمنی یا تنازع کا باعث بنانے کے بجائے، انہیں مکالمے اور سمجھنے کے مواقع میں بدلیں۔ نیا سال، نیا عزم اور نئے ارادے، یہ صرف الفاظ نہیں بلکہ ایک ذمہ داری ہے۔ آئیں ہم اس سال کو واقعی ایک نئی شروعات بنائیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ ہمیں اپنے ارادوں میں اخلاص عطا فرمائیں اور ہمیں کامیاب و باعمل بنائیں۔

