Muashra Adam Bardasht Ki Saleeb Par
معاشرہ عدم برداشت کی صلیب پر
معاشرے کی عمارت اخلاقیات، برداشت، رواداری اور محبت کے ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے اور جب یہ خصوصیات معاشرے سے رخصت ہو جائیں تو وہ تباہی کی طرف تیزی سے گامزن ہو جاتا ہے۔ یہی صورت حال ہمارے معاشرے کو بھی درپیش ہے جہاں عدم برداشت کا رجحان اس سُرعت سے فروغ پا رہا ہے کہ جس کی کوئی حد نہیں۔ اس کے باعث تشدد پسند سرگرمیاں بھی سامنے آ رہی ہیں۔ ذرا بھی برداشت نہیں، محض چھوٹی چھوٹی باتوں پر تشدد سے بھی گریز نہیں کرتے۔ متشدد واقعات اکثریت میں دیکھنے میں آتے ہیں، سوشل میڈیا پر تو اس حوالے سے کئی وڈیوز خاصی تیزی سے وائرل ہوتی ہیں۔
ہم آج دیکھ رہے ہیں کہِ اس وقت اَمن عالم کے خرمن پر ہر طرف سے بجلیاں گر رہی ہیں۔ فرد سے لے کر اقوام تک بے اطمینانی کا غلبہ ہے۔ انسان کے ہاتھوں انسان پر ظلم و زیادتی کا بازار گرم ہے اور ہر فراز سے خون کی آبشاریں بہہ رہی ہیں۔ انسانیت کا ماہ شرف، ظلمت اور جبر کے اتھاہ اندھیروں میں غروب ہوتا محسوس ہوتا ہے۔ نام نہاد علم و تمدن کے ہاتھوں انسانیت سسکیاں لے رہی ہے۔
اخلاقی اقدار، نفسانیت اور ریاکاری کے سانچوں میں ڈھلتی چلی جا رہی ہیں اور غیر اخلاقی روایات خود غرضی کے فلسفے کو پروان چڑھا رہی ہیں۔ ہوس زر نے خیانت، رشوت اور حصولِ دولت کے کسی بھی ذریعے کو ناجائز اور حرام نہیں رہنے دیا ہے۔ افراد اور اقوام نے انسانی اقدار سے بالاتر ہو کر وسعت پسندی کو اپنا مقصدِ حیات قرار دے دیا ہے۔ اسی وجہ اور عدم برداشت کے رجحانات نے دُنیا میں قیامت برپا کی ہوئی ہے۔
قومیں قوموں سے نبرد آزما ہیں اور ملک ایک دوسرے سے دست و گریباں۔ انسانوں کی اجتماعیت بری طرح متاثر ہو کر رہ گئی ہے۔ باپ بیٹے اور بھائی بھائی کے درمیان کھینچا تانی ہے۔ ہر شخص انا، خود پرستی کے گھوڑے پر سوار ہو کر اپنے علاوہ کسی دوسرے کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس کا ایک اور اہم سبب معاشی اور معاشرتی ناہمواری ہے۔ امیر، امیر تر اور غریب، غریب تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ایک کو سوکھی روٹی میسر نہیں اور دوسری طرف کتے بھی ڈبل روٹی اور دودھ پر پَل رہے ہیں۔
محبت اور قناعت جیسے انسانی جذبے معاشرے سے مفقود ہو کر رہ گئے ہیں۔ اسی طرح عدم توازن اور پسند و ناپسند نے بھی ہیجان خیزی اور تشدد پسندی کو فروغ دیا ہے۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس نے بین الاقوامی سطح پر کمزور قوموں اور چھوٹے ممالک کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ مصائب بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں۔
اِن مستقل پریشانیوں کا سامنا کرتے کرتے ہم سخت اذیت میں مبتلا ہو چکے۔ ذہنوں پر اس صورت حال نے انتہائی منفی اثرات مرتب کئے ہیں۔ تنگ مزاجی ہمارا خاصہ بن چکی ہے۔ عوام کی اکثریت نفسیاتی عوارض سے دوچار ہیں، ہم نے اخلاقی اقدار کو بالائے طاق رکھ دیا ہے۔ عدم برداشت کی روش انتہائی خطرناک انداز میں تیزی سے فروغ پا رہی ہے جب کہ وہ بعض حالتوں میں تشدد پر بھی اُتر آتے ہیں۔ یہ سنگین مسئلہ ہے۔
آج دُنیا میں تحمل اور بردباری سے محرومی یعنی عدم برداشت انسانی معاشرے میں ایک خطرناک رخ اختیار کرتی چلی جا رہی ہے۔ اس کی وجہ سے وحشت اور دہشت کے سائے سنگین ہوتے جا رہے ہیں۔ ہیجان خیزی اور شورش پسندی کے باعث کہیں مذہب کو بنیاد بنا کر اور کہیں سیاسی گروہ بندی کے حوالے سے تشدد کا رجحان فروغ پا رہا ہے۔ معمولی معمولی باتوں پر عزتیں لُٹ جاتی ہیں اور انسانی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں۔
بچوں کے معمولی جھگڑے خاندانوں کی بربادی کا پیش خیمہ بن جاتے ہیں۔ مذہب سے بیگانگی اور دین سے دُوری کے سبب لوگ راہِ عمل کے بجائے راہِ فرار اختیار کر رہے ہیں۔ اسی لیے اس متمدن دور میں بھی خودکشی کی شرح حیرت انگیز ہے۔ عدم برداشت اور تشدد پسندی کے حوالے سے مذہبی حلقے آج سب سے زیادہ عدم توازن کا شکار ہیں۔ دوسرے کے نقطہ نظر کو سننے اور برداشت کرنے کی روایت ختم ہو چکی ہے۔ اپنے عقائد اور نظریات کو دوسروں پر نافذ کرنا ہر شخص اپنا مذہبی حق سمجھتا ہے۔
برداشت و تحمل، عفو و درگزر اور رحمت و شفقت کی سب سے بڑی مثال وہ انقلاب ہے جو 23 برس کے عرصے میں بپا ہوا جس کے لیے حضورﷺ نے مدنی زندگی میں 27 غزوات کیے اور غزوات و سرایا کی شکل میں کل 82 جنگیں لڑی گئیں۔ انسان سوچتا ہے کہ اتنی زیادہ جنگوں میں خون خرابے اور تباہی و بربادی کا کیا حال ہو گا لیکن حیرت کی بات ہے کہ اس اسلامی انقلاب میں فریقین کے کل انسان جو کام آئے 918 ہیں۔
کون کہہ سکتا ہے کہ اس سے بڑا غیر خونی انقلاب آج تک دُنیا میں کبھی بپا ہوا ہے جس کے ذریعے انسان کا ظاہر و باطن اور نظام معیشت و سیاست سب کچھ بدل جائے۔ پہلی جنگ عظیم میں مقتولین کی تعداد 64 لاکھ اور دوسری جنگ عظیم میں یہ تعداد ساڑھے تین کروڑ سے زیادہ تھی۔ لیکن نبی کریم ﷺکے انقلاب کی اساس نوع انسان کی خیر خواہی تھی۔ اس میں برداشت و تحمل اور عفو و درگزر کی روح رواں تھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ قافلہ آدمیت تحریک اسلامی کے دھارے پر بہتا چلا گیا۔
اور دعوت حق کی کھیتی پھلتی پھولتی چلی گئی اور آہستہ آہستہ لوگ جوق در جوق انسانیت کے خیر خواہ اور برداشت و تحمل اور سلامتی والے دین اسلام میں داخل ہوتے چلے گئے۔ یہ حقیقت ہے کہ تلوار سر کاٹتی ہے اور تحمل و برداشت دل جیتتا ہے۔ تلوار کی پہنچ گلے تک اور حلم و بردباری کی پہنچ دل کی گہرائی تک ہوتی ہے۔ جہاں تلوار ناکام ہوتی ہے وہاں عفو و درگزر فتح کا جھنڈا گاڑتا ہے۔ تیر و تلوار کی طاقت سے زمین تو چھینی جا سکتی ہے مگر کسی کا دل نہیں جیتا جا سکتا۔ دلوں کو ہاتھ میں لینے کے لیے ضرورت ہے محسن اعظم ﷺ کے اخلاق حسنہ کی۔
ہم اگر اپنے اندر برداشت کا مادہ پیدا کر لیں تو صورت حال خاصی بہتر ہو سکتی ہے۔ صرف برداشت پیدا کرنے سے ہی معاشرے کا امن و چین لوٹ سکتا ہے۔ انسان ہونے کے ناتے کسی پر بھی تشدد کرنا کسی طور مناسب نہیں۔ یہ ہر لحاظ سے قابل مذمت امر ہے۔ بہتری اسی میں ہے کہ تشدد اور عدم برداشت کے رویوں سے جان چھڑائی جائے۔ اعلیٰ اخلاقی اقدار کو فروغ دیا جائے۔ ایک دوسرے کا احترام کیا جائے اور انسانیت کا درس دیا جائے۔ لازم ہے کہ نبی کریم ﷺ کی ان تعلیمات سے راہنمائی حاصل کی جائے جن میں تحمل، برداشت، حلم و بردباری، عفو و درگزر، رواداری و احترام کا درس ملتا ہے۔