Khwab Nagar Ke Darwaze
خواب نگر کے دروازے

اپنے خیالات، تجربات اور مشاہدات کو قلم بند کرکے کتابی شکل دَینا ایک ایسا عظیم کارنامہ ہے جو نہ صرف مصنف کی فکری بلوغت کا مظہر ہوتا ہے بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے علمی ورثے کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔ کتاب، محض الفاظ کا مجموعہ نہیں، بلکہ مصنف کے دِل و دماغ کی ترجمانی ہوتی ہے، جو قارئین کو سوچنے، سمجھنے اور سیکھنے کی نئی راہیں دکھاتی ہے۔
کہتے ہیں کہ کتاب دوست کی خاموش صحبت ہے، جو کبھی شور نہیں کرتی لیکن ذہن کو وسعت دیتی ہے، دِل کو سکون بخشتی ہے اور روح کو جلا بخشتی ہے۔ کتاب صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں، یہ تہذیب، شعور، علم اور سوچ کی وہ روشن قندیل ہے جو اندھیروں میں راستہ دکھاتی ہے۔ کتاب انسان کی تنہائی میں ہمراز، خوشی میں شریک، غم میں تسلی دینے والی مونس ہے۔ قوموں کی ترقی میں جتنی بڑی عمارتیں، مشینیں اور سڑکیں کارفرما ہوتی ہیں، ان سے کہیں زیادہ کتابوں کا کردار نمایاں ہوتا ہے۔ جو قومیں کتاب سے دوستی کرتی ہیں، وہ جہالت سے دور ہو جاتی ہیں۔
آج کے ڈیجیٹل دور میں جہاں ہر چیز اسکرین پر سمٹ آئی ہے، وہاں کتاب کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے۔ کیونکہ اسکرین وقتی دلچسپی تو دے سکتی ہے، لیکن کتاب انسان کی سوچ کو گہرائی، الفاظ کو وقار اور زندگی کو مقصد دیتی ہے۔ مطالعہ انسان کی شخصیت کو نکھارتا ہے، ذہن کو وسعت دیتا ہے اور کردار کو مضبوط بناتا ہے۔ آج ہماری نوجوان نسل کتاب سے دور ہوتی جا رہی ہے۔
سوشل میڈیا کی چمک، مصنوعی مواد اور وقت کا ضیاع ہمارے اصل سرمایہ یعنی علم سے دوری پیدا کر رہا ہے۔ اس کا نتیجہ فکری انتشار، اخلاقی زوال اور معاشرتی بے حسی کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔ مگر ایسے میں ہمارے معاشرے میں چیدہ چیدہ ایسے افراد موجود ہیں جو نسلِ نو کو کتاب سے تعلق جوڑنے کے لئے کاوشیں کر رہے ہیں اور پھر وہ نہ صرف کتب کی اشاعت کروا رہے ہیں بلکہ وہ دوسروں کی کتاب کی طرف راغب کرنے کے لئے کتاب انہیں بطورِ تحفہ عنایت فرماتے ہیں۔
ایک ایسا ہی باوقار لمحہ اس وقت نصیب ہوا جب معروف ادیب، محقق، استاد اور موٹیویشن شخصیت محترم صائم خان راست نے اپنی تخلیق کردہ کتاب "خواب نگر کے دروازے" مجھے عنایت فرمائی۔ اس کتاب کے مطالعہ یہ عیاں ہوا کہ یہ کتاب نہ صرف ان کے علمی ذوق کی عکاس ہے بلکہ اس میں چھپے ہر لفظ سے ان کی فکری گہرائی اور مطالعے کی وسعت جھلکتی ہے۔ اس کی انفرادیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ میں وادی کشمیر کے معروف شعراء کرام ناز مظفر آبادی، عبدالبصیر تاج ور، خیر الزمان راشد، اشتیاق احمد آتش، اورانجم سلیمی کی آر اء بھی شامل ہیں۔
سردار اسرار الحق، سپر نٹنڈنٹ پولیس، آزاد کشمیر، خواب نگر کے دروازے بارے لکھتے ہیں کہ: "علم محض معلومات کا نام نہیں بل کہ ایک ایسا شعور ہے جو انسان کی فکری بالیدگی، کردارکی تعمیر اور معاشرتی آگہی کو نئی جہات سے روشناس کراتا ہے۔ زیرِ مطالعہ کتاب محض ایک تخلیقی کاوش نہیں بل کہ فہم و ادراک کی ایسی سطح پر قائم ہے جہاں الفاظ، قاری کو محض قائل نہیں کرتے بل کہ اسے غورو فکر کی گہرائیوں میں اتار دیتے ہیں۔ زبان وبیان میں روانی، افکار میں پختگی اور موضوع پر گہری گرفت اس کتاب کو ایک منفرد مقام عطاء کرتی ہے۔
یہ نہ صرف علمی حلقو ں بل کہ عام قارئین کے لئے بھی یکساں طور پر مفید ہے۔ اس میں پیش کردہ نکات اور تجزیات قابلِ ستائش ہیں اور مصنف نے نہایت باریک بینی سے موضوع کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے۔ رینجر ز پولیس آزاد کشمیر کی جانب سے ہم اس علمی کاوش کو سراہتے ہیں اوراُمید کرتے ہیں کہ یہ کتاب قارئین کے فکری دائرے میں وسعت دے گی اور مطالعہ کے شوقین حضرات کے لئے ایک قیمتی اثاثہ ثابت ہوگی۔
ہم مصنف کو اس علمی خدمت پر مبارک باد پیش کرتے ہیں اور دُعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے علم میں مزید اضافہ فرمائے اور ان کی تحریر کو زیادہ سے زیادہ لوگوں کے لئے نافع بنائے"۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ صائم خان راست کی تصنیف ایک گہری فکری، تخیلاتی اور ادبی تخلیق ہے، جو قاری کو محض الفاظ کی دُنیا میں نہیں، بلکہ خوابوں، احساسات اور لاشعور کے راستوں پر لے جاتی ہے۔ اس کے سرورق سے ہی یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ کتاب صرف لفظوں کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک فکری در وا کرتی ہے۔ مصنف نے نہ صرف خوبصورت انداز تحریر میں زندگی کی کئی پرتیں کھولی ہیں بلکہ قاری کو دعوتِ فکر بھی دی ہے کہ وہ خود بھی اپنے لاشعور کے دروازے کھول کر ان خواب نگر راہوں سے گزرے، جہاں ہر در وا ہوتے ہی نئی حقیقت سامنے آتی ہے۔
ایسی کتابیں لکھنے والے اور انہیں بطور تحفہ دینے والے لوگ دراصل معاشرے میں فکری چراغ جلاتے ہیں۔ صائم خان راست کی یہ کتاب ایک علمی تحفہ ہی نہیں بلکہ قاری کے لیے سوچ کا ایک نیا زاویہ بھی ہے۔ خواب نگر کے دروازے ہمارے لئے پیغام ہے کہ ایک بار پھر کتاب سے رشتہ جوڑیں۔ لائبریریوں کو آباد کریں، اسکولوں، کالجوں اور گھروں میں مطالعہ کا ماحول بنائیں۔ بچوں کو کتاب تحفے میں دیں، ادیبوں اور لکھاریوں کی قدر کریں اور کتاب میلوں کا انعقاد کریں تاکہ معاشرے میں کتاب کی اہمیت اجاگر ہو۔ وقت کی اہم ترین ضرورت بھی یہی ہے کہ ہم نئی نسل میں کتاب سے محبت پیدا کریں۔ انہیں یہ باور کروایا جائے کہ کتاب صرف ایک تعلیمی ضرورت نہیں بلکہ ایک مکمل شخصیت ساز ادارہ ہے۔ والدین، اساتذہ، کتب دوست تنظیمیں اور تعلیمی ادارے مل کر کتابی ماحول پیدا کریں، کتاب میلوں کا انعقاد کریں، تحفے میں کتاب دیں اور سب سے بڑھ کر خود مطالعہ کریں۔
یاد رکھیے! جو معاشرہ کتاب سے منہ موڑتا ہے، وہ اپنا ماضی کھو بیٹھتا ہے، حال سے نابلد ہو جاتا ہے اور مستقبل کا نقشہ مٹنے لگتا ہے۔ آئیے! ہم سب کتاب سے رشتہ جوڑیں، تاکہ ہم خود کو، اپنی تہذیب اور نسلوں کو سنوار سکیں۔

