Kashmiri Zuban Mein Watan Se Mohabbat Ke Geet
کشمیری زبان میں وطن سے محبت کے گیت
وطن کی محبت انسان کی فطرت میں داخل ہے اور یہ ایک ایسا جذبہ ہے، جس سے کوئی بھی دِل خالی نہیں۔ کشمیری زبان میں ایک کہاوت ہے۔ "ژرہ چُھہ کنِڈلخجہ پیٹھی سوکھ"۔ یعنی چڑیا کو خادراد شاخ پر ہی سکون حاصل ہوتا ہے۔ اس فطری جذبے کی عکاسی ان الفاظ میں کی گئی ہے:
خاکِ وطن از ملکِ سیلماں خوشتر خارِ وطن از سنبل وریحان خوشتر
یوسفؑ کہ بہ مصری پادشاہی میکرد میگفت گدابودن کنعاں خوشتر
کشمیری شاعری کا پہلا دور جوشتی کنٹھ سے شیخ نورالدین ولیؒ تک ہے جو صوفیانہ شاعری کا دور کہلاتا ہے دوسرا دور حبہ خاتون سے ارنی مالی تک ہے۔ اور یہ دور پیار اور محبت کی شاعری کا ہے تیسرا دور محمود گامی شاہ آبادی سے عزیز اللہ حقانی تک ہے اس میں رومانیت بھی ہے اور رُوحانیت بھی۔ چوتھا دور جو مہجور سے شروع ہوتا ہے جدید اور انقلابی شاعری کا دور ہے، جس کا تصور ذہن میں آتے ہی ہماری آنکھوں کے سامنے روشنی کے دو مینار اُبھرتے ہیں جن کی ضو سے جدید کشمیری اَدب کی شاہراہوں پر اجالاپھیلا ہوا ہے۔
یہ دو مینارِ نور پیرزادہ غلام احمد مہجور اور منشی عبدالاحد آزاد ہیں۔ یہی دو آتش نواشاعر ہیں جنہوں نے فرار پسند رومانیت کی راہ سے الگ ہو کر انقلاب کا آتشیں نغمہ الاپا اور وطن کی محبت میں ڈوبتے ہوئے گیتوں سے کشمیریوں کی رگ رگ میں زنفگی کی حرارت بھر دی۔ موجودہ دور کو مکمل طور پر انقلابی شاعری کا دور کہا جائے تو بیجانہ ہوگا۔ 1947ء میں اسوقت تک کشمیری زبان تقریباً ہر شاعر وطن کی آزادی کے لیے مصروفِ عمل ہے اور وہ دِن دور نہیں جب ان کے شعلہ نوائی سے ڈوگرہ بھارتی استبداد کاغذی محل جاکر خاکستر ہو جائے گا۔
کشمیری شاعری کے پہلے تین دور صوفیانہ اور رومانی شاعری کے لیے مشہور ہے۔ لیکن جو دور محمود گامی سے شروع ہوا اس میں بغض ایسے گیت بھی تخلیق ہوئے جن میں آزادی کی جد و جہد پر زور دیا گیا اور اہلِ کشمیر کو ترغیب دِی گئی کہ وہ میدانِ عمل میں آئیں اور وطن دشمنوں کے ناپاک ارادوں کو کاک میں ملا دیں۔ محمود گامی کا ایک مشہور گیت پیش خدمت ہے، جس میں میں اس نے اپنے وطن کی حالتِ زار پر خون کے آنسو بہائے ہیں:
سوز دِلک بہ کَس ونے روز دمابوزم کنئے
شالمار چھی بئر بئر پیالَے لالہ یکھنا ازمیانہِ سالَے
سیِنہ دارتھ بہ رٹتھ نالَے کھئے ژلِم ژِہ ڈیشنے
ڈس منز باگ چھی چہار چنار عاشقو روٹ تتی قرار
چائے سبز و سیاہ بیار کمہ نعمژ یوِان کھنئے
لئجمہ پُھلیا گلاب باغس روشہ راغس پتہ نس آغس
دستارس لند لند لاگس تازہ گلاب مشک بنئے
لالے گومیپانپور وتَے کونگہ پوشوروٹ نالہ متے
سوچھُ تہ تہ بہ چھس تیئے بارصاحبو بوزتم زارے
محمود دُنیا چُھو فنا ٹوٹھ پاون چھی بے وفا
تی کریمہ واتی فضاء اہلِ صفادَیِوہ سیتِ ہنیئے
محمود گامی نے اس گیت میں کشمیر سے اپنی والہانہ محبت کا اظہار کیا ہے اور کئی قابلِ دید اور صحت افزا مقامات کی خوبیاں بیان کی ہیں اور اپنے وطن کے ساتھ وفاداری کا عہد کیا ہے۔
رسول میر ایک غزل گو شاعر ہے، لیکن اس کے کلام میں بھی وطن سے محبت کے گیت ہیں جن میں بڑا سوز اور درد پایا جاتا ہے۔ شاعر اپنے وطن کو غیروں کے تسلط میں دیکھ کر بے حد مضطرب ہے اور اس کا اظہار یوں کیا ہے:
یتھ بدنس ژلنم داغ دسیئے ولئے گژھ وے کونگن ناگ ویسئے
وچھن پورے سیرِہ منزون بہ دمِس زینہ شاہ صیب عیش مقام ویسئے
چتیہ شریں لب چُھوئی آبِ زمزم پنئزگام صوفہ منزناگ ویسئے
کہہ بونس آب کیا دراوجاری شہ آبادبیہ ویرناگ ویسئے
سالہ انتن بالہ پانُک وزبیس حال وتھراوس منز پوشہ باغ ویسئے
رسول میرچھی دردِکِ فراق دوان گُلِ انارِ وٹنم داغ ویسئے
اس گیت میں کشمیر کی خوبصورتی کے بیان کے ساتھ ساتھ مختلف مقامات کا نام لے کر ان سے دِلی محبت کا اظہار کیا گیا ہے جس میں شاعر کی حب الوطنی کا اندازہ ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں جب شخصی حکومت کے خون آشام دیونے بے بس کشمیریوں کی رگِ حیات میں اپنے دندانِ آزگاڑدکھے تھے انہیں وطن کی محبت کے گیت سنا کر انقلاب کے لیے تیار کرنا مہجور اور آزاد جیسے آتش نوااور شعلہ بیان شعرا ہی کا کام ہے۔ چنانچہ جن دنوں ریاست جموں و کشمیر میں حکومتِ خود اختیاری کا مطالبہ زورں پت تھا مہجور نے باغبان کے عنوان سے ایک نظم لکھی جس میں کشمیری نوجوانوں کو انقلاب کی تحریک کی گئی اور انہیں یہ حقیقت ذہن نشین کرائی گئی تھی کہ وطن سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ہر قتیمت پر ظالم ڈوگرہ حکمران کے پنجہ استبدار سے نجات دلائی جائے گیت کے چند بول پیش ہیں:
ولوہا باغوانو نو بہارُک شان پیدا کر
پھولن گل گتھ کرن بلبل تتھی سامان پیدا کر
باچھ باغس اجنور بولان مگر آواز چھیکھ بیؤن بیؤن
ژہ ینہدین آلون یارب اثر یکساں پیدا کر
کربی کُس بلبو آزاد پنجرس منز ژہ نالاں چھکُھ
زہ پنہ نے دستہ پنہ ینن مشکلن آسان پیدا کر
اگر ذُرہ نا دہن بستی گلن منز تر اوزیر وبم
بَنیلی کر، واو کر گگرا یہ کہ طوفان پیدا کر
زمینس شاعری تہندس کِرتھ مہجور گل پیدا
ونِ اتھ باغس اندر ژی بُلبل نالان پیدا کر
مہجور نے اپنے اس گیت میں گلشنِ کشمیر باغبانوں سے اپیل کی ہے کہ انہیں اپنے پیارے وطن کو آزاد کرانے کے لئے خود میدانِ عمل میں آجانا چاہیے اور اپنی مشکلوں کو حل کرنے کے لئے خود کوشش کرنی چاہیے۔ آتشیںِ نغموں کی تخلیق کرنے والے مغنی عبدالاحد آزاد نے جس انقلابی شاعری کے ذریعے وطن سے محبت کا جذبہ اہلِ کشمیر کے دلوں میں پیدا کیا وہ آج بھی بربطِ حیات کے لئے مضراب کاکام دے رہی ہے آزاد کے لیجے کی توانائی ایک ایسی سحرکا پتہ دیتی ہے جو ظلمت کے ہزاروں پردوں کو چاک کرکے طلوع ہوتی ہے آزاد کا ایک نغمہ جانِ سوز"سونتہ گگرایہ"ملاحظہ ہو:
درُوک ناریئس لولہ منز للہ وان، روزہ نہ پردن ژھائے
تیرن تہ تیرن سینہ یئس داران، کھوژہ نہ گر کہ ونیہ کرائے
پنہ نپہ کرون مال لَوت کال پکہ، دروگہِ مولوہ اپنرہ کہ وانے
سر تلہ کہوچہ پیئٹھ ییلہ کھارن، مولہ تولہ وسہ مُلہ مائے
جنتچہ دودہ کولہ مانتھ تہ زانتھ ؤوندہ میون چَھنہ مشراوان
سندھ، رمبہ آرس ویتھ ویرناگس گنگا یہ تے جمنائے
رئتیہ کول واتن مُلہ منجہ ویسڑن تِہ کتُر چہ مندورے
شینکئین بالن چھلہ چھلہ والن سونتہ کالچہ گگرائے
وطنک سوز لوگ میوٹھ آزادس تراون ساری ہاوس
باغچہ مسولہ کھاس ہیتھ پراران کراسہ کن ییہ نائے
آزاد کا یہ گیت جس میں وطن سے محبت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہواہے نغمہ نہیں ایک نوحہ بھی ہے جس میں کشمیر کی بربادی پر آنسو بہائے گئے ہیں اور ساتھ ہی یہ توقع بھی کی گئی ہے کہ محبِ وطن کشمیری ایک دِن ظلم وستم کا خاتمہ کردیں گے۔ غلامی کی گھنگور گھٹائیں چھٹ جائیں گی اور آزادی کا سورج طلوع ہو کر رہے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔ (کشمیر لوک روایات کے آئینے میں، صفحہ 402 تا 602)