Kashmir Ki Ehad e Ateeq Ki Tareekh
کشمیر کی عہدِ عتیق کی تاریخ
کشمیر جنت نظیر کشمیریوں کا تھا، ہے اور رہے گا۔ اگر ہندوستانی سپریم کورٹ تاریخ کے تناظر میں دیکھے تو آج بھی تاریخ چیخ چیخ کر بتاتی ہے کہ کشمیر بھارت کا حصہ نہیں۔ جی ایم میر نے اپنی تصنیف کِشورِ کشمیر کی پانچ ہزار سالہ تاریخ، میں بھی کشمیر کے ناقابلِ تردید حقائق لکھے ہیں، لکھتے ہیں کہ: "ہزاروں سال پہلے سر زمین کشمیر ایک وسیع جھیل تھی جس کا نام ستی سرتھا، اسے ہر طرف سے اونچے پہاڑوں نے گھیر رکھا تھا"۔
نامور محقق پروفیسر محی الدین حاجنی کا خیال ہے کہ اُس زمانے میں پہاڑوں پر اگر کوئی انسان بستے تھے تو اُن کی زندگی بن باسی رہی ہوگی۔ دیو مالائی قصوں کے مطابق جلد بھو (JALODBHAVA) نامی آدم خور دیو جھیل سے نکل کر کناروں پر آباد بستیوں میں لوگوں کو تنگ کرتا تھا۔ کشپ رشی نے اس دیو کے خلاف کارروائی کرنی چاہی تو وہ جھیل کے پانی کے اندر چھپ گیا۔ کشپ رشی نے بارہ مولہ کے قریب ایک پہاڑ کاٹ کر جھیل کا پانی باہر نکالا۔ تاہم جو لوگ دیو مالائی کہانیوں پر یقین نہیں رکھتے، انہیں برنیئر جیسے محقق یہ خبر دیتے ہیں کہ یہ علاقہ زلزلوں کی زد میں رہا ہے جسکی وجہ سے پہاڑوں میں شگاف پڑگئے۔ چنانچہ کھا دن یار کے قریب پہاڑ میں شگاف پڑ گیا۔ اور ستی سر کا پانی نشیب کی طرف بہہ نکالا۔ جسکی نشانی آج کا دریائے جہلم ہے۔
مشہور جغرافیہ دان فریڈرک کے مطابق دیو مالائی روایات ہمیں ماضی کی تاریخ کے بارے مین اصلیت جاننے میں مدد دیتی ہیں۔ چنانچہ یہ بات امکان سے باہر نہیں کہ کشمیر میں پہاڑوں کے پھٹنے اور اس کے نتیجہ میں ایک عظیم سیلاب وقوع میں آنے کی وجہ سے ہڑپہ اوت موہنجوڈارو کی تہذیبیں ناپید ہوگئیں۔ نیلہ ناگ کیشب رشی کا بیٹا تھا اور یہاں بسنے والی ناگ یا ناگا نسل کا جداعلیٰ۔ یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ کشمیر میں قدیم زمانہ میں ناگ (یاناگا) نسل کے لوگ آباد تھے۔
جگ موہن کا بیان ہے کہ: "بززہ ہامہ کی کھدائیوں سے یہ بات پایہء ثبوت کو پہنچتی ہے کہ وادی میں 2000 قبل مسیح میں آبادی موجود تھی۔ ناگ یا ناگا یہاں کا قدیم ترین قبیلہ تھا۔ کچھ دوسرے قبائل جن میں کھش، ڈار، ڈوگر، پُشا اور تانترے وغیرہ شامل ہیں، بعد میں ظاہر ہوئے"۔ سی ایف اولڈھم کے مطابق یہ لوگ سورج بنسی خاندان کے سپوت تھے لیکن جیمز فرگوسن کا خیال ہے کہ یہ لوگ تورانی نسل کے خانہ بدوش تھے اور آریا حملہ آوروں نے انہیں بھگا کر یہاں پہنچانا تھا۔ بہرحال تاریخی اندازوں سے یہ بات یقینی ہے کہ یہ لوگ کشمیر کے اصل باشندے تھے اور آریہ نہ تھے۔ اِن کی تہذیب کی بنیاد بنی اِسی طرح جس طرح کشمیر کی ایک قدیم نسل "پشاچا"کی زبان کشمیری زبان کی بنیادبنی۔
اگست 1965ء میں سری نگر کے ایک ماہنامہ "شیرازہ" میں اقبال ناتھ کا لکھا ہوا ایک مقالہ کشمیری زبان میں شائع ہوا جس میں مضمون نگار نے قدیم کشمیر کے آٹھ "ناگ" قبیلوں کا ذکر کیا تھا۔ یہ ناگ قیبلے چشموں کے کنارے آباد تھے اوع پھن دار سانپ کی پرستش کرتے تھے، کہلن کے دور تک ناگ قبیلوں اور چشموں کے اردگرد دیومالائی قصوں کا ایسا جال بنا دیا گیا تھا کہ یہ جاننا مشکل ہوگیا تھا کہ "ناگ" کشمیری انسان تھے یا کوئی غیر مادی روحانی مخلوق تھے۔ آریہ کشمیر میں وارد ہوگئے تو انہیں ناگوں کا مقابلہ کرنا پڑا۔ لیکن بعد میں ان کے مذہب اور معاشرے میں ناگوں کا اثر بہت بڑھتا گیا۔ حتیٰ کہ آریوں نے ناگوں کو دیوتا بنا دِیا۔ کلہن کے مطابق کشمیر وہ سر زمین ہے جسے "نیلہ۔ سنگھا اور پدما" نامی ناگوں نے اپنی حفاظت میں لے رکھا ہے۔ ناگوں نے ہمارے پرکھوں کی کئی رنگ میں دستگیری کی ہے۔ مثلاً انہوں نے زعفران کی کاشت سکھائی۔ انہوں نے تانبے کی کانوں کی نشاندہی کی۔ ایسا لگتا ہے کہ پشاچوں کو مغلوب کرنے کے لئے باگوں نے آریاؤں کا ہاتھ بٹایاجس سے اُن کے تعلقات بڑھ گئے اور مذہبی ہم آہنگی پیدا ہوگئی۔
نیلہ مت پُر ان کے مطابق کشمیر میں ناگوں کی پوجا کی جاتی رہی ہے۔ آج بھی خوش عقیدہ ہندو "نوشین"(برفِ نو) اور ورن پنمچی کے بڑے دِن پر ناگ کی پوجا کرتے ہیں۔ اگرچہ ناگ آریائی نسل سے نہیں تھے لیکن بھگوت گیتا میں بھی ان کی ذات کی بڑائی کو تسلیم کیا گیا ہے۔ مگر جونہی ثفافتی میل ملاپ نے سیاسی الجھنیں پیدا کیں، آریاؤں میں ذات پات کی پرانی بیماری نے سر اٹھایا جسکے نتیجہ میں اُنہوں نے ناگوں کو یا تو بھگا دِیا یا ختم کر دِیا۔ "ھیۂ مال" اور "ناگرے" کی المیہ داستان ہمیں تمثیلی انداز میں یاد دلاتی ہے کہ آریاؤں اور ناگوں کے سیاسی بھائی چارہ کو محض آریاؤں کے ذات پات کے عقیدے نے تباہ و برباد کیا۔ اس دور کے بعد جو بچے کھچے ناگ، نگر یا کشمیر کے دوسرے علاقوں میں بستے رہے، ان کی سیاسی بیداری کے بارے میں صرف ایک روایت باقی ہے کہ کرکوٹ خاندان کا بانی "درلبھ وردھن"جس نے 601سے 636ء تک حکمرانی کی، دراصل ایک ناگ شہزادہ تھا۔
آریاؤں کی آمد سے پہلے ناگوں کے ہم عصر اور ہم وطن "پشاچ" نسل کے لوگ آباد تھے جارج گرئیرسن کا خیال ہے کہ اگرچہ آریا اور پشاچ ایک ہی سرزمین (ایران) سے ہندوستان کی طرف آرہے تھے لیکن پشاچوں کی ابتداء سے ہی آریاؤں سے چپقلش رہی، کشمیر میں ایک دوسرے سے تعلقات ہونے کے بعف بھی آریا انہیں اچھوت سمجھتے رہے۔ لیکن جہاں تک پشاچوں کی تہذیب کے اثر کا تعلق ہے اس کی بہت بڑی یادگار یہاں کی کشمیری اور دسوری زبانیں ہیں جن پر آج تک درجنوں زبانوں میں پیوند کاری رہے ہے جسے آریاؤں کو مجبوراًقبول کرنا پڑا۔ جہاں تک زبانوں کا تعلق ہے، ماہرین لسانیات کی تحقیق کے مطابق بلتی شیناکوہستانی، کشمیری، پہاڑوں اور خور زبانیں ایک ہی گروپ یعنی پشاچا یادرد گروپ سے تعلق رکھتی ہیں۔
ڈاکٹر ناموس "گلگت اور شینا زبان" میں لکھتے ہیں: "موجودہ زمانہ میں پشاچا گروپ(یعنی درد خاندان) میں یہ زبانیں شامل ہیں۔ خور (چترال کی زبان) کافر(کافرستان کی زبان) اور درد گروپ میں شینا، کوہستانی، کشمیری اور پہاڑی شامل ہیں۔ یہ زبانیں الفاظ اور بندش کے لحاط سے ایک دوسرے کے قریب ہیں۔ آپس میں ان کا ایک ربط موجود ہے یعنی یہ ایک ہی گھرانے کی زبانیں ہیں۔ یہ کہنا آسان ہے کہ یہ ہانچوں ایک ہی ماں کی بیٹیاں ہیں۔ "ڈاکٹر ناموس کہتے ہیں کہ ان تمام تاریخی اور لسانی حقائق سے ہم اس نتیجہ پر پہنچے کہ جدید پشاچا زبانیں اپنی ذات کے لحاط سے نہ تو ایرانی آریائی ہیں اور نہ ہند آریائی۔ بلکہ زبانوں کا یاک جداگانہ گروہ ہیں"۔
ریاست کے کئی علاقے ایسے ہیں جہاں شینا، بلتی اوت کشمیری تینوں زبانیں بولی جاتی ہیں۔ اس طرح شینا اور کشمیر نیز پیاڑی اور کشمیری دونوں زبانیں بولنے والے علاقے بھی موجود ہیں۔ پشاچوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ "بُرزہ ہامہ" ان کا مرکز تھا۔ بُرزہ ہامہ میں آثار کی قدیمہ کی کھدائیوں کے بعد ڈی ایچ گورڈن اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ بُرزہ ہامہ کے باسی 1200ء قبل مسیح میں یہاں پہنچے تھے۔ جہاں تک کشمیر کوآباد کرنے کا تعلق ہے پشاچ قبائل ابتدائی ناگ عہد سے ہی سارے کشمیر میں وقتاً فوقتاً نوآبادیاں بساتے رہے ہیں۔ ان کی تعداد آریاؤں اور ناگوں کے مقابلے میں زیادہ رہی ہے۔ اِسی لئے ان کی زبان عوام کی زبان بن گئی۔
پشاچوں کے ساتھ ایک اور غیر آریائی قبیلہ کا ذکر آتا ہے جو "یکشا" کہلاتا ہے غالباً کشمیری زبان کا لفظ "یچھ" ان ہی کی یادگار ہے۔ یچھ کے معنی ہیں ناکارہ، بدصورت وغیرہ۔ ہوسکتا ہے یہ لوگ شکل و صورت کے لحاظ سے کم تر ہوں۔ ان ابتدائی قبیلوں کے بعد "آریا"کشمیر پہنچے۔ یہ لوگ تہذیب، اپنا تمدن، اپنا مذہب اور فلسفہ لائے۔ کشمیری سمبت (کیلنڈر) جو "کالی"کہلاتا تھا، کی ابتداء کشمیر میں آریاؤں کے دور سے ہوئی ہے۔ یہ سمبت 3075-76قبل مسیح سے شروع ہوتا ہے۔ اس حساب سے آج 2023عیسوی کشمیری کیلنڈر کا 5098واں سال ہے۔
رشید اختر ندوی نے بھی اپنی تصنیف "ارض پاکستان کی تاریخ" میں کشمیر اور اس کے آس پاس کے اُس دور کے حالات کا ذکر کیا ہے: "موجودہ پاکستان میں پہلا آدمی شمالی مغربی پہاڑی دامنوں میں آباد تھا، یہ پہاڑی دامن ایک تو وہ ہیں جنہیں دریائے "سون" سیراب کرتے ہیں یعنی موجودہ راولپنڈی اور اٹک کے اضلاع اور دوسرے دامن جموں، سیالکوٹ اور پونچھ ہیں بہر حال اس دور کے آدمی نے بھی اپنے آثار نیم گھڑے قسم کے پتھر کے اوزار چھوڑے ہیں جوکلر، چُومکگ، ملک پور، سون نالے اور توی کے آس پا س ملتے ہیں۔ پہلے تین مقامات دریائے جہلم اور اس کے معاون ندی نالوں سے سیراب ہونے والے علاقے سے متعلق ہیں"۔
رشید ندوی مزید لکھتے ہیں: "دریائے جہلم اور چناب کے علاقے میں ان دنوں جو قبیلے آباد تھے ان میں رگ وید نے سجاونت، مہاواس، اتراکورواور مدرا کو زیادہ اہمیت دی ہے۔ سجاونت جنوبی کشمیر کے باشندے تھے۔ سوما، شراب کی بُوٹی ان ہی کے علاقے میں پیدا ہوئی تھی۔ اتراکورو اور مدرا سجاونت اور تریکا کے مابین کی سرزمین کے مالک تھے۔ اتراکو رو اور مدرا کے اس علاقے کو ہم موجود کشمیر کا نام دے سکتے ہیں۔
معروف عالم فینکے کا تو خیال ہے کہ سنسکرات زبان دراصل کشمیر میں پروان چڑھی تھی۔ ویدک انڈیکس کے مورخین نے اِس رائے سے اتفاق کیا ہے۔ رنگ اچاریہ کہتے ہیں کسی زمانے میں جنوبی ہندوہستان کے لوگ زبان سیکھنے کے لئے کشمیر یا اترا کو رومدرا دیس جایا کرتے تھے کیوں کہ عام خیال تھا کہ اس علاقے کی زبان بہت پاکیزہ ہے۔ "جن کی علاقائی زبان پاکیزہ ہو وہ کبھی بھارت کا حصہ نہیں ہو سکتے۔