Jhoot Ka Aalmi Din
جھوٹ کا عالمی دِن
دُنیا بھر میں ہر سال اپریل فول ایک تہوار کے طور پر منایا جاتاہے۔ نبیﷺ نے فرمایا:"میں اس شخص کے لئے جنت کے وسط میں ایک گھر کا ضامن ہوں جو مذاق و مزاح میں بھی جھوٹ بولنا چھوڑ دے "یہ حقیقی کامیابی ہے لیکن ہم نے جن کی تقلید کو کامیابی /روشن خیالی سمجھ کر سینے سے لگایا ہے ادھر تو روشنی کا منبع سورج بھی ڈوب جاتا ہے۔ آج مغرب کی کتنی ہی اخلاقی وبائیں اور غلط رسم و رواج ہیں جو ہمارے سماج اور معاشرہ کا حصہ بن چکے ہیں۔
"اپریل فول"بھی جو یہودیوں کا دین ہے، اسی قسم کی خلاف مروت، خلافِ تہذیب اور جاہلیت کی بات ہے جو ہمارے معاشرے میں در آئی ہے۔ ہماری نئی نسل خاص طور پر تعلیم یافتہ طبقہ اسے گرمجوشی سے مناتا ہے اور اسی کو عین روشن خیالی تصور کرتا ہے۔ ان وباؤں کی وجہ سے آج نسلِ نو میں سے کوئی ایسا شاید ہی ملے جو اسلام کے ہیروز کو جانتا ہو اور ان جیسے بنناچاہتا ہو۔ انہیں ان کی تاریخ، کارناموں کا علم ہی نہیں۔
ایسی ہی ایک اخلاقی وباء یکم اپریل بھی ہے۔ اِس دِن لوگ ایک دوسرے سے مذاق اور استہزاء کرتے اور ایک دوسرے کو بے وقوف بناتے ہیں۔ اس سلسلے میں عوام تو کجا حد یہ ہے کہ اب طلباء بھی اپنے محترم اساتذہ کے ساتھ یہ خلاف مروت اور حماقت پر مبنی رسم کلاس روم میں انجام دیتے ہیں۔ اِس دِن عوام کو بے وقوف بنانے کے لئے سنسنی خیز خبریں شائع کی جاتی ہیں جسے پڑھ کر لوگ تھوڑی دیر تک حیرت میں پڑھ جاتے ہیں، بعد میں پتہ چلتا ہے کہ آج یکم اپریل "اپریل فول"کا دِن ہے تو حقیقت واضح ہوجاتی ہے۔
اپریل فول تاریخ کے آئینہ میں دیکھا جائے تو س کی بنیاد اسلام اور مسلم دشمنی پر رکھی گئی ہے، اسپین میں مسلمانوں کے زوال کے بعد مسلمانوں پر بے انتہا ظلم و ستم ڈھائے گئے، ان کا قتل عام کیا گیا، ان کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کو توڑا گیا اور مسلمانوں کو زبردستی اپنا مذہب چھوڑنے پر مجبور کیا گیا، اور انکار پر مسلمانوں کو بے دخل کرکے ان کا بے دردی سے قتل کردیا گیا۔
ہیرالڈ لیم سمیت مختلف تاریخ دان لکھتے ہیں کہ جب ابو عبداللہ نے اپنے باپ اور تمام مسلمانوں سے غداری کی تو اس کے نتیجے میں فرنینڈو کو اسپین پر قبضہ کرنے میں بہت آسانی ہوگئی اور اسی ابو عبداللہ کو عیسائیوں نے اپنا مقصد پورا ہونے کے بعد اسپین سے بے دخل کردیا، ابو عبداللہ نے جب غرناطہ کی کنجیاں شہنشاہ فرنینڈو کو دیں تو یہ الفاظ ادا کی "اے بادشاہ خدا کی یہی مرضی تھی، ہمیں یقین ہے کہ اس شہر کی رعایا کے ساتھ فیاضانہ سلوک کیا جائے گا"۔
اس کے بعد وہ ایک پہاڑ پر چڑھ کر گزشتہ شان و شوکت کا نظارہ کرنے لگا اور پھر رونے لگا۔ اس کی ماں نے اس وقت اس سے یہ جملہ کہا کہ جس چیز کی مردوں کی طرح بچا نہ سکے اس گمشدہ چیز کے لیے عورتوں کی طرح آنسو بہانے سے کیا فائدہ؟ بہرحال آہستہ آہستہ عیسائی حکمرانوں نے مسلمانوں کے ساتھ بدترین سلوک کرنا شروع کیا ان کو اپنا مذہب بدلنے پر مجبور کیا گیا اور ایک آرڈیننس جاری کیا گیا کہ مسلمان یا تو عیسائی ہوجائیں یا نہ ہونے کے عیوظ 50 ہزار سونے کے سکھے دیں، ایسا نہ کرنے والا سولی پر لٹکا دیا جاتا تھا، یا انتہائی ازیت ناک سزا کا مرتکب قرار دیا جاتا تھا۔
اس کے علاوہ مدارس میں بچوں کو بپتسمہ دیا جاتا تھا مسلمانوں نے حالات کے پیش نظر اور جان کے خوف سے عیسائی مذہب قبول کرلیا تھا لیکن یہ سب ظاہری اور اوپری طور پر تھا جب بچے گھر آتے تو ان کا منہ فورا دھویا جاتا تاکہ بپتسمہ کا اثر ختم ہوجائے، جب مسلمان نکاح کرنا چاہتے تو وہ پہلے گرجا میں جاکر عیسائی طریقے سے شادی کرتے اور گھر آکر دوبارہ نکاح کرتے، غرض حکمرانوں نے مسلمانوں پر ظلم رواں رکھا۔
اور کچھ عرصے بعد یہ اعلان ہوا کہ مسلمان عیسائی لباس پہنیں گے یعنی مسلمانوں سے ان کی شناخت کی ہر چیز چھینی جارہی تھی، حکمرانوں نے اپنے کسی عہد کی پاسداری نہیں کی ان کے ظلم سے عورتیں اور بچے بھی محفوظ نہیں تھے۔ مختصر یہ کہ ان عیسائی حکمرانوں نے ایک چال چلی کہ بچے کچے مسلمانوں سے کہا گیا کہ ان کو افریقا بھیج دیا جائے گا وہ اسپین چھوڑ دیں، مسلمان اس جھانسے میں آگئے اور انھوں نے اپنا تمام مال و اسباب اور علمی ذرخیرہ جمع کیا اور عیسائیوں کی جانب سے فراہم کردہ بحری جہازوں میں سوار ہوگئے۔
ان مسلمانوں کو علم نہیں تھا کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے، ان کو صرف یہ پتہ تھا کہ ظلم کے ماحول سے ہم دور چلے جائیں گے اگر چہ مسلمان اپنے وطن سے دور رہنے کو تیار نہ تھے لیکن ان کو اس بات کی بھی خوشی تھی کہ ان کی جان بچ جائے گی، بندرگاہ پرحکومت کے اہلکاروں اور جرنیلوں نے مسلمانوں کو الوداع کہا اور ان کو رخصت کیا بیچ سمندر میں پہنچ کر منصوبہ بندی کے تحت ان جہازوں کو غرق کیا گیا اس کے باعث سینکڑوں مسلمان شہید ہوگئے اور ساتھ ساتھ وہ قیمتی و علمی ذخیرہ بھی برباد ہوگیا جو مسلمانوں نے بڑی مشکل سے جمع کیا تھا۔
یہ واقعہ یکم اپریل کو پیش آیا تھا اور یہ گیارویں صدی عیسوی کے اوائل کا واقع ہے۔ برِ صغیر میں اپریل فول کہا جاتا ہے کہ بر صغیر میں پہلی بار اپریل فول انگریزوں نے بہادر شاہ ظفر سے منایا جب وہ رنگون جیل میں تھے۔ انگریزوں نے صبح کے وقت بہادر شاہ ظفر سے کہا کہ یہ لو تمہار ا ناشتہ آگیا ہے۔ جب بہادر شاہ نے پلیٹ پر سے کپڑا اٹھایا تو پلیٹ میں اس کے بیٹے کا کٹا ہو ا سر تھا جس سے بہادر شاہ ظفر کو صدمہ پہنچا جس پر انگریزوں نے ان کا خوب مذاق اڑایا۔
اپریل فول کے دِن جھوٹ بولنے کے ساتھ ساتھ وعدہ خلافی بھی بطورفیشن کی جاتی ہے۔ جھوٹ اوروعدہ خلافی جس کے اندرہو وہ خالص منافق ہوگا۔ آج ہماری ہر منزل مغرب کی پیروی میں ہی نظر آتی ہے۔ ہر وہ قول وعمل جو مغرب کے ہاں رائج ہوچکا ہے اس کی تقلید لازم سمجھتا ہے قطع نظر اس سے کہ وہ اسلامی افکار کے موافق ہے یا مخالف۔ حتی کہ یہ مرعوب مسلمان ان کے مذہبی شعار تک اپنانے کی کوشش کرتاہے۔
انسانیت کی عزت وآبرو کی پروا کیے بغیر قبیح سے قبیح حرکت سے بھی اجتناب نہیں کیا جاتا۔ اس میں شرعاً واخلاقاً بے شمار مفاسد پائے جاتے ہیں جو مذہبی نقطہ نظر کے علاوہ عقلی واخلاقی طور پر بھی قابل مذمت ہیں۔ آج یہ دِن مغربی دُنیا میں مسلمانوں کو ڈبونے کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ یہ ہے اپریل فول کی حقیقت!مسلمانوں کا اپریل فول منانا جائز نہیں، کیونکہ اس میں کئی مفاسد ہیں جو ناجائز اور اپریل فول میں ہونے والے حادثات بہت ہیں۔
لوگوں میں سے کتنے ہیں جن کوانکے لڑکے یا بیوی یا دوست کی وفات کے بارے میں خبردی گئی توتکلیف وصدمہ کی تاب نہ لاکرانتقال کرگئے اور کتنے ہیں جن کونوکری کے چھوٹنے یا آگ لگنے یا انکے اہل وعیال کا ایکسیڈنٹ ہونے کی خبردی گئی تووہ فالج یا اسکے مشابہ دیگر امراض سے دوچارہوگئے اوربعض لوگوں سے جھوٹے یہ کہا گیا کہ انکی بیوی فلاں آدمی کے ساتھ دیکھی گئی تویہ چیزاسکے قتل یا طلاق کا سبب بن گئی اسی طرح بہت سارے واقعات وحادثات ہیں جن کی کوئی انتہا نہیں اورسب کے سب جھوٹ کا پلندہ ہیں جنہیں عقل ونقل حرام ٹھراتی ہے اورسچی مروّت اسکا انکارکرتی ہے۔
اس دن مذاق میں دوسروں کو ڈرایا دھمکایا بھی جاتا ہے جو بسا اوقات جان لیوا بھی ثابت ہوتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اس قبیح فعل سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچانے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اپریل فول کے موقع پرہنسی مذاق، تمسخر، استہزا، جھوٹ، دھوکہ، مکروفریب، وعدہ خلافی، بددیانتی اورامانت میں خیانت وغیرہ وغیرہ امورانجام دیے جاتے ہیں۔
یہ سب مذکورہ فرمان الٰہی اورفرمان رسالتﷺ کی روشنی میں ناجائزوحرام، خلاف مروت، خلاف تہذیب کے خلاف ہیں لیکن افسوس صدافسوس مسلمانوں پر جوقوم نیکی کی دعوت اوربرائی سے روکنے کے لیے مبعوث کی گئی ہووہ قوم خداورسولﷺ کے دشمن یہودونصاری کی تقلیدکرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کواسلامی تعلیمات اوراسوہ مصطفویﷺ کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطافرمائے۔