Jammu Ya Azad Kashmir Mein Bare Peymane Par Mutawaqa Zalzale
جموں یا آزاد کشمیر میں بڑے پیمانے پرمتوقع زلزلے
ماہر ارضیات پروفیسر ایم اے ملک نے ہمالیہ کے پہاڑوں میں خطرناک مقام کی وجہ سے ہندوستان کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر میں ایک بڑے زلزلے کے امکان سے خبردار کیا۔ جموں یونیورسٹی (جے یو) کے شعبہ ارضیات کے ریٹائرڈ سربراہ پروفیسر ملک نے یہ بات مقبوضہ علاقے میں حالیہ معمولی جھٹکوں کے ردعمل میں کہی۔ IIOJK نے پچھلے چار دنوں کے دوران 11 معمولی جھٹکے دیکھے۔
ڈوڈہ ضلع میں خاص طور پر پچھلے کچھ دنوں کے دوران ریکٹر اسکیل پر 2 سے 8، 3 سے 4 تک کے جھٹکے دیکھے گئے، جس نے لوگوں کو بے چین کر دیا۔ ڈوڈہ ضلع میں 24 اگست کو زلزلے کی شدت ریکٹر اسکیل پر 3 سے 2 تھی۔ اس خبر کے بعد بے لگام سوشل میڈیا پر ستمبر، اکتوبر 2022ء میں آزاد کشمیر، پاکستان میں خوفناک زلزلے کی پیشنگوئیوں نے عوام کو ذہنی کرب سے دوچار کر رکھا ہے۔
اس حوالہ سے ماہر ارضیات پروفیسر ڈاکٹر مرزا شاہد بیگ کا کہنا ہے کہ یہ علاقہ فالٹ سے متعلقہ زلزلوں کی وجہ سے انتہائی خطرناک ہے۔ ذیلی ہمالیہ میں فعال ریاسی فالٹ (RF) مناسا، ٹین، پالندری، سرساوا اور کوٹلی سے لے کر ریاسی جموں و کشمیر تک پھیلا ہوا ہے۔ فالٹ 0 سے 5 ایم اے سے فعال ہے۔ ریاسی فالٹ ممکنہ زلزلے کے لیے ایک مضبوط ذریعہ ہے۔ اگر ریاسی فالٹ پر خاصا تناؤ پیدا ہوتا ہے تو ہمیں شدید زلزلہ آئے گا۔
ڈوڈہ جموں یا آزاد کشمیر میں بڑے پیمانے پر آنے والے زلزلے کا مستقبل کا وقت معلوم نہیں ہے۔ جموں و کشمیر میں عوام، ڈیموں اور انفراسٹرکچر کی حفاظت کے لیے زلزلوں کی نگرانی کی ضرورت ہے۔ متعلقہ حکام اور عوام کو ریاسی فالٹ کے پار ایک کلومیٹر ریڈ زون پر غور کرنا چاہیے۔ ریڈ زون میں سول سٹرکچر کی تعمیر نہیں ہونی چاہیے۔ علاقے میں تعمیرات زلزلے کے خطرات کے مائیکرو زونیشن، جی ویلیوز، جیو ٹیکنیکل اسٹڈی، اور بلڈنگ کوڈز پر مبنی ہونی چاہیے۔
برس ہا برس سے زلزلوں، ہولناک بارشوں، سیلابوں اور سمندری طغیانی سے ہونے والے نقصانات کا حجم کم ہونے کی بجائے تباہ کاریوں کا دائرہ وسیع ہوتا جا رہا ہے۔ بارشوں، سیلابوں اور زلزلوں سے متاثرین کے اعداد و شمار میں مسلسل اضافہ لمحہ فکریہ ہے۔ قدرتی آفات میں زلزلہ ایسی آفت ہے جو کرہ ارض پر جہاں بھی آتا ہے وہاں تباہی و بربادی لاتا ہے۔ دُنیا میں ابھی تک کوئی ایسا نظام ایجاد ہوا جس سے زلزلہ کا پیشگی پتہ چل سکے۔
بیسویں اور اکیسویں صدی میں کئی تباہ کن زلزلے آئے جو لاکھوں جانوں کو لقمہ اجل بنا گئے۔ زلزلوں کا مختصراً احوال یوں ہے: 1920ء میں چین میں زلزلہ میں دو لاکھ پینتیس ہزار افراد ہلاک ہوئے، 1921ء میں چین میں دو لاکھ افراد جان سے گئے۔ 1923ء میں جاپان کے شہر کالا ہاما میں ایک لاکھ چالیس ہزار القمہ اجل بنے۔ 1935 میں پاکستان کے شہر کوئٹہ میں ساٹھ ہزار افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
1980ء میں اٹلی کے زلزلہ میں تراسی ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔ 2001 میں ہندوستان کے شہر گجرات میں چالیس ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ 2004 میں سونامی سے ہندوستان، انڈونیشیاء، سری لنکا تھائی لینڈ میں دو لاکھ افراد لقمہ اجل بنے تھے۔ 2005 میں آزاد کشمیر میں قیامت خیز زلزلہ میں کشمیر اور صوبہ خیبر پختونخوا میں 70 ہزار افراد شہید ہوئے تھے۔
ابھی وہ زخم ہرے ہی تھے کہ میرپور آزاد کشمیر زلزلہ سے لرز اٹھا جس سے 26 افراد جان سے گئے کئی افراد زخمی، شاہرائیں کھنڈرات بن گئی، کئی گھر ویران، رہی سہی کسر آفٹر شاکس نے نکال دی۔ زلزلوں میں مالی نقصانات کا تخمینہ کھربوں ڈالرز میں تھا۔ 26 اکتوبر 2015ء میں پاکستان میں 8 سے 1 شدت کا زلزلہ آیا تھا جس سے خیبر پختون خوا کے ملاکنڈ ڈویژن اور قبائلی علاقہ اور باجوڑ ایجنسی میں 270 تک لوگ شدید اور 1000 کے قریب زخمی ہونے کے ساتھ ہی اربوں کی مالیت املاک کو نقصان پہنچایا تھا۔
کائنات کا سارا نظام ہی لہروں سے چل رہا ہے۔ ہر ستارے اور سیارے کی حرکت سے جو ارتعاش پیدا ہو رہا ہے اس کے اثرات ہماری زمین اور دوسرے سیاروں پر بھی پڑتے ہیں اب سائنس ان بنیادوں پر کام کر رہی ہے کہ جس کا قرآن پاک میں بھی ذکر ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی اور جدید ریسرچ میں عبور حاصل کرنا غیر مسلموں کا اثاثہ نہیں بلکہ یہ مسلمانوں کی میراث بھی ہے اور فرض بھی، اسلام کے وہ بنیادی تصورات اور تعلیم جس سے تقریباً ہر مسلمان واقف ہے جدید ریسرچ پر ہی زور دیتے ہیں۔
ہماری کہکشاں گلیکسی وے میں سورج جیسے اربوں ستارے ہیں ان کے اپنے نظام شمسی ہیں۔ سورج سے ہزاروں گُنا بڑے ستارے بھی ہماری کہکشاں میں موجود ہیں۔ ہماری کہکشاں سے سینکڑوں بلکہ ہزاروں گُنا بڑی کئی کہکشائیں دریافت ہو چکی ہیں۔ کائنات میں کھربوں میل کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ سب سے پہلے انسان نے اپنی بنیادی ضروریات پر توجہ دی۔ دھاتوں کو اپنے استعمال میں لایا پھر آہستہ آہستہ سائنسی ایجادات کی دُنیا میں داخل ہوا اب ہر لمحہ نِت نئی ایجادات ہو رہی ہیں، مگر یہ سارا علِم وہ ہے کہ جو آدم کو اللہ کا نائب ڈکلیئر کرنے سے پہلے ہی عطا کر دیا گیا تھا۔
جوہری سائنسدانوں نے انتہائی خوفناک اور شدت کے ساتھ زلزلے کے خدشے کا اظہار کیا ہے۔ یہ اس قدر خطرناک ہو گا کہ براعظموں کو جدا کر دیگا اور اس سے کروڑوں لوگ ہلاک ہو جائیں گے۔ شمالی اور جنوبی امریکہ کے براعظم ٹوٹ کے الگ ہو جائیں گے۔ میگا سونامی کے ٹکرانے سے امریکہ اور ایشیاء میں تقریباََ 4 کروڑ افراد ہلاک ہو سکتے ہیں۔
یونیورسٹی آف لندن میں جوہری انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے والے ایک ڈاکٹر نے دعویٰ بھی کیا کہ یہ سونامی اور زلزلہ اس قدر شدید ہو گا کہ صرف امریکہ کے مغربی ساحل پر 2 کروڑ افراد ہلاک ہو سکتے ہیں۔ انہی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے سائنس دانوں نے Svalbard نامی جزیرے میں تمام جینز کو محفوظ کرنے کا پروگرام بنایا تھا۔ "سوالبارڈ" نارتھ پول اور ناروے کے بیچ میں واقع ایک ٹھنڈا جزیرہ ہے۔ یہ دُنیا کا سب سے سرد علاقہ ہے۔
اس کا درجہ حرارت ہمیشہ منفی ڈگری سینٹی گریڈ رہتا ہے۔ اس میں"حفاظتی تہہ خانہ" بنایا گیا ہے۔ یہ سمندر کی سطح سے 130 میٹر بلند ہے۔ جو کسی بھی سمندری آفت یا سطح سمندر کے بڑھنے کے خطرات سے محفوظ رہے گا۔ اس میں تین والٹس بنائے گئے ہیں جن میں 15 لاکھ بیجوں کے سیمپلز فی والٹ رکھے جا سکتے ہیں۔ مجموعی طور پر 45 لاکھ نمونے رکھے جا سکتے ہیں۔ یہاں کا درجہ حرارت منفی 18 ڈگری رکھا جائے گا جو کہ ان بیجوں اور جینز کی عرصہ دراز تک حفاظت کے لئے ضروری ہے۔
19 جون 2006ء کو اس گلوبل سیڈ والٹ کا سنگِ بنیاد ناروے، سویڈن، فن لینڈ، ڈنمارک اور آئی لینڈ کے وزرائے اعظم نے رکھا تھا اور 26 فروری 2008ء کو اسے مکمل کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق اس وقت دُنیا میں 60 لاکھ مختلف اقسام کے بیج مختلف ملکوں کے جینز بینکوں میں محفوظ ہیں لیکن یہ تمام بینک قدرتی آفات اور نیوکلیئر جیسے خطرات محفوظ نہیں جس کے باعث ان کی بقا یقینی نہیں۔
ان خطرات کے پیش نظر سائنس دانوں کی ایک کمیٹی اس بات پر متفق ہوئی ہے کہ ہمیں اس بنیادی ضرورت کی حفاظت اور بقا کے لئے "کرہ ارض پر بدترین صورتِ حال" کو ذہن میں رکھتے ہوئے جس میں کوئی بہت بڑی قدرتی آفت کی وجہ سے یا نیوکلیئر وار کی وجہ سے کسی ملک یا خطے کی زمینی پیداواری صلاحیت کا یکسر ختم ہو جانا کوئی خاص بیج کی نسل کا دُنیا سے یکسر ختم ہو جانا جیسے خطرات کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی انتہائی جدید اور محفوظ انتظام کرنا ہو گا۔
امریکہ، یورپ، ایشیاء، پاکستان، کشمیر سمیت پوری دُنیا میں ہولناک طوفان اور زلزلے آ بھی چکے ہیں۔ ایک سائنسی نقطہ نظر تو دوسری حقیقت یہ ہے کہ قرآن میں اللہ فرماتے ہیں: "زمین اور آسمان میں جو فساد ظاہر ہوتا ہے اس کا سبب انسانوں کے اپنے اعمال ہی ہیں۔ " انسان جیسے اعمال کرتا ہے ویسے ہی اس کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں۔ ایسے حوادث کے ذریعے اللہ تنبیہ کرتے ہیں کہ توبہ اور رجوع کریں۔
آپ ﷺکے زمانے میں زمین ہلنے لگی تو آپ نے زمین پر ہاتھ رکھ کر فرمایا: "ٹھہر جا، ابھی قیامت کا وقت نہیں آیا۔ " اور پھر آپ نے لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمایا: "اپنے گناہوں سے توبہ کرو اور معافی مانگو۔ "بے شک سائنس نے ترقی کر لی پھر بھی آفات کا حل نہیں، اسلام نے حل بھی بتا دیا کہ یہ قدرتی آفات تمہیں تمہارے ربّ کی طرف سے آزمائش، اظہارِ ناراضگی ہے۔ مصائب، آزمائشیں انسانوں کے اعمال کا نتیجہ ہوا کرتی ہیں، یہ سوشل میڈیا نہیں بلکہ اپنے اعمال کے احتساب سے حل ہو سکیں گے۔ اللہ کریں دُنیا کا ہر انسان زلزلوں سے محفوظ رہے۔