Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Abid Hashmi
  4. Insan Ko Haiwan Banane Ka Tareeqa

Insan Ko Haiwan Banane Ka Tareeqa

انسان کو حیوان بنانے کا طریقہ

مشہور فرانسیسی مفکر والٹیر کا کہنا ہے کہ "آپ جو کہہ رہے ہیں میں اس سے قطعی متفق نہیں لیکن آپ کے کہنے کے حق کیلئے میں اپنی جان بھی قربان کرسکتا ہوں"۔ آج سوشل میڈیا کا دور ہے، ہم میں سے ہر ایک آزادی رائے کر رہا ہے، لیکن ہمیں اظہار ِ رائے اور اظہارِ تذلیل میں فرق کا کما حقہ علم ہے نہ ہی ہم اس کے قانونی پہلو سے بلد ہیں، کہ آزادی رائے اور تذلیل کی کیا حدود و قیود ہیں۔

اظہار رائے کی آزادی کا مطلب یہ ہے کہ ہر انسان تقریر و تحریر میں آزاد ہے اور کسی بھی فکر، نظریہ، سوچ، عمل اور نظام کے بارے میں اپنا ایک خاص نقطہ نظر قائم کر سکتا ہے۔ کسی بھی فکر، سوچ، نظریہ یا عمل کی حمایت کر کے اس کی ترویج کر سکتا ہے یا پھر تنقید کرنے سے اس کی اصلاح یا اس سے یکسر منحرف ہو جانے کا بھی حق رکھتا ہے۔ آزادی رائے انسان کا بنیادی، اخلاقی حق ہے، جس سے معاشرے پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں اور یہ حق شعور کو پروان چڑھا کر بہت سارے مسائل کو سلجھانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ تحقیق کے نئے ابواب سے روشناس کرواتا ہے۔ اجتماعی شعور سے اخذ کی گئی متنوع قسم کی آراء جب باہم ملتی ہیں تو وہ اجتماعی مفاد پر متنج ہوتی ہیں۔ اختلافِ رائے کو قبول کرنے کی بنیاد یہ تسلیم کرنے میں ہے کہ لوگوں کا زاویہ نظر مختلف ہوتا ہے اور ان کی جانب سے کسی بھی تصور کے حوالے سے کی جانے والی تشریح مختلف ہو سکتی ہے۔ یہ معاشرے کا حسن اورکرشمہ قدرت ہے۔

"اظہارِ رائے کی آزادی" کا مفہوم یہ ہے کہ کسی کو بھی کھل کر اپنا نقطہ نظر بیان کرنے، سوال اٹھانے، اختلاف رائے اور مثبت تنقید برائے اصلاح کی اجازت ہے، لیکن دوسرے کی تذلیل اور کردار کشی کرنے اور دوسروں پر تہمتیں لگا کر اس کو نقصان پہنچانے کی کسی کو اجازت نہیں ہے۔ اظہار رائے کی آزادی میں تنقید کا حق بجا ہے، لیکن یہ خیال اشد ضروری ہے کہ جہاں تنقید کی حد ختم ہوتی ہے، وہاں سے ہی تذلیل کی سرحد شروع ہو جاتی ہے اور کسی کی تذلیل کرنا ہر معاشرے میں برا عمل گردانا جاتا ہے۔ کئی لوگ تنقید کرتے کرتے تمام حدیں عبور کر جاتے ہیں۔ کسی کی عزت کو داغدار کرنے، کسی کی توہین و تحقیر اور تذلیل کرنے، کسی کے مذہب، مسلک، فرقے اور کسی کی محترم شخصیت پر انگلی اٹھانے کو رائے کی آزادی سمجھتے ہیں، پھر ہم تعلیم میں کم، اس فیلڈ کا تجربہ نہ ہونے کے باوجود ایک ڈاکٹر، دانشور، یا اداروں کی تذلیل کرنے کو اپنا حق گردانتے ہیں۔ حالانکہ یہ آزادی رائے کے اخلاقی حق کی کھلی خلاف ورزی اور ان کی شعوری پستی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

کسی بھی معاشرے میں رائے کے اظہار کی ایسی آزادی نہیں دی جاتی، جس سے دوسروں کے جذبات مجروح ہوں۔ ہر معاشرے نے اپنے اپنے حالات کے مطابق اظہار رائے کی حدود مقرر کی ہیں۔ جرمن مفکر ایمانویل کانٹ (Immanul Kant) نے یہ کہہ کر آزادیوں کی حد بندی کے لئے ایک قائدہ اور اصول فراہم کیا:" am free to move my hand but the freedom of my hand ends where your nose begins.""میں اپنے ہاتھ کو حرکت دینے میں آزاد ہوں، لیکن جہاں تمہاری ناک شروع ہوتی ہے، میرے ہاتھ کی آزادی وہاں ختم ہو جاتی ہے۔"نیوزی لینڈ کے بروز (Burrows) کے مطابق آزادء اظہار کے مہیا کرنے کے عمل میں توازن برقرار رکھنا مشکل ترین امر ہے۔ وہ کہتے ہیں:

If you dont regulate enough, unquestionably people can be hurt, If youre too free, you can damage society, you can damage individuals. At the other end, if youre too regulated and too restricted, the public arent given the information they need. It is the most difficult area in the whole of the law to get right. There are just so many cross currents, so many important interests in it, that to strike the correct balance that will please everybody is virtually impossible.

اگر آپ معقول حد تک کنٹرول نہیں کرتے تو یقیناً لوگوں کو صدمہ پہنچ سکتا ہے اور اگر آپ بہت زیادہ آزادی دیں تو آپ معاشرے کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ آپ افراد کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ دوسری طرف اگر بہت سی پابندیوں کا شکار ہوں گے تو عوام کو مطلوبہ اطلاعات میّسر نہیں ہوں گی۔ اِس قانون کا یہ حصّہ بے اندازہ مشکلات رکھتا ہے جہاں اس توازن پر پہنچا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں بہت سے مخالف تموجات پائے جاتے ہیں۔ بہت سے اہم مفادات پیوستہ ہوتے ہیں، صحیح ترین توازن پر پہنچنا کہ جوہر ایک کو خوش کر سکے بدیہی طور پر ناممکن ہے۔

البرٹ آئن سٹائن لکھتے ہیں:Everything that is really great and inspiring is created by the individual who can labour in freedom.

ہر تخلیق واقعتا عظیم ہے اور جوش و جذبے کو اُبھارتی ہے اگر تخلیق کار آزادی کے ساتھ تخلیقی مشق میں کوشاں رہتا ہے۔

اور پھراقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 1966 میں پاس کی گئی ایک قرار داد (ICCPR) کے مطابق ضروری ہے کہ کوئی بھی ایسی تقریر یا تحریر جو کسی ملک میں رہنے والے کسی بھی فرد یا گروہ کی مذہبی، قومی یا نسلی مخالفت یا دل آزاری کا سبب بنے اور ان کے خلاف نفرت یا حقارت کا اظہار کرے تو اس ملک کا فرض ہے کہ اس کو روکے اور اس کے خلاف قانون سازی کرے، جبکہ متعدد یوپین ممالک میں آزادی اظہار رائے پر بہت سی پابندیاں ہیں۔

ان سب سے اہم اسلام میں بھی اظہار رائے کے لیے حدود کا تعین ہے۔ سورہ حجرات میں اظہار رائے کی حدود بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ انسان کسی کا تمسخر نہیں کرسکتا، کسی کی غیبت نہیں کرسکتا، کسی پر بہتان، الزام تراشی، یاکسی کی ذاتی زندگی کے عیب نہیں ٹٹول سکتا، حتی کہ کسی کو برے نام اور القاب سے نہیں پکار سکتا، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام نے ہر معاملے میں انسان کو ایسے قوانین عطا کیے ہیں۔

یہاں تک کہ وہ اشارہ بھی حرام قرار دیا گیا جس سے کسی انسان کی دل آزاری ہو۔ پھر تہمت، الزام بے جاء پر سخت وعیدیں بھی ہیں۔ بے شک تنقید برائے اصلاح معاشرے کی بہتری کے لیے ناگزیر، لیکن تنقید برائے تذلیل یا تنقید برائے تنقید معاشرتی بگاڑ کا موجب ہے۔ انفرادی مفادات کی بنیاد پر اپنے ہی اداروں، ملک و قوم کا تمسخر اڑانا، تحقیر کرنا کسی بھی مہذب معاشرہ کی پہچان نہیں۔ مسلمان، مسلمان کا آئینہ ہے وہ اسے بہتر انداز میں اس کی خامیاں دیکھا سکتا، مگر تذلیل کا حق قطعی نہیں۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ انسانی فطرت یہ تقاضاکرتی ہے کہ ہرانسان اپنے من کی بات پوری آزادی سے کرے اگر یہ حق صلب کرلیا جائے توانسانی زندگی سے لطف اورمسرت ختم ہوجائے۔

انسانی خوشی، مسرت کودوبالاکرنے کے لیے یہاں بھرپور آزادی دی گئی ہے۔ آزادی اظہارِرائے کامقصد خیرخواہی کو پروان چڑھاناہے۔ باہمی گفتگو اورمشاورت کے ذریعے معاشرے کے مفادات کاتحفظ کرنا اور انسانی قدروں کو پامال ہونے سے بچاناہے۔ آزادی اظہارِ رائے کا مقصد ہے انفرادی اوراجتماعی اعتبار سے انسانی عظمت کوفروغ دینا اور ان تمام امور کو رد کرنا جن کی وجہ سے انسانی قدریں پامال ہوتی ہیں۔ معاشرے میں نیکی کو پروان چڑھانا اورمنکرات، فحش اوردروغ گوئی اوربرائی کے سامنے دیوار کھڑی کرنا ہے۔ تنقید اور تذلیل میں فرق ہے اور یہ فرق برقرار رہنا چاہیے۔ اعتراض، دشمنی و بغض ایک جیسے نہیں اس لیے انہیں یکجا کسی بھی طور پر نہیں کیا جانا چاہیے۔ رائے، کرادر کشی، بہتان تراشی ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں۔ اگر ان میں فرق مفقود ہو جائے سلیقہ، تدبر نہ ہو تو تنقید تباہی کا موجب ہے۔ ضرب کلیم میں اقبال فرماتے ہیں:

آزادی افکار سے ہے ان کی تباہی، رکھتے نہیں جو فکر و تدبر کا سلیقہ

ہو فکر اگر خام تو آزادی افکار، انسان کو حیوان بنانے کا طریقہ

Check Also

Quaid e Azam Ki Mehbooba

By Muhammad Yousaf