Hamari Tehzeeb, Hamari Shanakht, Hamara Fakhar
ہماری تہذیب، ہماری شناخت، ہمارا فخر

جناب ڈاکٹر راجہ سجاد خان کے بطورِ ڈائریکٹر کشمیر کلچرل اکیڈمی چارج سنبھالنے کے بعدجہاں مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہندوستان کے غیر قانونی قبضہ، خصوصی حیثیت کے خاتمے اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے حوالہ سے آزاد جموں و کشمیر کلچرل اکیڈمی کے زیرِ اہتمام پینٹنگ مقابلہ جات، وادی سمیت آزاد کشمیر کے مختلف اضلاع میں ثقافتی میلوں کا انعقاد کیا جارہا ہے تو دوسری جانب جہاں لوگ انتظار گاہوں میں بیٹھے رہتے تھے، وہاں کمیونٹی لائبریریز قائم کی جارہی ہیں، تاکہ لوگ اپنے وقت کو قیمتی بناتے ہوئے کتب سے استعفادہ حاصل کریں اور ان کا رحجان کتب کی طرف راغب ہو سکے۔
اسی سلسلہ میں مظفر آباد میں AIMS ہسپتال میں شاندار کمیونٹی لائبریری قائم کی گئی ہے جس کا افتتاح وزیرِ صحت، جناب ڈاکٹر نثارانصر ابدالی نے کیا۔ کشمیر کلچرل اکیڈمی کی اس کاؤش کو عوام میں شاندار پذیرائی مل رہی ہے۔ لوگ کتب پڑھ رہیں ہیں۔ سوشیل میڈیا کے منفی رحجان سے کتب کی طرف لانے کا یہ ایک بہترین کارنامہ ہے۔ کیوں کہ نسل نو کو اس تہذیب سے روشناس کروانا ہے جو تہذیب اب نایاب ہوتی جارہی ہے۔
"نیلم ادبی و ثقافتی میلہ اور پینٹنگ مقابلہ کے انعقاد کے حوالے سے مشاورت کے دوران جناب ڈاکٹر راجہ سجاد خان ڈائریکٹر اکیڈمی، نے چوہدری خان ولی (صدر انجمن تاجران کیل)، شاہ نواز چشتی، سید قاسم سیلانی، سرور ساگر، پروفیسر عامر، راقم الحروف اور محمد منیر خان (اسسٹنٹ ڈائریکٹر اکیڈمی) سے دورانِ ملاقات بتایا کہ نیلم اور دوسرے اضلاع میں ان کی مقامی زبان میں ثقافتی میلے، پینٹنگ، بانسری اور دیگر کورسز کروانے کا مقصد یہ ہے کہ اپنی تہذیب، ثقافت کو روشناس کروایا جائے نئی نسل کو اپنی تہذیب، ثقافت، روایات سے جوڑا جائے۔ اپنی زبان میں بات زیادہ جلدی سمجھ آتی ہے۔ اس کی شاندار مثال قرآن کریم ہے کہ وہ رحمت العالمین ﷺ اور اہل عرب کی زبان میں نازل کیا گیا۔ دُنیا میں وہی ہمیشہ زندہ رہتے ہیں جو انسانیت کی خدمت کرتے ہیں۔ انسانوں کی راہیں ہموار کرتے ہیں۔ باقی دُنیا فانی ہے اس کی ہر شے بھی فنا ہونے والی ہے۔ نام، عہدے، سٹیٹس یہ سب عارضی ہیں۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جو قوم اپنی تہذیب سے دور ہو جاتی ہے وہ کبھی ترقی نہیں کر سکتی۔ ہر قوم کی شناخت اس کی تہذیب سے ہوتی ہے اور آزاد جموں و کشمیر کی تہذیب اس خطے کے خوبصورت قدرتی مناظر کی طرح دلکش، متنوع اور گہرے اثرات رکھنے والی ہے۔ یہاں کی روایات، زبانیں، میل جول، لباس، مہمان نوازی اور اجتماعی طرزِ زندگی ایک ایسی تہذیبی صورت گری کرتے ہیں جو نسلوں سے ہمارے ساتھ ہے اور ہماری شناخت کی بنیاد ہے۔
آزاد کشمیر کی تہذیب صرف ثقافتی مظاہر تک محدود نہیں بلکہ یہ ہمارے خاندانی نظام، بزرگوں کے احترام، مذہبی ہم آہنگی، ملی وحدت اور جذب قربانی کا آئینہ دار ہے۔ چاہے وہ گوجری بولی کی مٹھاس ہو یا پوٹھوہاری روایتوں کی خوبصورتی، یہاں کی ثقافت میں محبت، خدمت اور خلوص نمایاں نظر آتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے موجودہ دور میں مغربی ثقافت کا بے جا اثر، سوشل میڈیا کا غیر محتاط استعمال اور مادّی دوڑ نے ہماری نسل نو کو اپنی جڑوں سے دور کر دیا ہے۔ ہم نے اپنی زبانوں، لوک گیتوں، روایتی لباس اور حتیٰ کہ تہواروں کو بھی نظرانداز کرنا شروع کر دیا ہے۔ یہی وہ لمحہ ہے جب ہمیں رک کر سوچنا ہوگا کہ ہم اپنی اصل کو کس جانب لے جا رہے ہیں۔ قومیں اپنی تہذیب و تمدن اور ثقافت کی بقا اور توسیع کیلئے بھرپور کوشش کرتی ہیں۔ زیادہ تر لڑی جانیوالی جنگیں دنیا میں اسی تہذیب و تمدن اور ثقافت کے بچاو یا پھیلاؤ کیلئے لڑی گئیں۔
کسی قوم کی بقا اور عظمت اس کی تہذیب اور ثقافت کی بقا سے وابستہ ہوتی ہے۔ دُنیا کی زندہ اور غیرت مند قومیں اپنے تہذیبی اور ثقافتی ورثہ سے محبت کرتی ہیں اور اسکے تحفظ کیلئے ہر طرح سے تیار رہتی ہیں۔ ہر قوم کی ایک مستقل شناخت ہوتی ہے جو اسے دوسروں سے ممتاز کرتی۔ ہم تہذیب و ثقافت کو انسانی زندگی کا بنیادی اصول سمجھتے ہیں۔ ثقافت یعنی ایک معاشرے اور ایک قوم کی اپنی خصوصیات اور عادات و اطوار، اس کا طرز فکر، اس کا دینی نظریہ، اس کے اہداف و مقاصد، یہی چیزیں ملک کی تہذیب کی بنیاد ہوتی ہیں۔ یہی وہ بنیادی چیزیں ہیں جو ایک قوم کو شجاع و غیور اور خود مختار بنا دیتی ہیں اور ان کا فقدان قوم کو بزدل اور حقیر بنا دیتا ہے۔
تہذیب و ثقافت قوموں کے تشخص کا اصلی سرچشمہ ہے۔ قوم کی ثقافت اسے ترقی یافتہ، با وقار، قوی و توانا، عالم و دانشور، فنکار و ہنرمند اور عالمی سطح پر محترم و با شرف بنا دیتی ہے۔ اگر کسی ملک کی ثقافت زوال و انحطاط کا شکار ہو جائے یا کوئی ملک اپنا ثقافتی تشخص گنوا بیٹھے تو باہر سے ملنے والی ترقیاں اسے اس کا حقیقی مقام نہیں دلا سکیں گی اور وہ قوم اپنے قومی مفادات کی حفاظت نہیں کر سکے گا۔
اسلامی ثقافت ایک معیاری ثقافت ہے، جو ایک معاشرے کے لئے اور انسانوں کے کسی بھی گروہ اور جماعت کے لئے اعلی ترین اقدار و معیارات کی حامل ہے۔ یہ کسی بھی معاشرے کو سربلند و سرفراز اور عزیز و با وقار بنا کر ترقی و کامرانی کی راہ پر لگا سکتی ہے۔ اُمتِ مسلمہ مختلف قوموں، نسلوں اور مکاتب فکر سے تشکیل پائی ہے۔ قدیمی ترین تہذیبیں اور وسیع ثقافتیں انہی علاقوں میں پھلی پھولی اور فروغ پائی ہیں جہاں آج مسلمان آباد ہیں۔ یہ تنوع، یہ رنگا رنگ انداز، کرہ زمین کے حساس علاقوں کی مالکیت امت مسلمہ کی اہم خصوصیات ہیں۔ تاریخ و ثقافت کی مشترکہ میراث اس امت کی طاقت میں اور بھی اضافہ کر سکتی ہے۔
اگر ہم اپنی تہذیب کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں، تو ہمیں اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔ بچوں کو اپنی زبان، تاریخ، شاعری، لوک کہانیوں اور قومی ہیروز سے روشناس کرانا وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔ آزاد کشمیر کی تہذیب ہمارے لیے محض ماضی کا فخر نہیں، بلکہ مستقبل کی روشنی ہے۔ اگر ہم نے اپنی ثقافتی شناخت کو بچا لیا تو ہم ایک باشعور، مضبوط اور متحد قوم بن کر ابھریں گے تہذیب و ثقافت کو زندہ کرنے، نسلِ نو کو سوشل میڈیا کی افراتفری سے نکال کر کتب کی جانب راغب کرنے، اپنے وسائل کو بہتر انداز میں بروئے کار لا کر ترقی کی راہیں ہموار کرنے کے لئے ہم سب کو مل کر کشمیر کلچرل اکیڈمی جیسے اداروں کا معاون بننا ہوگا۔ یہ کسی فردِ واحد کا نہیں ہم کے مستقبل کا سوال ہے۔ اگر کتب سے دوری، اپنی تہذیب و ثقافت سے لگاؤ ختم ہوتا رہا تو مستقبل تاریک ہو سکتا ہے۔
آئیے! ہم سب عہد کریں کہ اپنی تہذیب کی خدمت کریں گے، اسے اپنائیں گے اور اسے آنے والی نسلوں تک منتقل کریں گے۔ یہی ہماری اصل پہچان ہے اور یہی ہماری بقا کی ضمانت۔

