Ghareeb Ke Bachon Ki Dil Kharash Aah
غریب کے بچوں کی دلخراش آہ
اَب تک سنور نے والی تہذیب کی بنیاد اور اظہار لازمی طور پر مادی اشیاء پر ہے۔ انسانی تعلقات اور رویے بدستور تحکم اور طاقت کے استعمال پر مبنی ہیں۔ انسانی رویے تجریدی ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کا اظہار ہوا میں ہوتا ہے۔ انسانی رویوں اور تعلقات کا اظہار مختلف رویوں، کام، زبان، حرکات وسکنات اور چیزوں کے تبادلے کی صورت میں کیا جاتا ہے۔ تحکمانہ نظام معاشرت میں رویے، کام، زبان اور حرکات و سکنات میں دوسروں کو چھوٹاثابت کرنے کی سعی کی جاتی ہے۔ اسی طرح چیزیں بھی ادنیٰ یا اعلیٰ ہونے کا بنیادی معیار بن جاتی ہیں۔
اس طرح اس کے اردگرد انسان تو ہوتے ہیں مگر ان سے تعلق میں انسانی جذبے اور گرمی نہیں ہو تی۔ یہ سب مصنوعی اور غیر فطری ماحول ہوتا ہے اور جب وہ ذرا سا بھی کمزور پڑ جائے تو یہی صورتحال اسے کھا جاتی ہے۔ اس طرح کثرت کی خواہش دراصل اس کی بے لذت زندگی اور آخرکار خودکشی کا باعث بنتی ہے۔
دوسری طرف اسی نظام میں غریبوں کو خام مال کی طرح استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر غریبوں کو انسان تسلیم کر لیا جائے تو انھیں اپنی قابلیتوں کی نشو و نما کے لیے مواقع فراہم کرنا ہوں گے۔ یہ بھی ممکن ہے غریبوں کو انسان تسلیم کر لینے کے واضح اظہار کے باعث غریبوں میں ازخود احساس اور طاقت آجائے اور وہ اپنی قابلیتوں کو بڑھانے کے لیے ضروری مراعات کا تقاضا کرنے لگیں۔ مگر آج تک ان دونوں صورتوں کا واضح اظہار نہیں ہو سکا۔ جس کی بدولت غریب خود تو پستا ہی ہے لیکن، اس کے نونہالوں کی کہانی بھی یوں ہے۔
نا قیمتی کپڑے، نہ اعلیٰ تعلیم کا حق، بس جب میں پیدا ہوا تو پرانے سے چیتھڑے میں لپیٹ دیا گیا۔ میری پیدائش سے پہلے کوئی خوشی نہیں۔ نہ سوئیٹر نہ ٹوپی اور نہ ہی موزہ، کچھ بھی تونہیں تھا۔ مجھے گرم اور زندہ رکھنے کو بس کمزور ماں ہی تھی، اس ہی نے مجھے بچالیا۔ یہ بھی بہت ہے کہ میں سرکاری اسپتال میں پیدا ہوا، جبکہ میرے جیسے اور بہت سارے بچے تو اکثر سرکاری اسپتال کے گیٹ یا کوریڈور میں ہی پیدا ہوجاتے ہیں، کبھی بروقت اسپتال میں داخلہ نہ ملنے پر اور کبھی اسپتال پہنچنے میں دیر ہوجانے پر، بلکہ زیادہ تر تو گھر میں ہی غیر تربیت یافتہ دائیوں کے ہاتھوں۔ اور اس سے بھی بڑھ کر غربت کے ماری بے بس ماں مجھے سٹرک پر جنم دینے پر مجبور ہوتی ہے۔
میں مفلس کا بچہ ہوں۔ ملک کی آبادی کا 35 فیصد حصہ ہوں۔ میرے کئی روپ ہیں۔ میں لڑکی بھی ہوں، میں لڑکا بھی ہوں۔ میں کچی آبادی کا باسی ہوں۔ میں گلی میں رُلنے والا بچہ بھی ہوں، جس نے اسکول کی کبھی شکل نہیں دیکھی۔ میری بے سہارا ماں میری پرورش کے لیے برتن دھوتی ہے، کپڑے صاف کرتی ہے، جھاڑو لگاتی ہے، اس بے رحم معاشرہ میں عزت نیلام کرتی ہے، بالوں میں سفیدی کے باوجود، دولت کے نشے میں سرشاروں سے " اوے"کے الفاظ سنتی ہے، نوکرکہلاتی ہے، میرا باپ منوں وزن اٹھاتا ہے، ہوٹلوں پر برتن صاف کرتا ہے، ہزاروں ارمانوں تلے دب کر ہزاروں جھڑکیں سہتا ہے، پھر دونوں بے بسی کے آنسو بہاتے ہیں، وہ آنسو نہیں، خون ٹپکتا ہے، جو شاہد ہی کم لوگوں کو نظر آتا ہے۔ ہوائیں سرد اورجسم بے لباس ہے میرا، امیر شہر تجھ کو ذرا بھی احساس ہے میرا؟
ان کے دکھ درد کو دیکھ کر میں کبھی قہوہ بیچتاہوں، کبھی ٹائر صاف کرتا ہوں، کبھی برتن دھوتا ہوں، چھوٹی چھوٹی بات پر میری ماں، بہن کو غلیظ گالیوں کا تحفہ دِیا جاتا ہے، پھٹے پرانے کپڑے، جوتیاں میری پہچان ہوتی ہیں۔ صاحب ثروت اے سی، میں درخت کی چھاوں میں بیٹھتا ہوں، وہ آکسفورڈ نصاب، میں غم ِ روز گار میں مارا مارا پھرتا ہوں، وہ محل بنانے، میں زندگی بچانے کے لیے چھت گرنے سے بچانا کا شوچتا ہوں۔
میرے ماں، باپ اگر مجھے تعلیم یافتہ کر بھی دیں، تو ڈگریاں لیے دفاتر، گلیوں کے چکر لگاتا ہوں، ادھار لے کر جب "عالی ٰجاہ" سے ملاقات سے محروم رہتا ہوں، حالت ِ غریبی دیکھکر جب دروازے سے باہر نکالا دِیا جاتا ہوں، بہن، بھائیوں کی بھوک دیکھ کر جب دِل خون کے آنسو روتا تو خیال آتا ہے:
کھڑا ہوں آج بھی روٹی کے چار حرف لیے
سوال یہ ہے کتابوں نے کیا دیا مجھ کو
آخر مجبور ہوں، مدرسے کا طالب علم جو ہوں۔ میں بھی غریب ماں باپ کا شہزادہ ہوں، میرے والدین کو بھی مجھے اعلیٰ تعلیم دلوانے کا شوق ہے، مگر بچوں کی فیس ان کی کتابیں قلم دوات، میری غریب آنکھوں میں اسکول چبھ گیا۔ میں سرکاری اسکول کا شاگرد بھی ہوں۔ میں چائلڈ لیبر کا شکار گھروں میں کام کرنے والا ملازم بھی ہوں۔ ورکشاپ اور چائے خانے پر کام کرنے والا چھوٹا، کمین بھی ہوں اور میں گھروں میں کام کرنے والی چھوٹی بھی ہوں۔ میں سڑکوں پر زندگی گذارنے والا اسٹریٹ چلڈرن بھی ہوں۔ میں جنسی زیادتی کا شکار بچی بھی ہوں۔ غریب کی اولاد ہونے کی مجرم بھی ہوں۔
میں بدفعلی کا شکار لڑکا بھی ہوں۔ میں بھیک مانگنے والی بچی بھی ہوں میں گاڑیاں صاف کرنے والا بچہ بھی ہوں۔ میں غریب نچلے، درمیانے طبقے یا غربت کے مارے خاندانوں کا بیٹا، بیٹی ہوں، مگر میں صاحبِ ثروت کا چشم و چراغ نہیں ہوں۔ لیکن اس بات سے مطمئن ہوں کہ
فرشتے آ کر ان کے جسم پر خوشبو لگاتے ہیں
وہ بچے ریل کے ڈبوں میں جو جھاڑو لگاتے ہیں
میری زندگی بھی کچھ چاہتی ہے؟ زندہ رہنا، خوش ہونا، علم حاصل کرنا اور آگے بڑھنا۔ زندگی ایک نعمت ہے۔ ہونے اور نہ ہونے کے درمیان کا ایک دورانیہ ہے، جس میں ہر انسان چاہتا ہے کہ ہرے بھرے درخت، پھول خوشبو، ٹھنڈا پانی، آسودہ دھوپ اور بارش کی پھوار جیسی خوبصورتیوں پر مشتمل ایک منظر اس کی آنکھوں کے سامنے ہو، مگرصاحب ثروت کے بچوں کو چھوڑ کر ہمارے چہروں پر نظر ڈالیے۔ ہمارے ہونے اور نہ ہونے کے درمیانی دورانیے میں صرف درد، دکھ اور تکلیف، بے چینی، ٹھوکریں، طعنہ، گالیاں، احساس کمتری، بھوک، افلاس کی یلغار، ذہین و فطین ہونے کے باوجود بے بسی، ادھوارے خواب ہیں۔ میں کسی خوشی کے دِن بھی مزدوری کے لیے پریشان ہوتا ہوں، کتے دودھ پیتے ہیں اور میں سٹرک کنارے سے ٹکڑے چن کر کھاتا ہوں۔
گھر لوٹ کے روئیں گے ماں باپ اکیلے میں
مٹی کے کھلونے بھی سستے نہ تھے میلے میں
یہ درد آنکھوں میں کرچیوں کی طرح چبھتا ہے۔ لہو میں سرسراتا ہے اور بدن پر یا سیت طاری کردیتا ہے۔ پر ہم زندہ کیسے ہیں؟ یہ معجزہ ہی تو ہے، مجھے تو اس بات کا بھی یقین نہیں ہے کہ کل ہم بھوکے نہیں سوئیں گے۔ ہم بیمار ہونگیں تو ہمیں لازمی علاج معالجے کی سہولت میسر ہوگی۔ ہم اچھی تعلیم حاصل کرسکیں گے، جیسے دوسرے صاحب ثروت کے بچے حاصل کرتے ہیں۔ ہمیں رہنے کےلئے چھت میسر ہوگی۔ سب سے اہم یہ کہ ہماری جان، عزت اور ذہنی صحت کا تحفظ ہوگا اور ہمارا کام صرف کوشش کرنا، خوش رہنا اور آگے بڑھنا ہوگا۔
غریب کے بچوں کی آواز۔ نہیں یہ آواز نہیں ہے، منجمد سی فریاد ہے۔ دلخراش آہ ہے۔ اور اس سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ کہ کوئی پریشان نہیں ہے۔ یہ غریب کا مستقبل ہے۔
جب آدمی کے حال پہ آتی ہے مفلسی
کس کس طرح سے اس کو ستاتی ہے مفلسی