Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Abid Hashmi
  4. Corona, Berozgari Aur Yakum May

Corona, Berozgari Aur Yakum May

کورونا، بے روزگاری اور یکم مئی

کورونا وائرس نے دُنیا کو کئی مسائل کی دلدل میں دھکیل دیا، ان میں سب سے زیادہ معیشت اور بے روزگاری کے مسائل ہیں، پہلے ہی بے روزگاری نے کئی ممالک کے لیے مشکلات کھڑی کی تھی، اب کروڑوں انسان بے روزگار ہو جائیں گے، جو ایک تشویشناک صورت بن سکتی ہے۔ وطن عزیز میں ایک اندازے کے مطابق 3 کروڑ تک بے روزگار افراد ہو سکتے ہیں۔

انسانی تاریخ میں محنت و عظمت اور جدوجہد سے بھرپور استعارے کا دن یکم مئی ہے۔ 1884ء میں شکاگو میں سرمایہ دار طبقہ کے خلاف اُٹھنے والی آواز، اپنا پسینہ بہانے والی طاقت کو خون میں نہلا دیا گیا۔ اپریل 1886ء کو تمام مزدوروں نے امریکہ کے شہر شگاگو میں اکٹھے ہونے کا فیصلہ کیا اس موقع پر تقریبا 2 لاکھ 50 ہزار سے زیادہ مزدور اس ہڑتال میں شامل ہوئے۔ ہڑتال کو روکنے کے لیے جدید اسلحہ سے لیس پولیس کی تعداد شہر میں بڑھا دی گئی۔ لیکن مزدور اپنی جگہ ڈٹے رہے اس ہڑتال کے دوران متعدد لوگ ہلاک اور زخمی ہوئے لیکن مزدوروں کی یہ قربانی رائیگاں نہیں گئی اور بالاآخر 1889ء میں ریمنڈ لیوین کی تجویز پر یکم مئی 1890ء کو یوم مئی کے طور پر منانے کا اعلان کیا گیا۔ شکاگو کے سرکردہ مزدور راہ نماؤں اوگست اسپائس، البرٹ پارسنز، اڈولف فشر، جارج اینجل، لوئس لنگ، مائیکل شواب، سیموئیل فیلڈن اور اسکرنیب کو گرفتار کرلیا گیا۔ ان میں سب اوگست اسپائس، البرٹ پارسنز، اڈولف فشر اور جارج اینجل کو 11 نومبر 1887 کو پھانسی دی گئی جب کہ مائیکل شواب اور سیموئیل فلڈن کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کردیا گیا۔ لوئس لنگ کی جیل میں وفات ہوگئی تھی۔ ان مزدور راہ نماؤں میں سے 2 کا امریکا جب کہ باقی کا برطانیہ، آئر لینڈ اور جرمنی سے تعلق تھا۔ شکاگو کے حاکموں نے اس واقعے کو محض "ہے مارکیٹ کے بلوے" کا نام دینا چاہا، مگر یہ دن تاریخ میں ہمیشہ کے لیے امر ہوگیا۔

1889 میں یکم مئی کو مزدوروں کے عالمی دن کے طور پر منانے کا فیصلہ ہوا اور 1890 سے اس دن کو دُنیا بھر میں منانے کا آغاز ہوا۔ اس فیصلہ کے بعد یہ دن "عالمی یوم مزدور" کے طور پر منایا جانے لگا۔ مزدوروں کا عالمی دن کارخانوں، کھیتوں کھلیانوں، کانوں اور دیگر کار گاہوں میں سرمائے کی بھٹی میں جلنے والے کروڑوں محنت کشوں کا دن ہے اور یہ محنت کش انسانی ترقی اور تمدن کی تاریخی بُنیاد ہیں۔ آج بھی پوری دُنیا میں، میں محنت کش استحصال کا شکار ہیں۔ مزدوروں کا عالمی دن منانے کا مقصد محنت کش مزدوروں کی بحالی کے ٹھوس اقدامات اٹھانا ہے مگر یہ بات شاید تپتی دھوپ اور ٹھٹھرتی سردی میں اپنے بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی کمانے والے مزدور کو نہیں پتہ کہ دُنیا آج انہی کا عالمی دن منا رہی ہے اور اسی دن بھی انہیں آرام نہیں ہوتا۔ جیسا کہ علامہ اقبال فرماتے ہیں:

ہے دل کے لئے موت مشینوں کی حکومت

احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات

تو قادر وعادل ہے مگر تیرے جہاں میں

ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات

الجزائر میں 1962سے یکم مئی کو عام تعطیل کے طور پر منایا جاتا ہے۔ مصر میں عام تعطیل ہوتی ہے۔ کافی عرصہ قبل مصر کے صدر، یوم مئی کی تقریبات میں بطور خاص شرکت کرتے تھے۔ لیبیا میں کرنل قذافی کا تختہ الٹ جانے کے بعد 2012 میں اب اسے قومی دن کے حوالے سے منایا جاتا ہے۔ نائیجریا میں اب یہ روایت بن چکی ہے کہ یکم مئی کو نائیجریا لیبر کانگریس کے صدر، ورکرز سے خطاب کرتے ہیں۔ جنوبی افریقہ میں 1994سے یوم مئی کو سرکاری سطح پر منایا جاتا ہے۔ تنزانیہ، تیونس، زمباوے میں بھی اس روز تعطیل ہوتی ہے اور فلپائن میں یوم مئی 1930سے ایک تہوار کے طور پر منایا جاتا ہے، جب لوگ چھٹی کے روز ایک دوسرے کی دعوتیں کرتے ہیں۔ کینیڈا میں لیبر ڈے ستمبر میں منایا جاتا ہے۔ 1894 میں حکومت نے ہر ستمبر کے پہلے پیر کو کینیڈا کا سرکاری لیبر ڈے قرار دیا۔ امریکہ میں بھی یہی دن مقرر ہے تاہم اس روز مختلف ریاستوں میں مزدور اور ورکرز جلسے جلوسوں کا اہتمام ضرور کرتے ہیں۔ چلی میں 1931سے یوم مئی سرکاری طور پر منایا جاتا ہے۔ کیوبا میں یوم مئی بہت تزک و احتشام سے منایا جاتا ہے۔ اس روز ورکزر سڑکوں پر مارچ کرتے ہیں۔ پاناما میں بھی اس دن کو سرکاری حیثیت حاصل ہے۔ بھارت اور بنگلہ دیش میں بھی یہ دن جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ اس روز کمیونسٹ اور سوشلسٹ پارٹیز تقریبات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں۔ بھارت میں سب سے پہلے یوم مئی مدارس (موجودہ چنائے) میں یکم مئی 1923کو منایا گیا۔ بھارت میں یہ پہلا موقع تھا جب سرخ جھنڈا لہرایا گیا۔ انڈونیشیا میں 2014سے مئے ڈے، لیبر ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس روز ملک بھر کے مزدور سڑکوں پر آکر اپنے مطالبات پیش کرتے ہیں۔ ایران میں یہ دن انٹرنیشنل ورکرز ڈے کے نام سے موسوم ہے۔ ایران میں سرکاری تعطیلات کا جو شیڈول مقرر ہے اس میں ورکرز کے لئے یہ دن بھی شامل ہے۔ جاپان میں یوم مئی کو سرکاری حیثیت حاصل نہیں لیکن یہ دیگر قومی چھٹیوں کے درمیان آتا ہے اس لئے جاپانی ورکرز کی اکثریت اس روز چھٹی کرتی ہے۔ یکم مئی جاپان کے "گولڈن ویک" میں آتا ہے جب کئی تعطیلات ہوتی ہیں۔ ملائیشیا نے1972سے یوم مئی کو سرکاری تعطیل کے طور پر منانا شروع کیا۔ پاکستان میں بھی یوم مئی اہتمام سے منایا جاتا ہے۔ اس روز عام تعطیل ہوتی ہے اور محنت کش اس روز ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کا عزم نو کرتے ہیں۔ فلپائن، سنگا پور، جنوبی کوریا میں بھی اس روز عوامی تعطیل ہوتی ہے۔ فرانس میں یکم مئی کو پبلک ہالیڈے ہوتی ہے۔ اس روز ٹریڈ یونینز بڑے شہروں میں تقریبات کا انعقاد کرتے ہیں اس روز اپنے ملنے جلنے والوں کو پھول بھی پیش کرتے ہیں۔

ترکی میں بھی یوم مئی کو سرکاری حیثیت حاصل ہے۔ 1981میں یہ چھٹی منسوخ کردی گئی تاہم 2010میں اسے دوبارہ بحال کردیا گیا۔ برطانیہ میں 1978سے یوم مئی کی سرگرمیاں مئی کے پہلے پیر کو منائی جاتی ہیں۔ لندن میں، لندن مے ڈے آرگنائزئنگ کمیٹی ان تقریبات کا اہتمام کرتی ہے۔ وطن عزیز میں ابتداء میں مزدوروں کی فلا ح و بہبود اور ٹریڈ یونین معاملات کنکرنٹ لسٹ میں درج تھے۔ وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتیں ان امور پر قانون سازی کرنے کی مجاز تھیں۔ وفاقی حکومت نے انڈسٹریل ریلیشن آرڈینینس (آئی۔ آر۔ او 1869)جاری کیا۔ اس قانون کے ذریعے ایسٹ پاکستان ٹریڈیونین ایکٹ 1965ء اور ایسٹ پاکستان لیبر ڈسپیوٹ ایکٹ 1965 ویسٹ پاکستان انڈسٹریل ڈسپیوٹ آرڈینینس 1968 اور ویسٹ پاکستان ٹریڈ یونین آرڈینینس 1968کو منسوخ کر دیا گیا۔ ترمیمی آرڈینینس 1972 کے ذریعے آئی۔ آر۔ او 1969میں دفعہ 22۔ اے کا اضافہ کیا گیا۔ جس کی رُو سے ملک میں پہلی بار نیشنل انڈسٹریل ریلیشن کمیشن(این۔ آئی۔ آر۔ سی) کا قیام عمل میں آیا۔ یہ قانون انڈسٹریل ریلیشن آرڈینینس 2002آنے پر منسوخ ہو گیا۔ پھرانڈسٹریل ریلیشن ایکٹ 2008 پاس ہوا۔ یوں آئی۔ آر۔ او 2002بھی منسوخ ہو گیا۔ اس قانون میں بھی این۔ آئی۔ آر۔ سی کو بحال رکھا گیا۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ آئی۔ آر۔ اے 2008کی اپنی دفعہ 87(3) میں یہ درج تھاکہ یہ قانون اگرپہلے ہی ختم نہ کر دیا گیا تو یہ 30 اپریل 2010کو ازخود ختم ہو جائیگا۔ اس دوران 20 اپریل 2010ء کو اٹھارھویں آئینی ترمیم پاس ہوئی۔ اور کنکرنٹ لسٹ ختم کر دی گئی۔ اب ٹرید یونین اور لیبر معاملات پر قانون سازی کا اختیار صرف صوبوں کے پاس چلا گیا۔ تاہم آئین کے آرٹیکل 270۔ اے۔ اے کی شق (۶) کے ذریعے ان تمام قوانین کو تحفظ دے دیا گیا جو کنکرنٹ لسٹ میں درج معاملات سے متعلق تھے اور کنکرنٹ لسٹ ختم ہونے سے پہلے موجود تھے۔ چونکہ آئی۔ آر۔ اے 2008ء کی اپنی دفعہ 87(3) میں اسکے اختتام کی تاریخ درج تھی اس لئے اس کا مقررہ تاریخ کو ازخود ختم ہونا منطقی بات تھی۔ یوں این۔ آئی۔ آر۔ سی بھی غیرمؤثر ہو گیا۔ بد قسمتی سے صوبوں نے بروقت قانون سازی کی بجائے تاخیر سے کام لیا۔

پنجاب نے 13 جون کو پی۔ آئی۔ آر۔ او 2010ء جاری کیا پھر اسے نوے دن کی توسیع دی گئی اور بعدمیں پنجاب اسمبلی نے پی۔ آئی۔ آر۔ اے۔ 2010پاس کیااور آرڈینیس منسوخ کردیا گیا۔ صوبہ سندھ نے 5 جولائی 2010ء کو آئی۔ آر۔ اے۔ 2010ء پاس کیا جس کی روسے آئی۔ آر۔ او۔ 2008ء یکم مئی 2010ء سے بحال کر دیا گیا۔ خیبرپختونخواہ حکومت نے14جولائی کو آئی۔ آر۔ او۔ 2010ء جاری کیا جبکہ بلوچستان نے 22جولائی کو بی۔ آئی۔ آر۔ او۔ 2010ء جاری کیا اور یہ آرڈینینس 15 اکتوبر 2010ء کوبی۔ آئی۔ آر۔ اے۔ 2010ء بلوچستان اسمبلی سے پاس ہونے پر منسوخ ہوا۔ صوبوں کی طرف سے قانون سازی میں غیرمعمولی تاخیرکی وجہ سے لیبر کورٹس، اور لیبر اپیلیٹ ٹربیونلز نے بھی عدالتی کام چھوڑ دیا۔ اس صورتحال میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے فیصلے میں قرار دیا کہ تاوقتیکہ آئی۔ آر۔ اے 2008ء کسی مجاز اتھارٹی کی جانب سے منسوخ نہیں کیا جاتا۔ آئین کے آرٹیکل 270۔ اے۔ اے کی شق (6)کی رو سے پوری طرح لاگو ہے۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے بھی از خود نوٹس لیا۔ حتّی کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے قرار دیا کہ تاخیر سے کی گئی صوبوں کی قانون سازی کا اطلاق یکم مئی2010ء سے ہوگا۔ یوں قانون سازی میں حکومتی تساہل سے پیدا ہونے والا خلاء اپنا قیمتی وقت صرف کر کے عدلیہ کو پر کرنا پڑا۔ اٹھارھویں آئینی ترمیم کے بعدلیبر معاملات پرقانون سازی کاحق اگرچہ صرف صوبوں کے پاس چلا گیا۔ پھر بھی وفاقی حکومت نے آئی۔ آر۔ اے 2012ء پاس کرکے نافذ کر دیا۔ اور اس ایکٹ کے ذریعے این۔ آئی۔ آر۔ سی کو پھر بحال کر دیا۔ مزدور کیلئے دادرسی حاصل کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ اکثر مزدور یہ شکائت کرتے ہیں کہ کئی کئی دہائیاں ملازمت کرنے کے باوجود انہیں تقرر نامہ دیا جاتا ہے نہ اوور ٹائم۔ جب کہ ان سے مقررہ اوقات سے کئی کئی گھنٹے زائد کام لیا جاتاہے اور اگر تقررنامہ دیا بھی جائے تو صرف نوے روز کیلئے دیا جاتا ہے پھراس میں من مرضی سے مزیدنوے روز کی توسیع کردیجاتی ہے اور اس طرح کئی کئی برس انکے سر پر کسی وقت بھی فارغ کر دئے جانے کی تلوار لٹکتی رہتی ہے۔ بسا اوقات بغیروجہ بتائے زبانی حکم کے ذریعے فارغ کر دیا جاتا ہے نیز اجرت حکومت کے مقررہ سٹینڈرڈ سے بھی کم ملتی ہے جبکہ کام آٹھ گھنٹے کی بجائے 12گھنٹے سے زائد لیا جاتا ہے۔ کوئی چیک اینڈ بیلینس موجود نہیں۔ یہ وجہ ہے کہ غریب کے خون پسینہ کا اس بدلہ نہیں ملتا۔ ملک کی ترقی، خوشحالی میں مزدور کا خون بھی شامل ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ لیبر قوانین کی اہمیت کااحساس کیا جائے۔ اور لیبر لاز کو عام فہم سادہ اور مؤثربنایا جائے۔ اگر یونہی چشم پوشی سے کام لیا گیا اور لیبرقوانین کو بہترکرنے کی طرف توجہ دینے میں مزید تساہل برتا گیا تو آجر اور مزدور کے مابین بد اعتمادی کی فضا سے بحران میں مبتلا ملکی معیشت کو غیر معمولی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

Check Also

Heera Mandi Se Cafe Khano Tak Ka Safar

By Anjum Kazmi