Chaudhry Ghulam Abbas
چوہدری غلام عباس
کہا جاتاہے کہ شخص نہیں، شخصیت بن کر رہیں، کیونکہ شخص ختم ہو جاتا ہے، شخصیت ہمیشہ رہتی ہیں، انہیں تاریخ ہمیشہ اپنے دامن میں زندہ رکھتی ہے، ایسے ہی ایک شخصیت چوہدری غلام عباس 4 فروری 1904ء کو جموں کے متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے، یہ وہ زمانہ تھا کہ ریاست جموں و کشمیر ایک وسیع قید خانہ اور اس کی 80 فیصد مسلم اکثریت انتہائی افلاس ناداری اور مظلومیت کی زندگی بسر کررہی تھی۔ ڈوگرہ حکومت کا جبرو استبداد اپنے انتہا پر تھا۔ چوہدری غلام صاحب نے ۱۹۲۲ء میں میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد پرنس آف ویلز کالج جموں میں داخلہ لیا۔ 1923ء میں چوہدری اور ان کے حلقہ احباب نے مل کر 1909ء میں قائم ہونے والی ینگ مینز مسلم ایسوسی ایشن کو از سرنو زندہ کیا۔ اسی تنظیم کے پلیٹ فارم سے ریاستی مسلمانوں نے سیاست کا ابتدائی درس لیا۔ جموں ینگ مینز مسلم ایسوسی ایشن نے آپ کی سرکردگی میں سماجی کاموں کے ساتھ ساتھ سیاسی سرگرمیوں میں بھی حصہ لینا شروع کیا۔ آپ نے صوبہ جموں کے مسلمانوں کو ڈوگرہ راج میں ان کی افسوسناک محرومیت اور ہولناک حق تلفیوں کا شدت کے ساتھ احساس دلایا۔ اس طرح علاقے کے مسلمانوں میں وہ سیاسی شعور پیدا کیا جو آگے چل کر تحریک حریت کا موجب بنا۔
چوہدری غلام عباس کی قیادت میں ایسوسی ایشن کا دائرہ عمل تمام صوبہ جموں اور پونچھ میں پھیل گیا۔ ان دنوں سیاسی جلسے کرنا تو بڑی بات تھی۔ محفل مولود اور نعت خوانی کی مجلسوں کے لئے بھی حکومت سے منظوری لینی پڑتی تھی۔ 19ستمبر1930ء کو جموں میں ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام مسجد تالاب کھٹیکاں میں ایک جلسہ منعقد کیا گیا۔ ریاست کے ہر لحاظ سے پریشان حال مسلمانوں کا حقوق طلبی کے لئے یہ پہلا جلسہ عام تھا۔ جس کی صدارت چوہدری غلام عباس خان نے کی۔ 29 اپریل1931ء کو جموں میں امتناع خطبہ عید الاضحی اور ۴ جون کو جموں سنٹرل جیل میں توہین قرآن کے واقعات کے نتیجہ میں مسلمانوں کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔
13 جولائی1931ءکو سنٹرل جیل سرینگر کے سامنے ایک ہجوم پر ڈوگرہ پولیس نے اندھا دھند گولیاں برسائیں جس سے 21مسلمان شہید ہوگئے۔ اس موقعہ پر جو ریاستی لیڈر گرفتار کئے گئے ان میں بھی پہلے گرفتار چوہدری غلام عباس ہی تھے۔ ڈوگرہ حکومت کے تازہ مظالم کے خلاف ریاست میں غم و غصہ کا طوفان اٹھا۔ شہروں اور قصبوں میں جلسوں اور جلوسوں کا سلسلہ شروع ہوگیا جن میں عورتیں، بچے تک شامل ہوتے۔ سرینگر میں مسلسل ۷۱ روز ہڑتال رہی۔ ہندوستان خاص طور پر پنجاب کے مسلم پریس مسلمان رہنماوں آل انڈیا مسلم کشمیری کانفرنس، آل پارٹیز مسلم کانفرنس، آل انڈیا کشمیر کمیٹی اور مجلس احرار اسلام کو بروقت تائید و حمایت نے اسے زبردست تقویت پہنچائی۔
مرحوم رہنما کی کوششوں اور تگ و دو سے تحریک حریت کشمیر کے دو اولین کاررواں جموں ینگ مینز مسلم ایسوسی ایشن اور "فتح کدل ریڈنگ روم پارٹی" کے نوجوان یکجا ہوئے اور ان نوجوانوں کی مشترکہ و متحد کوششوں سے اکتوبر1932میں آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کا قیام عمل میں آیا۔ آپ نے اولین جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے اس قومی تنظیم کو ٹھوس بنیادوں پر منظم کیا۔ اس موقعہ پر ڈوگرہ حکمرانوں نے کشمیر اور جموں کے مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کے لئے صوبائی تعصب کا جو فتنہ کھڑا کیا تھا چوہدری صاحب نے مومنانہ بصیرت سے کام لے کر اسے ناکام بنادیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آپ کی ذات کو صوبہ کشمیر اور صوبہ جموں کے مسلمانوں کے درمیان اتحاد مشترکہ جدوجہد اور ان کی قومی زندگی کے راستوں کو ملانے والے پل کی حیثیت حاصل تھی۔ کشمیر کے مورخ اور ممتاز سیاست دان آنجہانی پنڈت پریم ناتھ بزاز نے نومبر 1920ء میں دہلی میں کہا کہ "اگر1943 میں چوہدری غلام عباس کشمیری عوام کی مجاہدانہ اورجرات مندانہ رہنمائی نہ کرتے تو ریاست قانون ساز اسمبلی کا قیام ہر گزممکن نہ ہوتا۔ یہ سراسران کی مخلصانہ اور جذبہ قربانی کا نتیجہ تھا کہ ڈوگرہ حکمران اسمبلی کے قیام پر آمادہ ہوگیا۔"1913ء سے1947ء تک چوہدری غلام عباس کو ڈوگرہ حکومت نے مختلف تحریکوں کی رہنمائی کرنے کے مقدس "جرم" میں سات بار قید کیا۔ آپ پر بار ہا حکومت کے خلاف بغاوت کے الزام میں مقدمات چلائے گئے لیکن آپ کے جذبہ آزادی میں کمی نہ آئی۔ تحریک حریت کشمیر کے آغاز سے لے کر 1993ء تک تحریک میں جس قدر مشکل مقام اور کٹھن موڑ آئے چوہدری صاحب نے بڑی خوبی اور اخلاص کے ساتھ مسلمانان جموں و کشمیر کی خوب رہنمائی کی۔ آپ خود ایثار و قربانی میں سب سے آگے ہوتے تھے۔ آپ کا جوش عملی، خلوص نیت اور انداز ایثار و قربانی اپنے سب ساتھیوں سے جدا اور منفرد ہوتا تھا۔
1946 میں جب برصغیر میں عظیم سیاسی تغیرات کا وقت آگیا تو اس سال 27 جولائی کو مسلم کانفرنس نے چوہدری غلام عباس کی قیادت میں آزادی کشمیر کی تاریخ ساز قرار داد پاس کی۔ 24 اکتوبر کو حکومت کشمیر نے مسلم کانفرنس کے سالانہ اجلاس کو خلاف قانون قرار دیا۔ تو آپ نے اس حکم کی خلاف ورزی کی اور قید کرلئے گئے۔ مسلم کانفرنس نے19 جولائی1947ء کو اپنے ایک خاص اجلاس میں آپ کی رہنمائی میں الحاق پاکستان کی تاریخی قرار داد پاکستان کو مسئلہ کشمیر کا بنیادی فریق بنالیا تھا۔
تقسیم سے پہلے چوہدری غلام عباس کو ریاست جموں وکشمیر میں ڈوگرہ حکومت کی چیر دستیوں، مخالفین کی غنڈہ گردیوں کے مقابلہ میں کشمیری مسلمانوں کا واحد سہارا سمجھا جاتا ہے۔ انتہائی نازک اور تاریک سیاسی حالات میں انہوں نے کبھی کبھار ہار نہیں مانی وہ کبھی باطل کے سامنے نہیں جھکے اور کسی قربانی سے گریز نہیں کیا۔ ان کی عظمت اور سیاسی زندگی میں ثابت قدمی کے ان کے مخالفین تک معترف تھے۔
لاہور میں راوی کے کنارے قرار داد پاکستان کی منظوری کے بعد چوہدری صاحب نے اپنے چند مخلص ساتھیوں کے تعاون کے ساتھ آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کی تنظیم نو کی اور اسے تحریک پاکستان کا ایک سرگرم اور ہراول دستہ بنادیا۔ چوہدری غلام عباس فطرتاً اور عملاً اسلام کے شیدائی تھے۔ انہیں اس بات کا گہرا احساس تھا کہ مسلمانوں کی قسمت پاکستان سے وابستہ ہے۔ 1935 میں جناب قائد اعظم سرینگر تشریف لائے تو آپ نے بحیثیت صدر آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کی ایک استقبالیہ کی تقریب میں ان کی خدمت میں سپاس عقیدت پیش کیا اور اس ساعت کو آپ نے اپنی زندگی کی سب سے سہانی گھڑی قرار دیا۔ 1940ء سے1947ء تک چوہدری غلام عباس نے ریاست جموں و کشمیر میں تحریک کے قافلہ سالار اور علمبردار کی حیثیت سے ریاست کے پست و بالا اور طول و عرض میں اپنے نظریات کو مقبول و محبوب بنانے کے لئے شب و روز تگ ودو کی۔ آپ نے قائد اعظم کے ایک وفادار ساتھی اور تحریک پاکستان کے ایک انتھک سپاہی کی حیثیت میں نظریہ پاکستان کی سربلندی کے لئے جو جرات مندانہ جدوجہد کی وہ بلاشبہ تاریخ پاکستان کا ایک سنہری ورق ہے۔ چوہدری غلام عباس کو بیک وقت اپنوں اور اغیار کامقابلہ کرنا پڑا۔ آپ نے تمام محاذوں پر اسلامیان جموں و کشمیر کی رہنمائی کرتے ہوئے چومکھی جنگ لڑی۔
چوہدری غلام عباس صاحب کی شخصیت 1947ء تک ریاست جموں و کشمیر میں ڈوگرہ حکومت کی چیرہ دستیوں اورغنڈہ گردی کے مقابلے میں کشمیری مسلمانوں کا واحد سہارا تھی۔ وہ اجتماعی نصب العین وہ اعلیٰ وارفع مقاصد جن کی خاطر آپ نے اپنی ساری پونجی لٹا دی آج بھی قوم کے سامنے زندہ و تابندہ ہیں۔ مرحوم کے خیالات واحساسات اور جذبات آپ کی تڑپ اور حوصلہ پوری قوم کی میراث بن گیا ہے۔ چوہدری صاحب اس بلند ہمیت قافلے کے نقیب اور قافلہ سالار تھے جو ریاست کے بلند و بالا پہاڑوں اور چمن زاروں میں بہار آزادی کی تلاش میں سرگرداں تھا۔ اس راہ میں مرحوم رہنمانے جرات اور پامردی کے ساتھ ڈوگرہ راج کو للکارا اور انتہائی صبر و استقلال کے ساتھ اس راہ میں تمام آلام و مصائب کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ آپ صرف ریاست جموں و کشمیر کے مسلمانوں کے ہی قافلہ سالار نہ تھے بلکہ ذہنی طور پر آپ ملت اسلامیہ کے ان روشن چراغوں میں سے ایک تھے جن سے ملت اسلامیہ صدیوں تک حریت اور قربانی سے روشنی حاصل کرتی رہے گی۔
قیامِ پاکستان کے وقت چوہدی صاحب کو "تحریک آزادی کشمیر" کے سلسلے میں "راست اقدام" کی رہنمائی کرتے ہوئے ڈوگرہ حکومت نے قید کرلیا تھا، آپ کے دیرینہ دوست اور ساتھی شیخ محمد عبداللہ بھی قید کاٹ رہے تھے مگر وہ اپنی معیاد اسیری پوری کئے بغیر رہا ہوگئے اور انہوں نے ڈوگرہ مہاراجہ کی سرپرستی میں ریاست کا نظم و نسق بھی سنبھالا۔ اس دوران میں شیخ صاحب نے جموں جیل میں چوہدری غلام عباس سے طویل ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں میں تحریک حریت کشمیر کے ان دو قافلہ سالاروں نے اپنی فہم و فراست سے ان مبینہ خطرات کو بخوبی بھانپ لیا جو ان کی المناک نصب قوم کا مقدر بن چکے تھے۔ ان میں پیش آنے والے خطرات کا اچھی طرح سے احساس ہوچکا تھا۔ شیخ محمد عبداللہ کی یہ رائے تھی کہ "چوہدری صاحب ان کے ساتھ مل کر ریاست کا نظم و نسق چلائیں اوران مشکل حالات سے نکلنے کے لئے کوئی مناسب موزوں راہ تلاش کریں۔ انہوں نے صدق دل کے ساتھ چوہدری صاحب کو یہ پیش کش کی تھی کہ وہ حکومت یا جماعت میں سے کسی ایک کی سربراہی سنبھال لیں "لیکن چوہدری صاحب نے شیخ صاحب کی یہ پیش کش قبول نہ کی کیونکہ آپ کو اپنے راستے اور نصب العین کی صداقت پر یقین تھا۔ آپ نے شیخ صاحب سے کہا کہ "مجھے یقین ہے کہ ایک نہ ایک دن آپ میرے اختیار کردہ راستے پر چلنے پر مجبور ہوں گے اور اس وقت ہمارا اشتراک زیادہ حقیقی ٹھوس اور نیک نیتی پر مبنی ہوگا۔"
جب پاکستان قائم ہوا تو اس وقت چوہدری صاحب ڈوگرہ جیل میں تھے۔ یکم مارچ1948کو چوہدری صاحب کو جموں جیل سے نکال کر سوچیت گڑھ کے پاس پاکستان کی سرحد پر چھوڑ دیاگیا۔ گویا بقول آپ کے"چھُٹے اسیر تو بدلا ہوا زمانہ تھا۔ پاکستان آکر آپ نے اپنی حرماں نصیبی اور تباہ حال قوم کی قیادت پھراپنے ہاتھ میں لی۔ سیالکوٹ پہنچتے ہی آپ نے ایک اخباری بیان میں اہل پاکستان سے مخاطب ہوکر فرمایا:
"ہم سرزمین کشمیر میں آپ کی جنگ لڑرہے ہیں۔ یہ جنگ تمام ملت اسلامیہ کی جنگ ہے۔ ہم یہ جنگ اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک ہمارا آخری بچہ زندہ ہے لیکن مجھے اندیشہ ہے کہ آپ کی امداد کے بغیر ہم کشمیر کی حسین و جمیل وادی کو تباہی اور غارت گری سے نہیں بچاسکیں گے۔"
اپریل ۱۹۴۸ء میں "آزاد کشمیر" کابینہ کی درخواست اور قائد اعظم کی خواہش پر حکومت "آزادکشمیر"کے نگران اعلیٰ کا منصب لیا لیکن آپ نے اس حیثیت نہ تو کوئی تنخواہ لی اور نہ کوئی مراعات حاصل کی۔ آپ نے "آزاد کشمیر"کے نظم و نسق میں بھی اس حیثیت میں کوئی دخل نہ دیا۔ آپ کی رہائش گاہ پر نہ تو کوئی پہرہ تھا اور نہ کبھی آپ کے ساتھ محافظ دستہ ہوتا تھا۔ اس عہدہ پر1951ء تک کام کرتے رہے اس دوران انہوں نے لاکھوں کشمیری مہاجرین کی آباد کاری کے لئے دن رات ایک کردیا تھا، جنہیں ڈوگرہ حکام اور فرقہ پرستوں نے انتہائی بے دردی سے اپنے آبائی گھروں سے نکال کر پاکستان میں پناہ لینے پر مجبور کردیا تھا۔ چوہدری غلام عباس آزاد کشمیر کے باشندوں اور مہاجرین کشمیر کے مابین اتحاد کی صلاحیت اور علامت تھے اور وہ ہر طرح کے علاقائی نسلی اور لسانی تعصبات سے بالاتر تھے۔
جون 1958 میں آپ نے جنگ بندی لائن کے نام نہاد تقدس کو ختم کرنے کے لئے کے ایل ایم (تحریک آزادی کشمیر) شروع کی۔ یہ آزادی کشمیر کے لئے جنگ بندی کے بعد پہلی عملی عوامی کوشش تھی۔ آپ اپنے چھ ہزار حامیوں سمیت کئی ماہ تک نظر بند رہے۔
چوہدری صاحب ذاتی کردار کے لحاظ سے ایک شریف النفس ایثار پیشہ اور مخلص انسان تھے اور ایمانداری جرات و بے باکی اور اپنے نصب العین سے خلوص آپ شخصیت کے نمایاں پہلو تھے۔ ان کی ذاتی زندگی ایک سچے مسلمان کی زندگی تھی۔ آپ بے پناہ حیرت انگیز قوت ارادی کے مالک تھے۔ آپ بلاشبہ تحریک حریت کشمیر کے جلی عنوان تھے، ایک ایسا عنوان جو ایثار و قربانی، خلوص ودیانت، شفقت و محبت، حوصلہ و جرات، غیرت و حمیت، دین داری اور پاکبازی اور اسلامی فکر و نظر سے عبارت تھا۔