Ye Silsila Chalta Rahe Ga
یہ سلسلہ چلتا رہے گا
دنیا کے مشکل ترین کاموں میں سے ایک پڑھے لکھے لوگوں اور معاشرہ کے اجتماعی رُجحانات، نظریات کو بدلنا ہے پڑھے لکھے لوگ طبقہ یا معاشرہ کی سوچ نظریات اور رُجحانات کسی قدرتی واقعہ کے رُونما ہونے سے خود بخود بدل جائیں یا کسی موٹی ویٹر (باعمل مذہبی، سیاسی، سماجی رہنما) کی سالہا سال کوششوں سے بدل جائیں تو بدل جائیں لیکن کوئی یہ سمجھے یا گمان کرے کہ وہ چند ایک سیمینار جلسے جلوس یا ریلیوں میں زمینی حقائق کے برعکس اور جذباتی تقاریر کر کرکے اُن کے نظریات پر اثر انداز ہو جائے گا تو وہ اُس کا محض گُمان ہے اور گُمان ہی رہے گا۔
گلگت بلتستان کی الیکشنز ہسٹری پر نظر دوڑائیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ وہاں کے الیکشن ہمیشہ سے حکمران پارٹی ہی جیتتی آئی ہے پچھلے دنوں گلگت بلتستان میں الیکشن منعقد ہوئے رزلٹ سب کے سامنے ہیں سیاسی مدبروں اور سیاسی بصیرت رکھنے والوں کو سب پہلے سے ہی پتا تھا کہ رزلٹ کس طرح کے آئیں گے کس پارٹی کے اُمیدوار زیادہ جیتیں گے کونسی پارٹی حکومت بنائے گی لیکن حیران کن بات یہ تھی کہ چند ایک سیاسی پارٹیوں کے میڈیا سیلز نے سوشل میڈیا بالخصوص فیس بک اور ٹیوٹر پر وہ ادھم مچا رکھا تھا جیسے ساری کی ساری سیٹیں اُن کی اُمیدواروں نے ہی جیت جانی ہیں دوسروں کے ہاتھ کچھ نہیں آنا اور وہ پارٹیاں مسلم لیگ ن اور جے یو آئی ف ہیں حد تو یہ ہے کہ 15 نومبر کو جب ووٹنگ ختم ہونے کے بعد جب رزلٹ آنے شروع ہوئے تو تب بھی اِن دونوں پارٹیوں کے میڈیا سیلز سے ایسی ہی بے بنیاد خبریں تواتر سے شوسل میڈیا پرپھیلانے کا سلسلہ جاری و ساری رہا مثلا خبریں کچھ یوں تھی کہ گلگت کے فلاں حلقہ سے جے یو آئی ف کا فلاں اُمیدوار کامیاب ہو گیا ہے کستُور کے فلاں حلقے سے مسلم لیگ کا فلاں اُمیدوار نے میدان مار لیا ہے مسلم لیگ اور جے یو آئی ف کو گلگت اسمبلی میں حکومت بنانے کے لیے عددی برتری حاصل ہے پی ڈی ایم نے گلگت بلتستان میں تحریک انصاف کا صفایا کر دیا وغیرہ وغیرہ لیکن جب فائنل رزلٹ آئے تو پتا چلا کہ جے یو آئی ف کو کوئی سیٹ نہیں ملی اور مسلم لیگ ن کو محض دو سیٹیں ملی ہیں اور تو اور اِس سارے جھوٹے پروپیگندہ میں نامور سیاسی رہنما اور میڈیا ناخدا بھی پیش پیش تھے۔
سو فیصد شرح خواندگی رکھنے والے صوبہ گلگت بلتستان کا باشعور ووٹر اپنی آئینی حیثیت اور آئینی کمزوری کو باخوبی جانتا بھی ہے اور سمجھتا بھی ہے تو ایسے سیاسی طور پر میچور ووٹر کو بھلا پارٹیوں کے میڈیا سیلز کے بے بنیاد پروپیگنڈہ سے کیسے قائل کیا جاسکتا ہے کہ وہ اُنہیں ووٹ دیں یہ بات ہمارے سیاسی رہنماوں بلند پایا قلم کاروں اور اینکر پرسنز کو باآسانی سمجھ آجانی چاہیے۔
لیکن شاید مُفاد پرستی پیشہ ورانہ اُصولوں پر غالب آجاتی ہے تبھی تو شُعبہ صحافت سے مُنسلک بڑے بڑے نام رب ذُوالجلال سے دی گئی ذہنی صلاحیتوں اور قلم کا سہی استعمال کرنے سے گریز کرتے ہیں اور جانتے بوجھتے اپنے قارئین تک سہی معلومات اور تجزیہ نہیں پہنچاتے زمینی حقائق کو توڑ مُوڑ کر پیش کر کے اپنے فنانسرز اور آقاؤں کو خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر جب تمام تر پروگراموں اور تحریروں میں حقائق کو توڑ موڑ کر پیش کرنے کے باوجود نتائج زمینی حقائق کے بلکل عین مطابق آتے ہیں تو آقاؤں کی طرف سے مزید انویسٹمنٹ کی جاتی ہے تو حسب روایت میڈیائی ناخُداؤں کی طرف سے نئے جواز نئی تاویلیں گھڑی جاتی ہیں یہ سلسلہ جاری رہے گا کیونکہ دونوں فریقین سیاسی آقا اور میڈیائی ناخُدا ایک دوسرے کے رازدار اور محتاج ہیں۔