Saturday, 17 May 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Aamir Mehmood
  4. Tabeeb Ki Batni Tawajo Raz e Shifa Hai

Tabeeb Ki Batni Tawajo Raz e Shifa Hai

طبیب کی باطنی توجہ رازِ شفا ہے

لاکھوں کروڑوں درود و سلام سرور کونین سرکار ﷺ کی ذاتِ اقدس پر۔

انسان ایک بہت بڑا راز ہے جو عطائیں اور معجزات انسانی وجود میں پنہاں ہیں اُن کو دیکھیں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

ضرورت ہے اپنے آپ کو پہچاننے کی اپنے وجود کے اندر جو احساسات چھپے ہیں اُن کے معجزات کو سمجھنے کی۔

احساس ہی ایک انسان کو خود سے روشناس کروا سکتا ہے، اپنے اندر چھپی ہوئی کائنات کو پہچاننا ہی خود کو پہچاننا ہے، کہتے ہیں حساسیت ہی روحانیت ہے، ہر انسان جو کہ اِس دنیا میں آیا ہے ایک روحانی سفر میں ہے، بشرطیکہ کے وہ اپنے آپ کو پہچان لے، اپنے اوپر پڑے ہوئے غلاف اتار لے، ہر انسان دوسرے انسان کا چہرہ ہے، دوسرے انسان کا آئینہ ہے۔

کسی انسان کا قرب حرفِ تسلی، حرفِ امید دوسرے انسان کو شفا بخش سکتا ہے اور اگر یہ حرفِ تسلی، حرف اُمید ایک طبیب میں ہو تو کیا ہی کہنے، وہ طبیب اللہ تعالی کے بہت قریب ہو سکتے ہیں جو دنیاوی علاج کے ساتھ ساتھ ایک احساس رکھیں مریض کے لیے، یہ بھی ایک راز ہے۔

پچھلے وقتوں میں میڈیکل ڈاکٹر نہیں تھے، طبیب ہی تھے اور ایک خاص بات جو کہ آج کے ڈاکٹر میں نہیں ہے یا بہت کم ہے وہ مریض کے باطن سے کسی نہ کسی حد تک واقفیت ہے اور وہی انسان دوسرے انسان کے اندر جھانک سکتا ہے جو کہ خود ایک روحانی سفر پر گامزن ہو۔

ہمارے ہاں طبیب صرف ایک جسمانی ڈاکٹر نہیں ہے، ماضی میں روحانیت سے اور دین سے قرب کسی بھی طبیب کی پہلی شرط تھی، یہ بہت ہی عجیب بات ہے اور اس راز کو سمجھنے کی ضرورت ہے، طبیب کا مریض کے ساتھ ایک تعلق بہت اہمیت رکھتا ہے ایک احساس طبیب میں بہرحال موجود ہونا چاہیے، یہ تعلق مریض کے ساتھ علاج کا حصہ ہے۔

حضرت ابو انیس محمد برکت علی لدھیانویؒ وقت کے ولی فرماتے ہیں طب میں توجہ ایک اہم مقام رکھتی ہے طبیب جب پوری محویت سے مریض کی طرف توجہ کرتا ہے تو مریض کی حالت ٹھیک ہو سکتی ہے، مریض تندرست ہو سکتا ہے، طبیب کی مریض پر توجہ علاج ہی کی ایک امید افزا قسم ہے سبحان اللہ۔

میں سمجھتا ہوں نہ صرف طبیب بلکہ ایک عام انسان جب کسی دوسرے انسان کا حال پوچھنے جاتا ہے بیماری کی حالت میں تو اُس کا حرفِ تسلی حرفِ امید بہت اہمیت رکھتا ہے، دوسرے انسان کا علاج کرنے میں حوصلہ افزا نتائج مرتب کر سکتا ہے، اِسی لیے ہمارے دین میں حکم ہے کہ تیماردار کے گناہوں میں کمی آتی ہے جب وہ کسی بیمار کا حال پوچھتا ہے۔

یہ راز ہیں قدرت کے جن کو پہچاننے کی ضرورت ہے اور اِن کو عمل میں لے کے انے کی ضرورت ہے، لیکن بڑے ہی افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ طب کا شعبہ بھی دوسرے شعبوں کی طرح مکینیکل سا ہو کے رہ گیا ہے ڈاکٹر کا مریض کے ساتھ رشتہ ایک نہایت ہی سطحی اور جسمانی سطح پر ہی بن پاتا ہے، اِس کو ایک روحانی یا ایک احساسی سطح پر لے کے جانے کے لیے ڈاکٹر کا دین کے قریب ہونا بہت ضروری ہے اور اِن باتوں کا سمجھنا بہت ضروری ہے۔

انسانی جسم کوئی مشین نہیں ہے یہ ظاہر اور باطن سے مل کر بنا ہے اور جب باطن ٹھیک ہو جائے گا تو ظاہر کی بیماریاں کم سے کم ہونا شروع ہو جائیں گی اس لیے ضروری ہے کہ علاج کرنے والے کا باطن بھی درستگی کے سفر پر گامزن ہو، پھر ہی کامل شفا نصیب ہو سکے گی۔

سائنس نے بہت ترقی کر لی ہے اور بہت سی بیماریوں کے علاج دریافت کر لیے ہیں لیکن قدرت کے آگے سائنس کی کوئی حیثیت نہیں ہے جتنی دوائیاں ایجاد ہو رہی ہیں اُن کے سائیڈ ایفیکٹس ہیں ہر دوائی کے ساتھ ہدایات کا ایک پرچہ بھی ہوتا ہے جس میں لکھا ہوتا ہے کہ اِس کی کتنی مقدار لینی ہے اور اس دوائی سے کیا کیا اور بیماریاں جنم لے سکتی ہیں۔

مثال کے طور پر پینسلین کو ہی دیکھ لیں دوسری جنگ عظیم میں اِس کی بہت زیادہ افادیت تھی اور بہت ہی جانیں بچائی گئیں اِس کی ایجاد کے بعد لیکن آج اِس کے بہت سے سائیڈ ایفیکٹس سامنے آ رہے ہیں اور اب تو ڈاکٹرز اس کے متبادل زیادہ استعمال کرتے ہیں انسانی جسم کے لیے۔

جوں جوں علاج دریافت ہو رہے ہیں توں توں بیماریاں بھی نئی سے نئی جنم لے رہی ہیں، قدرت کے آگے سائنس کی کوئی حیثیت نہیں، سائنس کی حیثیت قدرت کے سامنے ایسے ہی ہے جیسے سمندر کے کنارے پتھروں سے کھیلتا ہوئے بچہ۔

حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں کہ بڑھتی ہوئی بیماریاں اور بڑھتے ہوئے کلینکس اِس بات کی غماز ہیں کہ انسان کا باطن بیمار ہو چکا ہے، آج کا ڈاکٹر قاصر ہے ان روحانی بیماریوں کو پہچاننے سے اور اُن کا علاج کرنے سے۔

پہلے کے طبیب ہمارے ہاں یہ علم بھی رکھتے تھے اور وہ پہچان لیتے تھے کہ اِس بیماری کی وجوہات جسمانی سے زیادہ روحانی ہیں۔

چند دن پہلے یہ خبر سننے میں آئی ہے کہ ایک باپ اور بیٹی دونوں نے خود کشی کر لی اور دونوں ہی ماہرِ نفسیات تھے اب لوگوں کا علاج کرنے والے ہی اگر خودکشیاں کریں گے تو مریض کہاں جائیں گے یہ بات ظاہر کرتی ہے باطنی علم سے نا واقفیت۔

انسان کو صرف ایک مشین سمجھ کر اِس کا علاج کیا جا رہا ہے، پہچاننے کی ضرورت ہے اُس لمس کے طلسمات جو کہ ایک انسان دوسرے انسان کو عطا کر سکتا ہے۔

اشفاق احمد صاحب اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ میں ایک دن سڑک پہ جا رہا تھا تو میں نے ایک حادثہ دیکھا، ایک گاڑی آئی اور کتے کے چھوٹے سے پلے کو مار کر نکل گئی، ٹکر اتنی شدید تھی کہ وہ گھومتا ہوا چکر کھاتے ہوئے سڑک کے دوسرے کنارے پہ گرا اور بری طرح سے زخمی ہوگیا، دو اسکول کے بچے پاس سے گزر رہے تھے انہوں نے بھاگ کر اُس کو پکڑا اور گود میں لٹا لیا اور اور اپنا ہاتھ اُس کے سر پر پھیرنے لگے، اُس ہاتھ کا لمس محسوس کرتے ہوئے اُس بچے نے اپنی جان جانِ آفرین کے سپرد کر دی، پاس سے ہی ایک فقیر گزر رہا تھا وہ بھی یہ منظر دیکھ رہا تھا اس نے یہ منظر دیکھ کر سندھی میں ایک شعر پڑھا اور فرمایا کہ اِس محبت نے اور اِس ہاتھ کے لمس نے اس جانور کے بچے کی مشکل آسان کر دی اور اُس نے اپنا وجود مالکِ کائنات کے سپرد کر دیا۔

یہ ہے وہ راز جو انسان انسانوں کو عطا کر سکتے ہیں، ضرورت ہے اِن احساسات تک پہنچنے کی اِن کو پہچاننے کی۔

اللہ تعالی آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔

Check Also

Pakistani Jahazon Ne Rafael Kaise Giraye

By Saqib Ali