Saturday, 17 May 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Aamir Mehmood
  4. Ibadat Mein Muhabbat Kaise Shamil Ho

Ibadat Mein Muhabbat Kaise Shamil Ho

عبادات میں محبت کیسے شامل ہو

بے شمار درود و سلام سرورِ کونین سرکار ﷺ کی ذاتِ اقدس پر۔

دُنیا میں جتنے بھی مذاہب آئے ہیں اُن میں انسان کو اطاعت اور تسلیم کا درس دیا گیا ہے اور عبادتوں کا ایک نظام بھی مروج کر دیا گیا ہے، ایک ترتیب، اوقات سب مذاہب میں شامل ہیں۔

دینِ اسلام میں بڑے واضح طور پر عبادتوں کے وقت متعین ہیں، ایک طریقہ کار کے ساتھ اور مسلمانوں کو حکم ہے مروجہ احکامات کی بجا آوری کریں، ہم سب جانتے ہیں وہ عبادات کیا ہیں اور کوشش کرتے رہتے ہیں اپنے تئیں کہ واجبات کو ادا کرتے رہیں، لیکن عبادات کی روح کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔

اگر آپ کسی بھی عبادت سے خدائے بزرگ و برتر کے ساتھ ایک تعلق، نسبت اور رابطہ حاصل نہیں کر سکے تو کچھ کمی رہ جاتی ہے، بزرگوں نے اِس سلسلے میں غور و فکر کیا ہے اور کچھ ہدایات دی ہیں اِن ہدایات پہ غور کرتے ہوئے اگر عبادتیں کی جائیں تو عبادت کی صحیح روح کو پایا جا سکتا ہے۔

عام طور پر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ عبادت کو ہم نے تھوڑا مکینیکل بنا لیا ہے، آج کا انسان دنیا کے تمام معاملات میں بہت جلدی میں ہے اور یہی بات عبادات میں بھی در آئی ہے اِس جلد بازی میں نقصان یہ ہو رہا ہے کہ انسان کا خدائے بزرگ و برتر کے ساتھ وہ رابطہ، تعلق یا نسبت نہیں رہی جو کہ ہونی چاہیے، اگر یوں کہا جائے کہ عبادات کو ثانوی حیثیت دے دی گئی ہے تو کچھ غلط نہیں ہوگا۔

کچھ صاحبِ استطاعت افراد ایک سے زیادہ حج کرنے میں مشغول ہو جاتے ہیں، بزرگ فرماتے ہیں کہ اگر دل میں خدا نہیں ہے تو کعبہ شریف جا کے بھی خدا نہیں ملے گا۔

اسی طرح نماز پڑھتے وقت بھی ہم جلد بازی سے کام لیتے ہیں اور جلدی جلدی نماز ادا کرتے ہیں، عبادات سے پہلے اگر کچھ چیزوں پر غور کر لیا جائے تو عبادات کی روح اور معنی ہی بدل سکتے ہیں، مثال کے طور پر وہ انسان جو صرف عبادتوں سے رب کی اطاعت کرنا چاہتا ہے اور اپنی دولت اور پیسے کو سنبھال کر رکھتا ہے وہ جھوٹا ہے، وہ تمام عمر عبادت کرتا رہے لیکن رب کو نہیں پا سکے گا۔

اور وہ انسان جو کہ اپنے دنیاوی معاملات جیسے کاروبار میں فراڈ یا ہیرا پھیری سے کام لیتا ہے اس کی نماز جھوٹی ہے، جو شخص وعدہ کرتا ہے اور پورا نہیں کرتا وہ جھوٹا ہے اور اس کی عبادت بھی جھوٹی ہے، کچھ لوگوں نے جو کہ معاشرے میں مخیر حضرات ہیں لنگر خانے کھول رکھے ہیں آج کل آپ کو جگہ جگہ نظر آئیں گے لیکن لنگر کھلانے کی پہلی شرط یہ ہے کہ وہ حلال رزق سے ہو، اِس بات پر غور کرنا چاہیے، جو شخص یتیموں کا مال ہڑپ کرتا ہے وہ لاکھ لنگر خانے کھولے اُس کی یہ عبادت قبول نہیں ہے۔

عبادتوں کا ہمارے پاس وقت ہی کتنا بچا ہے اگر آپ اپنی 60 سے 65 سال کی زندگی کا مشاہدہ کریں تو زیادہ تر وقت سونے میں کھانے پینے میں اور دنیا کمانے میں خرچ ہو جاتا ہے، اگر آپ اِس کو گنتی میں شمار کریں تو پانچ، چھ سال سے زیادہ عرصہ نہیں ملے گا جس میں آپ عبادات کر سکتے ہیں۔

یہاں کچھ لوگ اکثر یہ سوال کرتے ہیں کہ اِس دور میں اتنی زیادہ مصروفیت ہوگئی ہے کہ عبادت کے لیے وقت نہیں ملتا تو یہ تو اِس دور کے انسان کے ساتھ بہت زیادتی ہے بانسبت پچھلے ادوار کے انسان جو گزرے ہیں اُن کے پاس عبادت کے لیے زیادہ وقت تھا تو اِس میں عرض یہ ہے کہ عبادتوں کی تعداد کم یا زیادہ ہونے سے فرق نہیں پڑتا اصل چیز ہے اس میں اخلاص سچائی اور محبت کتنی ہے۔

عمر بھر کی عبادتیں منہ پہ دے ماری جائیں گی اگر کوئی غلطی اللہ تبارک و تعالی کو ناپسند آگئی ہے اور کسی ایک عمل سے تمام عمر کے گناہ معاف کیے جا سکتے ہیں۔

جو کمی عبادتوں اور ریاضتوں میں رہ گئی ہے اُس کا شارٹ کٹ یہ ہے کہ اگر آپ کو درد و غم عطا ہو گئے ہیں، آنسو عطا ہو گئے ہیں تو یہ عبادتوں کی کمی کو پورا کر سکتے ہیں۔

آنسو والا انسان عبادتوں والے انسان سے بہت آگے نکل جاتا ہے، خاص کر غم میں سجدہ شکر انسان کو سرفراز کر سکتا ہے، اس میں محبت کا عطا ہونا بہت ضروری ہے، میں بہت دفعہ عرض کر چکا ہوں کہ محبت عطا ہے یہ اختیاری نہیں ہو سکتی، بہت ہی خوش نصیب ہیں وہ انسان جنہیں محبت عطا ہوگئی ہے۔

عبادتوں کا بنیادی مقصد بھی محبت کرنا ہی ہے لیکن یہ ایک لمبا راستہ ہو سکتا ہے، عبادتوں اور ریاضتوں میں بہت وقت لگ سکتا ہے محبت کے عطا ہونے میں۔

کچھ خوش نصیب ایسے ہوتے ہیں جن کو کہ بیٹھے بیٹھے محبتیں عطا ہو جاتی ہیں جن کو محبت عطا ہو چکی ہے ان کو مبارک ہو، لیکن پھر اِس کو سنبھالنا بہت مشکل ہے یہ ایسے ہی ہے جیسے کہ ایک باریک رسی پر چلنا، ذرا سی جنبش پر آپ کا خیال ضائع ہو سکتا ہے، ذرا سے گناہ پہ آپ کے خیال کو وہم کیا جا سکتا ہے، ختم کیا جا سکتا ہے۔

جو درویش اور فقیر روحانیت کے مسافر ہیں اُن کو یہ بات بڑی اچھی طرح معلوم ہے کہ ایک غلطی سے کس طرح خیال ختم ہو جاتا ہے، تو محبت عطا ہونا بڑی اچھی بات ہے خیال عطا ہونا بڑی اچھی بات ہے، لیکن پھر اِس کو سنبھالنا بھی ہے، یہ کسی کی نظر کرم، کسی کے فیض، کسی کے ساتھ نسبت سے ہی ممکن ہے۔

اگر آپ کو نسبت نہیں ہے تو یہ ساری کیفیت ایک مختصر وقت کے لیے ہی ہوں گی، مستقل نہیں رہ سکیں گی۔

زندگی میں کسی ایک انسان کے ساتھ اتنا تعلق اتنی نسبت اور اتنی محبت پیدا کر لیجئے اور پھر اس کو قائم رکھیے تاکہ آپ کا خیال قائم رہے ضائع نہ ہونے پائے۔

اللہ تعالی آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔

Check Also

Trump Card Aur Bunyan Al-Marsoos

By Arif Anis Malik