Tuesday, 22 April 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Aamir Mehmood
  4. Har Shai Aik He Shai

Har Shai Aik He Shai

ہر شے ایک ہی شے

لاکھوں کروڑوں درود و سلام سرکار ﷺ کی ذاتِ اقدس پر۔

توحید کا مضمون اسلام کی بنیاد ہے، بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ تمام مذاہب کی بنیاد بھی تو غلط نہیں ہوگا، حتیٰ کہ وہ مذاہب جن میں کہ مختلف خداؤں کا تصور ہے اُن کا مآخذ بھی ایک بڑا خدا ہی ہے، جس سے کہ نظامِ ہستی شروع ہوتا ہے۔

یعنی اگر دیکھا جائے تو وہ بھی کسی طور توحید سے ہی شروع ہوتے ہیں، توحید سے مراد ہے خدائے واحد کو ماننا جاننا اور تسلیم کرنا، اللہ تبارک و تعالی کو جانا نہیں جا سکتا، اگر اللہ تبارک و تعالی کی ذات سمجھ میں آ جائے تو پھر وہ خدا نہ رہے، عقل ہی خدا بن جائے۔

اِس لیے بزرگ کہتے ہیں کہ اللہ تعالی کو جاننے کی کوشش نہیں کرنی بلکہ ماننا چاہیے، تسلیم کرنا چاہیے، یہی دینِ اسلام کے احکامات ہیں، انسانی عقل خدائے بزرگ و برتر کی کبریائی تک نہیں پہنچ سکتی، نظام ہستی کس طور چل رہا ہے یہ عقل سے باہر ہے، عقل کو اتنی طاقت نہیں عطا کی گئی کہ وہاں تک پہنچ سکے۔

عقل سے آپ یہاں تک پہنچ سکتے ہیں کہ سورج سے روشنی آرہی ہے اور سورج زمین سے اِتنے ہزار میل دور ہے اور نظام شمسی کا مرکز ہے، مختلف گیسوں کا مجموعہ ہے جن کے ری ایکشن سے حدت پیدا ہو رہی ہے، لیکن یہ سورج کیسے وجود میں آیا یہاں پہ آکے سائنس یا عقل جواب دے جاتیں ہیں، اِس سے آگے نہیں سوچ سکتی اِس سے آگے اندازے لگائے جا سکتے ہیں، تو یقین کی منزل تک آپ کو صرف عقیدہ ہی پہنچا سکتا ہے۔

عقیدہ بھی وہ جو کہ نبی آخر زمان سرکار ﷺ نے عطا فرمایا ہے، ایک مسلمان کے لیے اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ متعین نہیں کیا گیا۔ پہنچنے والے اللہ تبارک و تعالی کی ذات مبارک تک پہنچے ہیں اور اِس ذات کی کبریائی کے جلوے محسوس کر سکتے ہیں اور دیکھ سکتے ہیں۔

توحید کا مضمون اتنا گہرا ہے اور بزرگوں نے اِس پر اِتنا غور و فکر کیا ہے کہ عقل حیرت زدہ رہ جاتی ہے، اگر غور کیا جائے تو ہر شے دراصل ایک ہی شے ہے، ساری کائنات ایک ہی ہے، ہر شے دوسری شے کا سہارا ہے، دوسری شے کا ائینہ ہے، وصال ہے تو فراق ہے دونوں ہی محبوب کی عطا ہے، طلوع ہے تو غروب ہے یہ سورج کی عطا ہے، ہر آغاز کا انجام ہے نہیں تو نہیں، ازل کا ابد ہے، محبت کے ساتھ نفرت ہے دونوں کا مآخذ ایک ہی ہے، دوست کے ساتھ دشمن ہے، عروج کے ساتھ زوال ہے، ڈاکٹر اگر آج ڈاکٹر ہے تو کل مریض ہوگا، ایک ہی اِنسان ہنستا جاتا ہے اور کچھ واقعات پر غم طاری ہو جاتا ہے اور رونا شروع کر دیتا ہے، ایک کا پاس دوسرے کا فیل ہے، ایک ہی گھر میں خوشیوں کے شادیانے بجتے ہیں اور کچھ عرصہ کے بعد اُسی گھر میں موت ہو جاتی ہے۔

عجیب قدرت کا راز ہے ایک ہی اِنسان ایک وقت میں کچھ ہوتا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ وہ بدل جاتا ہے، اس کے ساتھ جڑے ہوئے واقعات، اُس کی کیفیات بدل دیتے ہیں۔

یوں لگتا ہے سارا ایک ہی منظر ہے ایک ہی کھیل ہے صرف مختلف مراحل آتے ہیں اِنسان کی زندگی میں، یوں لگتا ہے سب توحید سے نکلا ہے اِن سب کا مآخذ ایک ہی ہے صرف کیفیات اور واقعات بدلنے سے انسان کی طبیعت پر مختلف اثرات آتے رھتے ہیں۔

پچاس سے ساٹھ سال کا وقفہ آتا ہے ایک شہر میں چہرے بدل جاتے ہیں پرانے لوگ قبروں میں اُتر جاتے ہیں اُن کی جگہ نئے لوگ لے لیتے ہیں اور پھر وہی سلسلے وہی واقعات شروع ہو جاتے ہیں۔

یہ کیا کھیل ہے قدرت نے یہ کیا کھیل رچایا ہے، عقل دھنگ رہ جاتی ہے سب اللہ تعالی کی کبریائی اور مشیت کے نظارے ہیں، سب کا مآخذ توحید ہے، خدائے بزرگ و برتر کی واحد ذات ہے، صرف غور کرنے کی بات ہے، دن اور رات اپنے پینترے بدلتے رہتے ہیں، رات دن کے انتظار میں رہتی ہے اور دن رات تک پہنچنے کا انتظار کرتا ہے، یہ سارا نظارہ ایک ہی نظارہ ہے، غالب نے فرمایا تھا۔

بازیچہ اطفال ہے دنیا میرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے

بس انسان سے یہی درخواست ہے کہ اِس منظر میں جو کردار آپ کو دیا گیا ہے اُسے بخیر و خوبی انجام دیتے ہوئے خاموشی کے ساتھ اِس منظر سے رخصت ہو جائے تاکہ اُس کی جگہ دوسرے کردار لے سکیں۔

شیکسپیئر نے کہا تھا کہ دنیا ایک سٹیج ہے جس پر کہ مختلف کردار آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں، لیکن ڈرامہ جاری رہتا ہے۔

اللہ تعالی آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔

Check Also

Aye Zindagi Ko Chahne Wale Shajar Laga

By Javed Ayaz Khan