Muhabbat Ya Nafs
محبت یا نفس
دنیا میں بہت ساری ایسی چیزیں ہیں جن کا مادی وجود ہے اور اس مادی وجود کی وجہ سے وہ دنیا میں ایک الگ شناخت رکھتی ہیں۔ مگر محبت ایک ایسی چیز کا نام ہے جس کا کوئی وجود نہیں پھر بھی لوگ اس کے گرویدہ ہیں۔ دنیا میں موجود ہر شے اس محبت نامی چیز سے کہیں نا کہیں منسلک ہے۔ ہر شے کے اندر محبت اور لگن کا عنصر ہی ہے جو اس کے تخلیق کار کی طرف متوجہ کرتا ہے، شاید محبت کے وجود کے لیے یہ دلیل کافی ہے۔ لیکن محبت ہے کیا جو اپنی وسعت کو اس قدر بڑھائے ہوئے ہے، جس کا وجود تک موجود نہیں پھر بھی ساری دنیا کو اپنے سحر میں مبتلا کیے ہوئے ہے۔
محبت محض ایک احساس ہے جس نے ساری دنیا کو جھکڑ رکھا ہے۔ اگر دنیا میں سے اس احساس کو نکال دیا جائے تو دنیا کا جو نقشہ، جو عکس، جو تصور ہمارے سامنے آتا ہے بڑا ہی بھیانک ہے۔ محبت ایسا احساس ہے جو ذہن کو سکون اور دل کو تازگی بخشتا ہے۔ اس احساس کی عدم موجودگی میں انسان بنجر زمین کی ماند ہوتا ہے، جس میں اولاً فصل کاشت ہی نہیں ہوتی اور اگر فصل ہو بھی جائے تو وہ ذائقے سے خالی ہوتی ہے۔ انسان اسی احساس کا متلاشی ہے، جہاں وہ محبت نامی درخت دیکھتا ہے وہاں ہی اس کے سائے میں ڈیرے ڈال لیتا ہے۔ جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں محبت ایک حسین جذبہ ہے، ایک ایسا جذبہ جو انسانی جسم میں خون کی سپلائی کو تیز کر دے۔
محبت ایک ایسا جذبہ ہے جو انسانی ذہن کو متحرک رکھتا ہے، جو انسان کو جنون مہیا کرتا ہے، جو انسان کو مشکل راہوں کا مسافر بناتا ہے۔ مگر اس کا دوسرا رخ بھی موجود ہے، محبت نامی اس جذبے کی عدم دستیابی انسان کو مجنوں بنا دیتی ہے۔ جہاں اس جذبے کی موجودگی انسان کو مضبوط بناتی ہے وہاں عدم موجودگی اس کو توڑ دیتی ہے، انسان اندر سے کھوکھلا ہو جاتا ہے، کچھ کرنے کی حِس، کچھ پانے کی چاہ اور مشکل راہوں سے گزرنے کی لگن دم توڑ دیتی ہے۔
حاصل اور حصول کی بحث سے پہلے وہ اس جذبے کو تلاش کرتا ہے۔ جہاں محبت کا درخت دیکھتا ہے، جہاں محبت کا کنواں دیکھتا ہے، جہاں محبت کی سبیل دیکھتا ہے وہاں کا ہو کر رہ جاتا ہے۔ مگر جب وہی درخت اسے سائے سے محروم کرتا ہے تو انسان ہار جاتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں محبت کو عیب سمجھا جاتا ہے یا پھر محبت کے لیے کچھ خاص پیرامیٹرز منتخب کیے جاتے ہیں۔ جیسے برابر کے خاندان میں محبت ہوئی تو قبول کر لی جائے گی، جیسے ہم عمر سے محبت ہوئی قبول کر لی جائے گی، جیسے کنواری دوشیزہ یا کنوارے شہزادے سے محبت ہوئی تو قبول کر لی جائے گی۔ لیکن نہیں قبول کرنا تو کسی ایسے کو جو انسانوں کے اس معاشرے میں غریب رہ گیا، جو خاندانی اعتبار سے ان کے برابر کا نہیں، کسی کنواری دوشیزہ کو بڑی عمر کے مرد سے محبت قبول نہیں کی جائے گی، جوان لڑکے کی بیوہ یا طلاق یافتہ عورت سے محبت قبول نہیں کی جائے گی۔
اکثر لوگ پوچھتے ہیں کہ اپناتے وقت پیرامیٹرز کا انتخاب کیا جا سکتا ہے تو محبت کرتے وقت کیوں نہیں؟ میری رائے میں محبت ان سب چیزوں سے آزاد ہے، یہ معاشرتی بارڈر محبت کو محدود یا قید نہیں کر سکتے۔ محبت منہ دیکھ کر تھپڑ نہیں مارتی، یہ دو دلوں کے ملنے سے جنم لیتی ہے۔
ہمارے ہاں ایک فلسفہ موجود ہے کہ اصل محبت نکاح کے بعد ہے، نکاح کے بعد خودبخود محبت ہو جاتی ہے۔ اس فلسفے کی پیشِ نظر بے شمار نکاح کروائے جا رہے ہیں اور بہت سے لوگوں کو ایک ایسی چیز کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے جس سے وہ کبھی آزاد نہیں ہو سکتے۔ میں نکاح کے خلاف نہیں بلکہ اس سوچ کے خلاف ہوں جس میں نکاح کو ہتھیار بنا کر لوگوں کو مجبور کیا جاتا ہے۔ اگر ہم اس بے حِس معاشرے کا جائزہ لیں تو بہت ہی کم وقت میں ایسے بہت سے لوگ مل جائیں گے جن کے نکاح کو 10 سے 20 سال ہو چکے ہیں مگر ان میں محبت نامی اس جذبے کا وجود نہیں۔ بے شمار لوگ ایسے بھی مل جائیں گے جن کے ہاں پانچ پانچ، سات سات بچے بھی موجود ہیں مگر وہ بھی محبت نامی شے سے ناآشنا ہیں۔ وہ روزمرہ کی زندگی تو بسر کرتے ہیں مگر لڑائی جھگڑے اور مہینوں آپس میں خفا رہتے ہیں۔ وہ احترام، عزت، قدر اور ایک دوسرے کا خیال رکھنے والے جذبے سے کوسوں دور ہیں کیونکہ یہ سب محبت ہی کی بدولت ہے۔
وہی آپ کو ایسے لوگ بھی ملیں گے جو مشکل زندگی بسر کر رہے ہیں، ہزاروں تکالیف برداشت کر رہے ہیں، یہاں تک کہ اولاد سے بھی محروم ہوتے ہیں لیکن ایک دوسرے سے کبھی خفا نہیں ہوتے۔ ہر مشکل وقت میں ایک دوسرے کا سہارا بنتے ہیں، ہر دکھ کا مل کر سامنا کرتے ہیں، یہ سب محبت کے جذبے کی وجہ سے ہے۔
یہی نکاح کروانے والے فلاسفر محبت کی مزید دو اقسام متعارف کرواتے ہیں، پہلی قسم کی محبت جو اپنے محرم سے ہو جائز محبت اور دوسری جو نامحرم سے ناجائز محبت ہوتی ہے۔ میرے ایک صاحب علم دوست نے یہ فلسفہ میرے سامنے پیش کیا تو میں نے ایک سادہ سا سوال اس کے سامنے رکھا۔
"انسان گناہ کا مرتکب کب ہوتا ہے"۔
سامنے والے کا جواب تھا: "جب وہ ایسا عمل کر لیتا ہے جس سے شریعت نے منع کیا ہو یا پھر جس عمل کو کرنا گناہ قرار دیا ہو تب وہ گناہگار ہو گا"۔
میں نے آسانی کے لیے دوبارہ پوچھا: "کیا ذہن میں کسی ایسی چیز کے بارے میں سوچنا بھی گناہ ہے؟"
تو موصوف کا جواب تھا: "نہیں جب تک وہ عملاً وہ کام نہیں کرتا وہ گناہگار نہیں ہوتا۔ "
پھر میں نے اپنا نقطہ پیش کیا۔
دیکھیں دل ہی دل میں کسی سے محبت کرنا ناجائز تو نا ہوا نا اور پھر یہ محبت انسان کے دلوں میں پیدا کون کرتا ہے؟ آپ جس محبت کو ناجائز قرار دے رہے ہیں اصل میں وہ محبت نہیں نفس کی آواز ہے۔ اگر ایک انسان اپنے نفس کا غلام بن کر کسی سے جسمانی تعلق بناتا ہے تو وہ جسمانی تعلق ناجائز ہے، جس کی بنیاد نفس ہے ناکہ محبت، تو پھر کیونکر محبت کو جائز اور ناجائز کی بحث میں گھسیٹا جا رہا ہے۔ محبت کا اس میں کیا قصور؟
صاحب نے ایک اور وار کرتے ہوئے کہا: "نفس کو اشتعال دلانے والی چیز محبت ہی ہے نا پھر کیوں نا ہم اسے قصوروار کہیں؟"
صاحب اگر محبت اس قدر ہی معیوب چیز ہے تو اسے کبھی ایمان کا حصہ قرار نا دیا جاتا، جہاں اللہ نے اس محبت کو ایمان کا حصہ کہا ہے وہاں یہ بھی کہا ہے کہ جنت کا راستہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت میں ہے۔
وہی اللہ نے یہ بھی کہا ہے کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے، یہ شیطان ہی ہے جو انسانوں کو وسوسوں میں ڈال کر اسے نفس کا غلام بنا دیتا ہے اور پھر انسان کو گناہگاروں کی فہرست میں لا کھڑا کرتا ہے۔ اگر اس دلیل سے بھی آپ محبت اور نفس میں فرق نہیں کر سکتے تو سلام ہے آپ کو۔
عرض یہ ہے کہ محبت کو سمجھنے کی ضرورت ہے جہاں کچھ فلاسفر محبت کو تقسیم کرتے ہیں وہاں ہی ایک انسان کو زور زبردستی باندھ کر ذہنی مریض بنا دیتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے معاشرے میں محبت کو ایک مضمون کی حیثیت سے پڑھایا جائے۔ سکولز، کالجز اور یونیورسٹیوں میں اس کے لیے باقاعدہ کلاسز کا آغاز کیا جائے اور آنے والی نسلوں کو اس جذبے سے واقف کروایا جائے۔ اگر ایسا نا کیا گیا تو ہماری نوجوان نسل کی ذہن سازی ٹی وی ڈرامے اور فلموں سے ہو گی، پھر اپنے نفس کی تسکین کے لیے محبت کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔