Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Zulfiqar Ahmed Cheema
  3. Social Media Policing (3)

Social Media Policing (3)

سوشل میڈیا پولیسنگ (آخر ی قسط)

دوسری قسط چھپنے کے بعد پولیس افسروں اور پڑھے لکھے شہریوں کی میلز اور میسجز موصول ہوئے، بہت سے نیک نام پولیس افسروں نے لکھّاکہ یہ افسوسناک حقیقت ہے کہ تھانیدار سے لے کر آئی جی تک اسی کام میں مصروف ہیں کہ کرائم او کرپشن کے خاتمے کے بغیر ہی سوشل میڈیا کے ذریعے تشہیر ہوتی رہے۔

انھوں نے پچھلے کالم کے مندرجات کو پولیس لیڈر شپ کے لیے بہترین گائیڈ لائینز اورایسا روڈ مَیپ قرار دیا، جنھیں پولیس کے تربیّتی اداروں میں پڑھایا جاناچائیے۔ کچھ ریٹائرڈسیکریٹریز اور آئی جیز نے ڈی ایم جی اور پولیس کے نوجوان افسروں میں integrity اور کیریکٹر کے تشویشناک حد تک گرتے ہوئے معیار پر گہرے دکھ اور مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

ایک ایڈیٹر کا میسج ہے۔"کچھ عرصہ پہلے چند بیباک صحافیوں نے پولیس کے ایک ضلعی سربراہ سے پوچھا، "جناب!شہر میں بچے بچے کی زبان پر ہے کہ ہاؤسنگ کالونی کے کیس میں آپ نے۔۔۔۔ لاکھ لیے ہیں۔ تھانہ۔۔۔۔ میں آپ نے۔۔۔۔ لاکھ لے کر SHO لگایا ہے، اور کم از کم آٹھ تھانوں کے ایس ایچ اوزز حکومتی پارٹی کے لوگوں کی سفارش پر لگائے گئے ہیں، کیا آپ انکار کرتے ہیں؟ اِس پر پولیس افسر بولا، دیکھیں عوام کی حفاظت کے لیے پولیس افسر شہید ہور ہے ہیں مگر آپ پھر بھی ہم پر تنقید کرتے۔۔۔۔ اس پر دوسرا صحافی بات کاٹ کر بولا، "دیکھیں شہید تو اپنے خون سے پولیس کے دامن پر لگے داغ دھوتے ہیں مگر کرپٹ اور بدکردار پولیس افسر اپنی بد اعمالیوں سے اسے پھر داغدار کر دیتے ہیں ایسے پولیس افسروں کو شہداء کے مقدّس خو ن کے پیچھے چھُپنے کاکوئی حق نہیں "۔

کئی خواتین و حضرات نے پولیس اسٹیشن کے غیرمہذّب ماحول کا ذکر کیا ہے، ایک صاحب نے تو چیلنج کیا ہے کہ پورے ملک میں کسی ایک تھانے (پولیس اسٹیشن ) کا نام بتادیں جہاں عام آدمی کی رشوت اور سفارش کے بغیر دادرسی ہوتی ہو۔ یہی حال Revenue کے دفاتر کا ہے۔

تھانہ، پولیس کا وہ اہم ترین یونٹ ہے، جہاں دادرسی کے لیے عوام کا پولیس کے ساتھ سب سے زیادہ رابطہ رہتا ہے۔ انصاف کی منزل کی جانب جانے والی شاہراہ کا نقطئہ آغاز بھی پولیس اسٹیشن ہے۔ مگر یہ تلخ حقیقت ماننا پڑیگی کہ تھانوں میں تعیّنات پولیس اہلکاروں کا مظلوموں، بے سہارا مدعیّوں اور عام شہریوں کے ساتھ روّیہ غیر ہمدردانہ ہوتا ہے۔

اِس وقت کہیں بھی تھانوں کا یہ ماحول اور سوچ بدلنے کی کوئی سنجیدہ کو شش نہیں ہو رہی۔ پولیس کے ضلعی سربراہوں کو تھانہ اسٹاف کی سوچ تبدیل کرنے پر پورا زور لگانا چاہیے۔ یہ کام مشکل ہے مگر ناممکن نہیں کیونکہ یہ کیا جا چکا ہے۔ اس کا پورا احوال میری کتاب’Straight Talk’ میں درج ہے۔ کتاب کے متعلقہ آرٹیکل کے چند اقتباس شیئر کر رہا ہوں۔

"پولیس کے ڈویژنل کمانڈرنے سینئر افسروں کی میٹنگ بلا ئی اور ان سے کہا، " اﷲ تعالیٰ کا شکر ہے کہ پہلے معرکے میں آپ فتح یاب ہوئے ہیں، لاقانونیّت کا خاتمہ ہو گیا ہے اور عوام کو امن اور سکون میسّر آیا ہے مگر ہمارا اگلا ٹارگٹ اس سے بھی مشکل ہے"۔ افسروں نے حیران ہو کر پوچھا، " سر! کراچی کی طرح بگڑے ہوئے ضلعے کو پُر امن بنا دینے سے زیادہ مشکل کام کونسا ہو سکتا ہے؟ " اِس پر ڈی آئی جی نے انھیں بتایا کہ "ہمارا اگلا ٹارگٹ ہے پولیس اسٹیشن کے ماحول اور کلچر کی مکمّل تبدیلی، Complete Transformation۔ تھانوں میں تعیّنات عملے کی کرپشن اور بد تمیزی سے عوام نالاں اور نا خوش ہیں، ہم نے تھانوں میں ایمانداری خوش اخلاقی اور ہمدردی کے کلچر کو پروان چڑھانا ہے۔ انسانی سوچ کی تبدیلی مشکل ہے مگر نا ممکن نہیں اور ہم نے یہ ہر قیمت پر کرنا ہے"۔

تمام افسران کو سوچنے کے لیے ایک مہینے کا وقت دیا گیا۔ ایک مہینے کے بعد سینئر افسران پھر سر جوڑ کر بیٹھے۔ اس کے ہر پہلو پر بڑی باریک بینی سے غور ہوا، ٹھوس تجاویز سامنے آئیں جنکی روشنی میں حکمتِ عملی طے کی گئی اور اقدامات کی ترتیب مقرر ہوئی۔ ہدف واضح تھا، پولیس کو ایماندار، خوش اخلاق اور عوام کی ہمدرد بنانا۔ اس کے لیے تمام آپشنز استعمال کیے گئے۔ پوری یکسوئی سے کی گئی دس گیارہ مہینوں کی محنت کے بعد پولیس اسٹیشنوں میں تعیّنات عملے کی سوچ واقعی بدل گئی، جس کے بارے میں قومی سطح کی غیر جانبدا ر سروے تنظیموں نے رپورٹ لکھّی کہ "ضلع گوجرانوالہ کے تیس تھانوں میں سے اٹھائیس تھانوں میں بالکل رشوت نہیں لی جاتی اور لوگوں کے ساتھ پولیس ملازمین کا طرزِ عمل بہت بہتر ہو گیا ہے"۔ انسانی ذہن کی تبدیلی مشکل ترین کام ہے، اس کے لیے خونِ جگر جلانا پڑتا ہے۔

گوجرانوالہ میں بھی بہت کچھ کیاگیا۔ سختی بھی، نرمی بھی، سزا بھی، جزا بھی، پیار بھی، ڈراوا بھی، دلیل بھی، کاؤنسلنگ بھی، موٹیویشن بھی اور لیکچرز بھی۔ تھانے کا کلچر تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ مگر یہ کام ایسے ڈی آئی جی یا ڈی پی او نہیں کرسکتے جو "جیسے چل رہا ہے چلتا رہے" کی پالیسی پر گامزن رہتے ہوں۔ جو خود کرپٹ نہ ہونے کے باوجوداپنے ماتحت مشکوک کردار کے ایس پی اور ڈی ایس پی تبدیل کرانے کی ہمّت نہ کریں۔ ایسے افسر جو اپنے دائرہ ٔ اختیار کے ہر سیکٹر میں واضح بہتری لانے کے جذبے اور جنون سے محروم ہوں، ان کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بدقسمتی سے پولیس سروس میں ایسے مٹّی کے مادھوؤں کا جمعہ بازار لگا ہوا ہے جو مخلوقِ خدا کے لیے بے فائدہ ہیں۔

ایک انتہائی تشویشنا ک اَمر یہ ہے کہ پولیس افسروں کی ترجیحات میں "عام آدمی" کہیں نظر نہیں آتا، پولیس کی ٹریننگ یا فیلڈ میں عام آدمی کا کوئی ذکر تک نہیں ہوتا۔ ہر لَیول کے پولیس افسروں کو عام آدمی کی اہمیّت، اس کی عزّ ت اور اس کی جان اور مال کی حُرمت کے بارے میں sensitise کرنا بے حد ضروری ہے۔ تربیّتی اداروں میں اس کے لیے علیحدہ Moduleہونا چائیے۔ آجکل زیادہ تر فیلڈ افسران سمجھتے ہیں کہ حکومتی پارٹی کے ایک یا دو با اثر ممبروں کویا ایجنسیوں کو خوش رکھا جائے تاکہ وہ ان کی پوسٹنگ کا تحفّظ کریں۔ نوجوان افسروں کو یہ باور کرانا ضروری ہے کہ پولیس کا اصل کلائینٹ عام آدمی ہے۔ اس لیے انھیں اُس کے اطمینان اور خوشنودی کے لیے کام کرناہے۔

پولیسنگ کے عمل میں عوام کی شراکت بے حد ضروری ہے Participative Policing کا بہترین مظہر مصالحتی کمیٹیاں ہیں۔ پی ٹی آئی کے پچھلے دور میں KP میں جو کمیٹیاں یا بورڈ بنائے گئے وہ ضلعی سطح پر تھے، مگر راقم نے خیبر پختوانخواہ اور پنجاب دونوں صوبوں میں تھانے کی سطح پر باکردارافراد( جن میں عدلیہ، تعلیم، سول اور ملٹری کے ریٹائرڈ افسران اور صنعت و تجارت کے نمایندے شامل تھے) پر مشتمل مصالحتی کمیٹیاں بنائی تھیں، جنھوں نے تھوڑے ہی عرصے میں معجز ے کر دکھائے۔ دس دس سالوں سے عدالتوں میں زیرِسماعت مقدمات کمیٹیوں کے سپر د کیے گئے تو انھوں نے معاملات چند ہفتوں میں طے کرا دیے اور کروڑوں روپے اصل حقداروں کو دلادیے۔ وقت اور پیسے کی بربادی کے بغیر عوام کو بے پناہ ریلیف ملا۔ ضلعی پولیس افسر یہ کمیٹیاں ضرور بنا ئیں۔

پولیس میں آنے والے نئے افسروں کی تفتیشوں کا معیار خاصاناقص ہے۔ لہٰذاہر ضلع میں ان کے لیے ٹریننگ کورسز اور ورکشاپس کا اہتمام ہونا چاہیے جس میں فوجداری کے قابل وکیل، پراسیکیوٹر ز اور جج صاحبان آکر ان کے نقائص اور کوتاہیوں کی نشاندہی کریں اور تفتیش کا معیار بہتر بنانے کے لیے ان کی راہنمائی کریں۔ اسی طرح بڑے مجمعوں اور مظاہروں کو حکمت اور تدبر کے ساتھ ہینڈل کرنا (Crowd Control)آج بھی پولیس کا انتہائی کمزور پہلو ہے۔ ہر ضلع کی پولیس لائینز میں اس کی خصوصی ٹریننگ ہوتی رہنی چاہیے۔

ہر تھانہ، تحصیل اور ضلع کی پولیس ڈاکوؤں اور چوروں کو گرفتار کرتی ہے، پر یس کانفرنسیں بھی ہوتی ہیں مگراس کے بعد مجرموں سے برآمد کیے گئے مال کا کہیں اتہ پتہ نہیں چلتا۔ گوجرانوالہ اور شیخوپورہ میں ہم ہر تین مہینے بعد ڈاکوؤں اور چوروں سے برآمد شدہ مال مالکان تک پہنچانے کے لیے ایک بڑی تقریب منعقد کرتے تھے جس میں سیکڑوں شہریوں کی موجودگی میں مدعیوں کو کروڑوں روپے کا مال واپس کیا جاتا تھا۔ ایک ایک مدعی کو بیس بیس اور تیس تیس لاکھ روپیہ دیا جاتا رہا اور انھیں بحفاظت پہنچانے کے لیے پولیس اسکارٹ دی جاتی تھی۔ ہر ضلع میں اس چیز کا اہتمام کیا جا نا چائیے۔ اگر پولیس افسران اپنی صلاحیّتیں سوشل میڈیا کے بجائے اِن اصل اِشوز پر صرف کریں اور ان میں واضح بہتری(Visible improvement) لے آئیں توپھر انھیں کسی میڈیا مہم کی ضرورت نہیں رہیگی کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے۔ پھر انھیں اپنے شہداء کو شہید لکھوانے کے لیے صحافیوں سے لڑنے کی ضرورت نہیں رہیگی، ان کے قلم سے خودبخود نکلے گا۔ یاد رکھیّں

Good Officer don’t demand respect، they Command respect.

مگر سوال یہ ہے کہ پولیس افسروں میں اس نوعیّت کی تبدیلی کون لائے گا! قومی سطح کی سیاسی قیادت میں تو ایسا جذبہ، خلوص اور عزم نظرنہیں آتا کہ وہ اہم ترین سروسز کے زوال کو کمال میں بدل دیں۔ تو کیا عوامی اعتماد اور دیانت کے جوہر سے محروم یہ دونوں سروسز ہمیشہ کے لیے زوال کی گہری کھائی میں جاگریں گی؟ نہیں اَیسا نہیں ہوگا۔ پولیس میں مجھے امّید کی واضح کرن نظر آرہی ہے۔ پولیس سروس کو مال اور مرتبے میں اضافے کا ذریعہ سمجھنے والوں کے مقابلے میں سروس کے اندر سے پاکباز والدین کے بیٹے اٹھیّں گے اور یونیفارم کا تقدّس پامال کرنے والوں کو پیچھے دھکیل کر اُسکے تحفّظ کا پرچم اپنے ہاتھ میں لے لیں گے۔

وہ خود اپنے کولیگز کو سمجھائیں گے کہ "دیکھو!قوم نے ہمیں ’ محافظ، کے عظیم مرتبے پر فائز کیا ہے۔ محافظ قو م کا ہیرو ہوتا ہے جب کہ حرام مال کھانے والا، ہیرو کے بلند مقام سے ذلّت کی پَستیوں میں گر کر فقیر اور منگتا بن جاتا ہے۔ محافظ کی شان یہ ہے کہ وہ دوسروں سے لیتا نہیں دیتا ہے۔ امن، تحفّظ، انصاف اور ضرورت پڑے تو جان بھی! اوراس کے عوض مائیں اور بہنیں اس کے لیے جھولیاں اٹھا کر دعائیں کرتی ہیں، عوام اسے عزّت و تکریم کا تاج پہناتے ہیں اور اپنی محبّتیں اُس پر نچھاور کر دیتے ہیں اور سب سے بڑھ کریہ کہ وہ اﷲ کی خوشنودی اور نبی کریمﷺ کی شفاعت سے بہرہ مند ہوتا ہے۔ کیا ہم اتنی فضیلتوں کو حرام کے پیسے اور شراب پر قربان کردیں! نہیں اَیسا ہرگز نہیں ہوگا!

Check Also

Final Call

By Hussnain Nisar