سوشل میڈیا پولیسنگ(دوسری قسط)
پچھلے کالم کے بعد پولیس کے ہر لَیول کے افسران کے میسجیز اور ای میلز موصول ہوئیں، زیادہ تر نے اسے صحیح وقت کی Wake-upکال قرار دیا۔ ڈی ایم جی (PAS)کے کئی افسران کے بھی ایسے ہی میسج آئے۔ متعدد نوجوان افسروں نے بتایاکہ ہم میں سے زیادہ تر نے خود کو اس لیے سوشل میڈیا تک محدود کر لیا تھا کہ ایسا کرنے کی اُوپر سے ہدایات تھیں، مگر اب ہماری آنکھیں کھل گئی ہیں اور اب ہم اصل پولیسنگ پر توجّہ دیں گے۔
ایک ڈی آئی جی رینک کے نیک نام افسر (جس نے میرے ساتھ بھی کام کیا ہوا ہے)نے لکھاہے
"sir it is true that most of
us are not bothered about trust deficit، Police behaviour، neutrality and fair play. Infact senior PSP officer are responsible for all these ills.Most of us do not practice what we preach.You were an exceptional commander، whom we have witnessed practicing what you preached"
ہر رینک کے افسروں کے لیے سب سے اہم اور بنیادی بات یہ ہے کہ وہ ہر حال میں رزقِ حلال پر قناعت کریں، تھانوں اور دفتروں میں ایمانداری کا کلچر رائج کریں۔ خود دیانتدار ہو نا کافی نہیں، آپ کے رویّے اور عمل سے بھی یہ واضح میسج جانا چائیے کہ آپ راشی اور کرپٹ اہلکاروں کو ناپسند کرتے ہیں۔ اگر آپ حرام خوروں کے بجائے رزقِ حلال کھانے والوں کوترجیح اور عزّت دیں گے، انھیں اچھی جگہوں پر تعیّنات کریں گے تو عوام آپ پر اعتماد کرنا شروع کردیں گے۔
رینکس سے پروموٹ ہو کر ایس پی بننے والے ایک ایماندار افسر (جس نے گوجرانوالہ میں میرے ساتھ کام کیا ہے)کی ای میل آئی ہے "سر آپ کے دور میں حرام خور اہلکار یا نکال دیے گئے تھے یا وہ دبک گئے تھے اور رزقِ حلال کھانے والے سَر اُونچا کر کے پِھرتے تھے کیونکہ انھیں بڑے بڑے انعام بھی ملتے تھے اور پورے شہر کی ایلیٹ کے سامنے عزّت بھی ملتی تھی۔ اُسوقت ایماندار افسروں کی شان ہی اور ہوتی تھی۔
سر!آپ نے اپنے ضلع میں غیر جانبداری کا ایسا معیار قائم کیا کہ لوگ حیران رہ گئے۔ حکومت کے مخالفوں کو عزّت بھی ملتی اور انصاف بھی۔ مجھے یاد ہے۔ ایک ضمنی الیکشن میں حکومتی پارٹی، اپنی پسند کے ایک ڈی ایس پی کے آرڈر کرا لائی مگر آپ نے اُسے چارج نہیں لینے دیا۔ بلاشبہ آپ نے قانون کی حکمرانی اسطرح قائم کر کے دکھائی کہ وہ ہمیشہ کے لیے مثال بن گئی۔ سر!مجھے اُس رات کی میٹنگ بھی یاد ہے جب آپ نے کہا تھا کہ " بڑے اہم لوگ زور دے کر مجھے کہتے ہیں کہ آپ کچھ پولیس افسروں کو ( کرپشن میں ملوّث ہونے کی وجہ سے) نہ نکالیں، ان سے کام لیں، یہ بڑے تجربہ کار اور کرائم فائیٹر ہیں "، مجھے یاد ہے کہ آپ نے کہا تھا " میں حرام خوروں کا محتاج بن جائوں، ایسا نہیں ہوگا۔
اﷲ اور نبی کریم ْﷺ نے حرام اور رشوت سے منع فرمایا ہے اس لیے میں ایمانداری کو بددیانتی سے شکست نہیں ہونے دونگا۔ میں حرام کے آگے حلال کا سر نہیں جھکنے دونگا" آپ نے کہا تھا" یہ راشی اہلکارجو چور سے پیسے لے سکتا ہے، وہ ڈاکو اور دہشت گرد سے بھی لے سکتا ہے، حرام مال کھانے والانہ یونیفارم کا وفادار ہے اور نہ ملک کا۔ اس کے جسم پر نظر آنے والی وردی نہیں، یہ اس کے ایمان اور ضمیر کا کفن ہے۔ ایسے غدّار میری ٹیم کا حصہ نہیں بن سکتے"۔
آپ نے تمام پَھنّے خاں راشی نکال باہر کیے اور پھر قادرِ مطلق نے آپکی اسطرح مدد کی کہ آپ کی رزقِ حلال کھانے والی ٹیم نے تجربہ کاری اور کرائم فائیٹنگ کا mythتوڑ کر رکھ دیا اور خطرناک مجرموں کے گڑھ کوامن کا سویٹزر لینڈ بنادیا۔ لوگوں کو اسطرح امن اور انصاف ملا کہ آج بھی گوجرانوالہ کے لوگ اُس دَور کو "گولڈن" اور "تاریخی " کے نام سے یاد کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے"۔
یاد رہے کہ مذکورہ ڈھائی سالوں میں راقم نے ایک تصویر یا ایک جُملہ تک سوشل میڈیا پر اپ لوڈ نہیں کیا اور ایک بھی انٹرویو نہیں دیا۔ آپ کی کارکردگی اگر genuine ہے تو اس کی خوشبو خود بخود چار سُو پھیلتی ہے۔ اور اگر آپ کا دامن مالی یا اخلاقی کرپشن سے آلودہ ہے تو اس کی بدبو دور دور تک پھیلے گی اور آپکی سوشل میڈیا مہم اُسے کبھی نہیں روک سکے گی۔
راقم نے نیشنل پو لیس اکیڈیمی میں اے ایس پیز کے کئی بَیچز کی ٹریننگ کرائی ہے۔ ہربیچ کے افسر اکیڈیمی سے رخصت ہو تے وقت مجھ سے پوچھا کر تے تھے کہ "اچھا افسر بننے کے لیے ہمیں کیا کرنا چائیے؟ " میں اُنھیں بھی یہی بتاتا رہا اور آج کے افسروں کو بھی یہی بتاؤنگا کہ اچھا افسر بننے کی شرط ِاوّل یہ ہے کہ آپ رزق ِ حلال کو کسی پالیسی کا نہیں اپنے ایمان کا حصہ بنائیں اور مالِ حرام یا کرپشن سے اسطرح نفرت کریں جسطرح سُور کے گوشت سے کرتے ہیں۔ حرام کھانے والے کی شہرت ایک مہینے میں گندے نالے کی بدبو کیطرح پورے ضلع میں پھیل جاتی ہے۔ اس کی نہ فورس میں عزت ہوتی ہے اور نہ عوام میں۔
اچھے پولیس افسر کے لیے دوسر ی خوبی یہ ہے کہ وہ نڈر اوربہادر ہو۔ اگر آپ خطرناک مجرموں کے ساتھ پنجہ آزمائی سے ڈرتے ہیں یا بڑے بڑے مظاہروں کا سامنا کرنے سے گھبراتے ہیں تو آپ یونیفارم پہننے کے حقدار نہیں ہیں، اس کے علاوہ عوام کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے آپ پر لازم ہے کہ آپ مکمّل طور پر غیر جانبدار رہیں۔ آپ کا آفس پبلک آفس ہے جس پر ہر شحص اور ہر سیاسی پارٹی کا ایک جیسا حق ہونا چاہیے۔ اگرآپ صرف حکومتی پارٹی کو عزّت دیں گے، اُنکی خوشامدکریں گے اور اپوزیشن کے ممبروں کے ساتھ سوتیلی ماں جَیسا سلوک کریں گے تو عوام کا ایک بڑا حصہ آپ کو حکومتی پارٹی کا کارندہ سمجھنے لگے گا اور آپ ان کے اعتماد سے محروم ہو جائینگے۔ اس کے علاوہ میں نوجوان ASPsسے کہا کرتا تھا کہ
"you must demonstrate courage to say No to illegal orders"
(آپ میں غیرقانونی احکامات ماننے سے انکار کی جرأت ہونی چاہیے)اگر آپ کو سیاسی مخالفین کو دبانے، انھیں بغیر جرم کے گرفتار کرنے یا ان کے خلاف جھوٹے پرچے درج کرنے یا کسی ضمنی الیکشن میں حکومتی پارٹی کے امیدوار کو سپورٹ کرنے یا اس کی پسند کے افسر تعیّنات کرنے کے احکامات ملیں تو یہ un-lawful احکامات ہونگے اور بانیء پاکستان قائدِاعظمؒ کے واضح احکامات ہیں کہ سول سرونٹس ایسے غیر قانونی احکامات ماننے سے انکار کردیں۔
آخری یہ کہ ہمارے ملک میں ظلم اور ناانصافی کے پِسے ہوئے افتاد گانِ خاک کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ پولیس افسران دفتروں میں بیٹھے رہنے کے بجائے اُنکے مسائل اور مصا ئب جاننے کے لیے ان کے پا س جائیں، اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ ہر تھانے کی سطح پر کھلی کچہریاں لگائیں مگر وہ ٹاؤٹوں کا اجتماع نہیں ہو نا چا ہیے، اسکوآپ خود کنڈکٹ کریں اور مقامی SHO کے منتخب کردہ اسٹیج سیکریٹری کے حوالے نہ کریں۔
ایسے اجتماع میں سب سے پہلے ڈی پی او یا ڈی آئی جی خود خطاب کرے اور اپنی پالیسی اور ترجیحات بتائے اور پھر عام لوگوں کی حوصلہ افزائی کر ے کہ وہ کھل کر بات کریں۔ اے ایس پی سے لے کر ڈی آئی جی تک میری کھلی کچہریوں میں ہزاروں لوگ آیا کرتے تھے اور میں کئی کئی گھنٹے بیٹھ کر ان کی باتیں اور شکایتیں سناکرتا تھا اور پھر ان کا ازالہ کیا جاتا تھا، ہم نے گوجرانوالہ اور شیخوپورہ ڈویژن میں تھانہ کی سطح پر کھلی کچہریاں منعقد کرنے کے علاوہ جمعہ کچہری کا اہتمام بھی کیا تھا۔
ہر جمعے کو تمام تھانوں کے ایس ایچ اوز، ایس ڈی پی اوز اور ایس پی صاحبان اپنے علاقے کی کسی جامع مسجد میں نمازِ جمعہ ادا کرنے کے بعد وہیں بیٹھ کر عوام کے مسا ئل سنا کرتے تھے۔ سائل یا فریقین بھی مسجد کے احترام کی وجہ سے جھوٹ کم بولتے تھے۔ ان کی جائز شکایات کے ازالے کے لیے وہیں احکامات جاری ہوتے اور ان پر فوری عملدرآمد ہوتا تھا۔ یہ تجربہ بہت کامیاب رہا۔
پولیس کے ضلعی سربراہ کا سب سے بڑا ٹیسٹ ایس ایچ او زکی تعیناتی ہے۔ اگر وہ کسی کے دباؤ پر یا کسی کی خوشنودی کے لیے کرپٹ اور بدنام ایس ایچ اوز لگاتا ہے تو وہ سوشل میڈیا پر جتنی چاہے پبلسٹی کرتا رہے، عوام اسکو کبھی اچھا افسر نہیں سمجھیں گے اور اُس پر کبھی اعتماد نہیں کریں گے۔ ضلعی سربراہان کو چاہیے کہ وہ پوری کوشش کر کے دیانتدار افسر ڈھونڈیں اور انھیں تھانوں کا انچارج لگائیں۔ اگروہ کرپٹ افسروں کو تھانوں کا انچارج لگائیں گے یا حکومتی پارٹی کے جیتے یا ہارے ہوئے سیاستدانوں کے کہنے پرSHO لگائیں گے (جوان کے کہنے پر ملزموں سے نرمی اور بے گناہوں کو تنگ کریں گے) توڈی پی اوز کی تمام تر ڈرامے بازیوں کے باوجود عوام انھیں دل سے بُرا سمجھیں گے۔
چند سال پہلے ایک PSP افسر گوجرانوالہ میں تعینّا ت ہوا تو اس نے مسلم لیگ( ن) کے با اثر ایم پی اے کے کہنے پر کئی بدنام SHO تعینات کردیے۔ ایک ایس ایچ او تو اسقدر بدنام تھا کہ لوگ اُسے کنجر کے نام سے یاد کر تے تھے۔ متعلقہ پولیس افسر (ن )لیگ کے با اثر ممبروں کی خوشامد کرکے طویل عرصے تک یہیں تعینات رہا اور اس دوران پی ٹی آئی کے بے گناہ ورکروں کی پکڑ دھکڑبھی کرتارہا، پی ٹی آئی کی حکومت آئی تو ان سے جاملا۔ آجکل مارکیٹ میں ایسے افسروں کی بہتات اور باضمیر افسروں کا قحط ہے۔ لیکن یاد رکھیں ایسے افسر پوسٹنگ تو لے سکتے ہیں مگر عوام کا اعتماد یا عزتّ حاصل نہیں کر سکتے۔
پھر پولیس کو غیر جانبدار بنانے کے دعوے کرنے والوں کے دور میں اسی جگہ ایک ایسا نرالا آرپی او آلگا جو حکومتی پارٹی کے ہارے ہوئے امیدواروں کو اپنی سرکاری گاڑی میں ساتھ بٹھا کر پھراتا، انھیں اپنے گھر بلا کر کھانے کھلاتااوراُن کے ڈیروں پر جاکر کچہریاں لگاتا تھا۔ وہ اپنے آپ کو اور اپنے ادارے کو عوام کی نظروں سے گر اکر چلتا بنا۔ اسی طرح اگر صوبے کا آئی جی، کسی ضمنی الیکشن کے قریب پولیس کو غیر جانبدار رکھنے کے بجائے متعلقہ تحصیل میں حکومتی پارٹی کے پسندیدہ افسر تعیّنات کرتا ہے تو وہ اپنے یونیفارم کا تقّدس مجروح کرتا ہے۔ اور اس کی اس جانبدارانہ حرکت سے پولیس کا پورا ادارہ بدنام ہوتا ہے۔
(جاری ہے)