پولیس، انتظامیہ، الیکشن کمیشن اورجنابِ وزیرِاعظم
پچھلے ڈھائی سالوں میں کسی ایک واقعے کے باعث حکومت اتنی بدنام نہیں ہوئی جتنی ڈسکہ کے ضمنی الیکشن میں ہوئی ہے۔ ناقابلِ برداشت مہنگائی اور ہر سیکٹر میں مسلسل ناکامیوں سے بھی وزیراعظم عمران خان صاحب کی ساکھ اتنی متاثر نہیں ہوئی جتنی ڈسکہ میں دھونس اور دھاندلی کے الزامات سے ہوئی ہے۔
یہ بات زبان زدِ خاص و عام تھی کہ وزیرآباد اورڈسکہ کے ضمنی انتخابات نے حکومت کا فسطائی چہرہ بے نقاب کردیا ہے۔ وزیرآباد میرا آبائی شہر ہے، الیکشن سے پہلے وہاں کے لوگوں سے ملاقات ہوئی توانھوں نے برملاکہا کہ "پولیس اور انتظامیہ حکومتی امیدوار کو جتوانے کے لیے ہر حربہ استعمال کررہی ہے۔ پولیس افسران حکومتی پارٹی کے کارکنوں کی طرح کام کررہے ہیں۔
مسلم لیگ کے ورکروں کو ہراساں کرنا، جھوٹے مقدمے بنانا اور انھیں بلاوجہ گرفتار کرکے حوالاتوں میں بند کردینا معمول بن چکا ہے"۔ میڈیا کے باخبر لوگ یہ بھی بتاتے رہے کہ گوجرانوالہ میں پولیس اپوزیشن کے ورکروں کو ہراساں اور گرفتار کررہی ہے تاکہ مسلم لیگ (ن)کے ووٹر اپنا آئینی حق استعمال نہ کرسکیں۔ ڈسکہ میں بھی یہی صورتِ حال تھی، وہاں تو الیکشن کے روز لاقانونیت کی انتہاکردی گئی اور دو درجن کے قریب پریزائیڈنگ افسران (پولنگ اسٹیشنوں کے انچارج) ہی غائب ہو گئے۔
جنوری کے آخر میں ایک اہم سرکاری عہدے پر تعینات ایک عزیز سے بات ہوئی تھی تو اس نے صاف بتادیا کہ اسٹیبلشمنٹ بالکل غیر جانبدار ہے۔ میں نے پوچھا کہ پولیس اور انتظامیہ؟ توجواب آیا، یہ حکومتی امیدوار کے ساتھ ہو گی۔
پریزائیڈنگ افسر عام طور پر کالجوں اور اسکولوں کے اساتذہ ہوتے ہیں، حکومت اہلکار پریزائیڈنگ افسران کو اپنا ہمنوا بنانے اور نتائج تبدیل کرنے پر تیار کرنے کے لیے خوف اور لالچ دونوں قسم کے حربے استعمال کرتی ہے۔
ڈسکہ میں دھاندلی آپریشن کا اصل رائٹر، پروڈیوسر اور ڈائریکٹر کون تھا؟ سب جانتے ہیں کہ بیس پریذائیڈنگ آفیسرمحض پی ٹی آئی کے امیدوار کے کہنے پرکوئی بڑا رسک لینے کے لیے کبھی تیار نہ ہوتے۔ اسی طرح پولیس افسران اور انتظامیہ ضلع کے ہارے ہوئے سیاستدانوں کے کہنے پر اتنے سنگین معاملے میں ملوث ہونے کے لیے تیار نہیں ہوسکتے، وہ تبھی تیار ہونگے جب انھیں طاقتور اتھاریٹی کی آشیرباد ہو گی۔ لہٰذا قارئین سمجھ گئے ہو ں گے کہ کُھرا کس طرف جاتا ہے۔
اگر حکومت کا اس معاملے میں کردار نہیں ہے تو بطور وزیراعظم عمران خان صاحب بیس پریزائیڈنگ افسروں کے غائب یا اغوأ ہونے کے واقعہ پر تشویش کا اظہار کرتے، اُسکی مذمّت کرتے اور انکوائری اور ذمے داران کے خلاف کارروائی کرنے کا حکم دیتے۔ انھوں نے نہ صرف ایسا کچھ نہیں کیا بلکہ وہ حکومت کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔
سیالکوٹ کا ڈی پی اوحسن علوی ایک بھلامانس اور شریف آدمی ہے، نیک نام باپ کا بیٹا ہے، میرے ساتھ بھی کام کرچکا ہے اس کے پرانے کولیگز کا بھی یہی کہنا ہے۔ اسی طرح ڈی سی گوجرانوالہ بھی اچھا افسر ہے۔ سوال یہ ہے کہ پولیس اور انتظامیہ نے غیر ذمے داری کا مظاہرہ کیوں کیا، اس کا جواب سامنے آنا چاہیے۔ آئی جی اور چیف سیکریٹری کی غیر ذمے داری کی بات الیکشن کمیشن نے بھی کی ہے۔ دونوں افسران آئین کے آرٹیکل 220کے تحت الیکشن کمیشن کی ہدایات پر عمل کرنے کے پابند ہیں مگر انھوں نے چیف الیکشن کمشنر کا فون تک اٹینڈ نہیں کیا۔ باخبرذرایع یہ بھی بتاتے ہیں کہ ڈسکہ ضمنی الیکشن میں ایک سول ادارے کو بھی استعمال کیا گیا ہے۔
الیکشن کمیشن نے ڈسکہ کے واقعات پر ماضی کی نسبت بڑی سُرعت سے کارروائی کی، اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ کمیشن کے سربراہ انتظامی افسر رہے ہیں لہٰذا وہ اپنے تجربے کی روشنی میں بہت جلداصل حقائق تک پہنچ گئے اور بروقت کارروائی کی۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ سی ای سی کا عہدہ اعلیٰ عدلیہ کے ریٹائرڈ جج صاحبان کے لیے مخصوص تھا۔ حالانکہ انتخابات کا انعقاد ایک عدالتی نہیں سراسر انتظامی نوعیت کا کام ہے، لہٰذا سب سے پہلے راقم نے 2014میں اپنے کالموں کے ذریعے توجہ مبذول کروائی کہ الیکشن کمیشن کا سربراہ کوئی جج نہیں بلکہ وسیع انتظامی تجربہ رکھنے والا پولیس یا ڈی ایم جی کا ریٹائرڈ افسر ہونا چاہیے۔ اس سلسلے میں کئی متعلقہ حضرات اور پارلیمنٹ کے اراکین سے ملاقات کرکے انھیں قائل کرنا پڑا۔
الیکشن کمیشن پر، فیصل واؤڈا کی دہری شہریت والے اوپن اینڈ شٹ کیس میں فیصلہ دینے سے گریز کرنے اور حکمران جماعت کے خلاف کیس کو لٹکانے کی وجہ سے انگلیاں اُٹھتی تھیں مگر ڈسکہ دھاندلی کیس میں الیکشن کمیشن نے بروقت کارروائی کرکے اپنی ساکھ بہتر کی ہے (اگرچہ اب بھی فارن فنڈنگ کیس اُسی طرح لٹکا ہوا ہے) اگر الیکشن کمیشن ڈسکہ ضمنی الیکشن میں غیر ذمے داری کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف کارروائی نہ کر سکا تو پنجاب میں آیندہ بلدیاتی الیکشن کا منصفانہ انعقاد ممکن نہیں ہوگا، اور اگر موثر کارروائی ہوئی تو پھر اس سال ہونے والے بلدیاتی اور آیندہ عام انتخابات بھی پرامن اور منصفانہ ہوسکیں گے۔
کئی ٹی وی چینلوں نے اس اِشو پرمیرا نقطۂ نظر پوچھا اور 2010میں گوجرانوالہ میں ہونے والے ضمنی انتخابات اور وہاں سے غائب ہونے والے پریزائیڈنگ افسروں کا بھی ذکر کیا۔ آج دس سال بعد بھی ضمیر کے پورے اطمینان اور مسرت وافتخار کے ساتھ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ چونکہ اُس وقت ہم نے (میں اُس وقت گوجرانوالہ پولیس کا سربراہ تھا) پولیس کو مکمل طور پر غیر جانبدار رکھا، ڈسکہ اور وزیرآبادکی طرح پولیس کسی کی آلۂ کار نہیں بنی، اُس نے اپنی آئینی اور قانونی ذمے داری نبھائی، اس لیے نہ صرف Missing Presiding Officersکو بہت جلد برآمد کروالیا گیا، بلکہ اُن سے اصل نتائج بھی برآمد ہوگئے جو انھوں نے ریٹرننگ افسر کو جمع کرادیے۔
حکومتی پارٹی ڈیڑھ ہزار ووٹوں سے ہارگئی، انصاف کے مطابق حقدار کو حق دلاکرقانون کی حکمرانی قائم کی گئی جس سے پولیس کی عزت و توقیر میں بے پناہ اضافہ ہو۔ اُس ٹیم کے پولیس افسران آج بھی اس واقعہ کافخر کے ساتھ ذکر کرتے ہیں، مگر 19 فروری کو ڈسکہ اور وزیرآباد میں جو کچھ ہوا، اس کا سبب بننے والے پولیس افسران کی نظریں ہمیشہ جُھکی رہیں گی۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پنجاب پولیس کے چند افسران کی غیر ذمے داری اپنے محکمے کے لیے مزید بدنامی کاباعث بنی ہے۔ یونیفارم فورس کے کسی افسر کے دامن پر جب ایسا داغ لگ جائے تو وہ اپنی فورس، ماتحتوں اور عوام کی نظروں سے گِر جاتا ہے بلکہ اس کی کمانڈ ختم ہوجاتی ہے۔
میڈیا کے بہت سے لوگ پوچھتے ہیں کہ پولیس اور انتظامیہ کے افسران ایسی غیر ذمے دارانہ حرکت کے لیے آخر کیوں تیار ہوجاتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ سول سروسز میں حرام کا پیسہ کمانے کا رجحان بے تحاشا بڑھ گیا ہے۔
زیرِ تربیت افسروں میں تربیت کے دوران سب سے زیادہ رزقِ حلال پر قناعت کرنے اور غیر قانونی احکامات ماننے سے انکار کرنے کا جذبہ اور ہمت پیدا کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے مگر ہماری سول سروسز کی تربیت گاہوں میں یہ چیزیں اب ترجیحات میں ہی شامل نہیں۔
بہت جلد دولت مند بننے کے شوقین افسران (جن کی تعداد اب سترفیصد سے بھی بڑھ چکی ہے) سمجھتے ہیں کہ فیلڈاسائنمنٹ میں پیسہ کمانے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں اس لیے وہ ہر قیمت پر فیلڈ میں رہنے کے لیے حکومت کے غیر قانونی احکامات پر عمل کرنے کے لیے بھی تیار ہوجاتے ہیں۔ جہاں تک مالی طور پر ایماندار افسروں کا تعلّق ہے تو انھیں بھی ہر حال میں غیرجانبدار رہنے کی اہمیّت کا ادراک نہیں ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ سول سرونٹس کے لیے غیر جانبداری اتنی ہی اہم ہے جتنی ایمانداری۔ اس لیے وہ غیر قانونی اور غلط احکامات سن کر جرأت ِ انکار کا مظاہرہ نہیں کرپاتے۔
ان سارے واقعات میں کس نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ پولیس اور انتظامیہ بے توقیر اور رُسوا ہوئی، الیکشن کمیشن نے اپنی ساکھ بہتر کی اور حکومت اور خصوصاً عمران خان صاحب کا امیج بری طرحمتاثر ہوا۔
بڑے دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ سول سروسز کو غیر سیاسی بنانے والے عمران خان صاحب کے دکھائے گئے سب خواب، سراب ثابت ہوئے ہیں۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ سروسز کو اس حد تک برباد کیا گیا ہے کہ کسی ایماندار افسر کے لیے بھی غیر جانبدار رہ کر اپنے فرائض ادا کرنا مشکل بنادیا گیا ہے۔