مزاحیہ شاعری کے ورلڈ چیمپئن پروفیسر انور مسعود
شعرو ادب سے دلچسپی رکھنے والے خواتین و حضرات متفق ہیں کہ مزاحیہ شاعری کے ورلڈ چیمپئن پروفیسر انور مسعود ہی ہیں۔ وہ بلاشبہ ایکLiving Legend ہیں۔ صاحبِ علم و دانش، وسیع المطالعہ، جید اسکالر اور اعلیٰ پائے کے استاد۔ وہ اِس وقت ہماری تین بڑی زبانوں اردو، فارسی اور پنجابی (جوہمارے گراں بہا ادبی خزانے کی وارث ہیں) کے سب سے بڑے زندہ شاعرہیں۔
پروفیسر صاحب بلاشبہ طنزیہ اورمزاحیہ شاعری کے ایسے ورلڈ چیمپئن ہیں کہ دُور دُور تک ان کا کوئی مَدِّ مقابل نظر نہیں آتا۔ مگر ان کی بے پناہ عوامی مقبولیّت کے باعث ان کی سنجیدہ شاعری وہ توجّہ حاصل نہیں کرسکی جس کی وہ حق دار تھی۔
دور ِ حاضر میں شعرو ادب سے لگائو رکھنے والے خوش نصیب ہیں کہ انھیں پروفیسر انور مسعود کی صحبتیں میسر ہیں، وہ جب چاہتے ہیں اُن سے مل سکتے ہیں اور ان کی مجلس میں بیٹھ سکتے ہیں۔ میری خوش بختی یہ بھی ہے کہ میں اسی بستی میں رہتا ہوں جہاں انور مسعود صاحب کا گھر ہے، تین سے چار منٹ میں ان کی رہائش گاہ پر پہنچا جا سکتا ہے۔ جب بھی اُن سے ملکرلَوٹتا ہوں تو دامن میں بہت کچھ سمیٹ لاتا ہوں۔ میری اُن سے ارادت مندی کی کئی وجوہات ہیں۔ وہ بہت بڑے تخلیق کار ہیں۔ انھوں نے اپنی فکر چراغِ مصطفوؐی سے روشن کی ہے، وہ وطنِ عزیز سے ٹوٹ کر محبّت کرتے ہیں اور وہ بھی حضرتِ اقبالؒ کو مرشد مانتے ہیں۔ ایک وقت آئیگا جب شعرو ادب کے شائقین بزرگوں سے پوچھا کریں گے کہ "آپ نے انورمسعود صاحب کو دیکھا تھا؟ آپ کبھی اُن سے ملے بھی تھے؟ ان کی باتیں بھی سنی تھیں؟ "
اگر انھیں شعروادب کا سب بڑا ایوارڈ دیا جائے تو یہ اس ایوارڈ کی عزّت افزائی ہو گی۔ اگر ابھی تک نہیں دیا گیا تو یہ حکومتوں کی مجرمانہ غفلت ہے۔ انور مسعود صاحب کے تخلیقی کارناموں پر نظر ڈالیں تو انسان حیران رہ جاتا ہے۔ پنجابی کے عظیم صوفی شاعر میاں محمد بخش کے کلام کا اردو ترجمہ ہی ایک ادبی معجزے سے کم نہ ہے۔ دوضخیم جلدوں پر مشتمل اُنکی یہ کتاب حکومتِ پنجاب نے چھاپی تھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کتاب ملک کی ہر لائبریری میں ہونی چاہیے اس کے علاوہ "فارسی ادب کے چند گوشے" ان کی ایسی کتاب ہے جو فارسی ادب اور شاعری پر ان کی مکمل دسترس کی مظہر ہے۔
انورمسعود صاحب اردو اور پنجابی شاعری کی پندرہ سے زیادہ کتابیں تخلیق کرچکے ہیں۔ ان کی کتاب میلہ اکھیاں دا، کے پچھتر ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں جو ہمارے ملک میں ایک حیرت انگیز ریکارڈ ہے۔ قطعہ کلامی، اور بازیافت، کے بھی درجنوں ایڈیشن چھپ چکے ہیں۔
ان کے طنزیہ اور مزاحیہ کلام اور قطعوں میں ایک Message ہوتاہے، عام آدمی تو صرف مسکراکر یا قہقہہ لگا کر خاموش ہو جاتا ہے مگر دردِ دل رکھنے والے حضرات ان کے پیغام کی روح کو سمجھ کر مسکرانے کے بعد ملول اور دل گرفتہ ہوجاتے ہیں، ؎ قہقہہ کھود کے دیکھو تو تمہیں آہ ملے وہ خود کہتے ہیں۔
بڑے نمناک سے ہوتے ہیں انورؔ قہقہے تیرے
کوئی دیوارِ گریہ ہے ترے اشعار کے پیچھے
کئی بڑے شاعر حسنِ ادائیگی سے محروم ہونے کی وجہ سے مشاعروں میں پِٹ جاتے ہیں۔ خود فیضؔ صاحب کا شعرپڑھنے کا انداز بڑا دھیما اور غیر متاثر کن تھا مگر انورمسعود صاحب کو قدرت نے ادائیگی میں جوملکہ عطاکیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ شعر سنانے کا انداز اتنا دلکش ہے کہ پورا مجمع سمٹ کر ان کی مُٹھی میں آجاتا ہے۔ دیگر خصوصیات کے علاوہ قدرت نے انھیں بلا کاحافظہ عطا کیاہے۔ بڑے بڑے شاعر مشاعروں میں کاغذ اور ڈائری سامنے رکھ کر اپنا کلام سناتے ہیں مگر انور مسعود صاحب مشاعروں اور محفلوں میں بیسیوں نظمیں اور غزلیں کسی کاغذ پر نظر ڈالے بغیر سنا ڈالتے ہیں اور مشاعرے لُوٹ کر لے جاتے ہیں۔ وہ جس مشاعرے میں موجود ہوں، وہاں ہر شاعر کی خواہش ہوتی ہے کہ اسے انور مسعود صاحب کے فوری بعد نہ بلایا جائے۔
غالباً 2004 کی بات ہے جب ہم نے اولڈ راویئنز کے زیرِ اہتمام شگفتہ نثر کے شہنشاہ مشتاق یوسفی صاحب اور طنزیہ اور مزاحیہ شاعری کے ورلڈ چیمپئن انور مسعود صاحب کے ساتھ مشترکہ طور پر شام منانے کا اہتمام کیا۔ تقریب اسلام آباد کلب میں منعقد ہوئی۔ ہال میں جتنے لوگ بیٹھے تھے اتنے ہی کھڑے تھے۔ پہلے یوسفی صاحب اپنی تحریروں کے اقتباس سناتے رہے اور سامعین کے قہقہے گونجتے رہے۔ رات گیارہ بجے کھانے کا وقفہ کیا گیا۔
کھانے کے بعد جب انور مسعود صاحب کو مائیک سنبھالنے کی دعوت دی گئی اسوقت رات کے بارہ بج چکے تھے، مگر ہال حاضرین سے بھرا ہوا تھا۔ میں نے سامعین کو غور سے دیکھا مگر کہیں کوئی تھکاوٹ یا اکتاہٹ نظر نہ آئی، رات ڈیڑھ بجے بھی حاضرین و سامعین اپنی تالیوں اور قہقہوں سے بھر پور داد دے رہے تھے کہ کلب کی انتظامیہ نے آکر ہاتھ باندھ لیے اس لیے تقریب کا اختتام کرنا پڑا۔ تقریب کے بعد بہت سے خواتین وحضرات یہ کہتے سنے گئے کہ آدھی رات کے بعد اسطرح مجمعے کو سنبھالنا بلکہ مُٹھّی میں لے لینا صرف انور مسعود صاحب کا ہی کمال ہے۔ یہ کسی اور کے بس کی بات نہیں۔
شائد لوگ اپنے دکھ اور تلخیاں اپنے قہقہوں میں چھپا نا چاہتے ہیں یاکچھ دیر کے لیے زندگی کی تلخیوں کو بھول جانا چاہتے ہیں اس لیے ہم زیادہ سے زیادہ ہنسنا اور قہقہے لگانا چاہتے ہیں اورکوئی سنجیدہ بات سننے سے گریز کرتے ہیں۔ مگرانور مسعود صاحب کی سنجیدہ شاعری بھی کمال کی ہے۔
ان کے چند سنجیدہ شعر ملاخطہ فرمائیں۔
یہی اندازِ دیانت ہے تو کل کا تاجر
برف کے باٹ لیے دھوپ میں بیٹھا ہوگا
زہر ایجاد کرو اور یہ پیہم سوچو
زندگی ہے کہ نہیں دوسرے سیّاروں میں
کوئی ہوجائے مسلمان تو ڈر لگتا ہے
مولوی پھر نہ بنادے اسے کافر بابا
فارسی زبان میں کہے گئے ان کے چند اشعار ملاخطہ فرمائیں۔
بسے دارم اُطاقِ خواب انور
ولیکن خواب ور دیدہ ندارم
(انور تیرے پاس بہت سے بیڈروم ہیں لیکن تیری آنکھیں نیند سے محروم ہیں)
جزبہ فندیدن برایم چارۂ دیگر نماند
سخت مشکل بود انورؔ درد پنہاں داشتن
(ہنسنے کے سوا میرے پاس کوئی چارہ ہی نہیں رہ گیا تھا۔ انور میرے لیے درد چھپا نا مشکل ہو گیا تھا)
تخلیقِ شعرچسِت فقط کربِ انتخاب
مُشتے گہر گرفتن و دریا گذاشتن
(تخلیقِ شعر کربِ انتخاب کا نام ہے، مُٹّھی بھر موتی لینا اور دریا کو چھوڑ دینا)
ان کے طنزیہ اور مزاحیہ قطعات میں بڑی کاٹ ہوتی ہے وہ معاشرے کی تاریکیوں اور لوگوں کی منفی سوچوں کو بڑے موثّرانداز میں بے نقاب کرتے ہیں۔ ایک قطعہ دیکھیں۔
اس عید پہ قربان کی میں نے جو دُنبہ
اس نیک عمل کا میرے مولامجھے پھل دے
یارب میں نہیں اور کسی چیز کا طالب
جتنا بھی ثواب اس کا ہے ڈالر میں بدل دے
ان کا ایک تازہ قطعہ ہے
بڑے عاجز ہیں تخت و تاج والے
کوئی قیصر نہ کو ئی جَم بڑا ہے
چلوچل کر یہ امریکا سے پوچھیں
کورونا یا کہ ایٹم بم بڑ ا ہے
پنجابی زبان پراُنکی دسترس ملاخط فرمائیں وہ خواب، میں دیکھتے ہیں کہ جنت میں حور یں اُنکی بہت آئو بھگت کر رہی ہیں۔ اس خدمت خاطر کی وجہ انھیں آخر میں معلوم ہوتی ہے۔
ڈِٹّھی میں اک حُور مرے وَل پَیلاں پاندی آوے
اِک نظر مستانی جس دی لکھ بُھلیکھے پاوے
ایڈی سوہنی چھیل چھبیلی جھاتی پاندے ڈریے،
بدل اوہدیاں زُلفاں اگے آکھن پانی بھریے،
دوسرے مصرع میں مشابہت اور حُسنِ بیان کمال کا ہے۔
اوہ چھنّاں اُس آن کے میرے ہوٹھاں نال لگایا،
ہابَڑ ہابَڑ پِین لگا میں ورہیاں دا ترسایا
میں پُچھیا نی حُورو اَڑیو کاہنوں کھِڑ کھِڑ ہَسّو
میری ایڈی خدمت خاطر، وِچلی گل تے دَسّو
آکھن لگیاں بیبا ایڈا پردہ کاہنوں پاناں
جنت وچ الیکشن ہونائے، ووٹ اسانوں پاناں
نُسخہ، ان کی ایسی شاہکار نظم ہے جسکے ہر مصرعے پر قہقہے بلند ہوتے ہیں۔ ملاخطہ فرمائیں۔
اک ڈاکٹر سے مشورہ لینے کو میں گیا
ناسازیء مزاج کی کچھ ابتدا کے بعد
کرنے لگے وہ پھر میرا طبی معائنہ
اک وقفہء خموشیء صبر آزما کے بعد
ضرباتِ قلب و نبض کا جب کر چُکے شمار
بولے وہ اپنے پیڈ پر کچھ لکھ لِکھا کے بعد
ہے آپ کو جو عارضہ وہ عارضی نہیں
سمجھا ہوں میں تفکّرِ بے انتہا کے بعد
لکھا ہے ایک نسخہء اکسیر و بے بدل
دربارِ ایزدی میں شفا کی دُعا کے بعد
لیجیے نمازِ فجر سے پہلے یہ کیپسول
کھائیں یہ گولیاں بھی نمازِ عشاء کے بعد
سیرپ کی ایک ڈوز بھی لیجیے نہار منہ
پھر ٹیبلٹ یہ کھائیے پہلی غذا کے بعد
لینی ہے آپ کو یہ دوا، اِس دواسے قبل
کھانی ہے آپ کو یہ دوا، اِس دوا کے بعد
ان سے خلل پذیر اگر ہو نظامِ ہضم
پھر مکسچر یہ پیجئے اِس اِبتلا کے بعد
لازم ہے پھر جناب یہ انجکشنوں کا کورس
اُٹھیں نہ ہاتھ آپکے گر اِس دوا کے بعد
پھر چند روز کھائیں یہ ننھی سی ٹیبلٹ
کُھجلی اُٹھے بدن میں اگر اِس دوا کے بعد
تجویز کر دیے ہیں وٹامن بھی چند ایک
یہ بھی ضرور کھائیے ان ادویہ کے بعد
چھ ماہ تک دوائیں مسلسل یہ لیجیے
پھر یاد کیجیے گا حصُولِ شفا کے بعد
اک وہم تھا کہ دل میں میرے رینگنے لگا
اُن کے بیانِ نسخہء صحت فزا کے بعد
کیمسٹ کی دکان بنے گا شکم مرا
ترسیلِ ادویہ کی اِس انتہا کے بعد
میں نے کہا کہ آپ مجھے پھر ملیں گے کب
روزِ جزا سے قبل یا روزِ جزا کے بعد
اردو اور فارسی ادب کے نقاد اس بات پر متفق ہیں کہ پروفیسر انور مسعود کی کتا ب "فارسی ادب کے چند گوشے" اتنا بڑا علمی اور تحقیقی سرمایہ ہے کہ صرف یہ تخلیق انھیں ہمیشہ زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے۔
اس کتاب میں ایران کی مشہور باغی اور بیباک شاعرہ فروغِ فرخّ زاد، علامّہ دہخدا، عِشقیؔ، خیامؔ اور اقبالؒ کی فارسی شاعری اور ایرانی معاشرے پر ان کے اثرات کے بارے میں بڑے اعلیٰ معیار کے تحقیقی مقالے اور مضامین شامل کیے گئے ہیں۔
(جاری ہے)