جعفر از بنگال و صادق از دکن
آج برِّصغیر کے مسلمان جن امراض میں مبتلا ہیں، ان میں سب سے بڑا مرض احساسِ کمتری ہے۔ چند سو انگریزوں نے پورا ہندوستان فتح کرلیا اور پھر وہ ڈیڑھ سو سال تک یہاں سیاہ وسفید کے مالک اور حاکم رہے۔ یہاں کے باشندے اپنے آقاؤں سے اس قدر مرعوب ہوئے کہ ان کی ہر چیز کو اعلیٰ اور برتر اور اپنی ہر چیز کو کمتر سمجھنے لگے۔
یہ احساسِ کمتری یہاں کے باشندوں کے رگ وپے میں اس حد تک اتر چکا ہے کہ ان کی تیسری اور چوتھی نسل بھی کمتر ہونے کے احساس سے چھٹکارا حاصل نہیں کرسکی اور آج بھی روانی سے انگریزی بولنے والے کو اسکالر سمجھتی ہے۔ برِّصغیر کے باشندوں کو یہ روگ لگانے والے انگریز یہاں کیسے آئے اور انھوں نے ہندوستان کیسے فتح کیا؟ کیا یہاں کسی نے اپنی آزادی کی حفاظت کرنے اور انگریز سامراج کا راستہ روکنے کی کوشش نہیں کی؟ اگر کوشش کی تو وہ کیوں کامیاب نہ ہوسکی۔
آئیں آج اس پر نظر ڈالتے ہیں اور انگریزوں کا راستہ روکنے کی جدوجہد کرنے والے دو حریت پسند راہنماؤں بنگال کے نواب سراج الدولہ اور جنوبی ہندوستان کی ریاست میسور کے بہادراور جری حکمران سلطان ٹیپو کی جدّوجہد اور ان کی شکست کا جائزہ لیتے ہیں مگر اس سے پہلے بنگال کے انگریز فاتح رابرٹ کلائیو کی زندگی پر ایک نظر ڈالنا بھی ضروری ہے۔
رابرٹ کلائیو 1725میں پیدا ہوا۔ بچپن میں اسے لکھنے پڑھنے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی بلکہ وہ اسکول میں لڑنے بھڑنے والے لڑکوں کے گروہ میں شامل تھا۔ ڈسپلن کی خلاف ورزی اور استادوں کی حکم عدولی اس کی فطرت میں شامل تھی۔
اسے چونکہ پڑھائی میں کوئی دلچسپی نہیں تھی اس لیے اس کے والد نے اسے ایسٹ انڈیا کمپنی میں بطور محرّر ملازم رکھوادیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی اُس وقت ایک عام سی تجارتی کمپنی تھی۔ کمپنی کے کارندوں نے ہندوستان میں جو کارخانے قائم کرلیے تھے، اُن کے گرد چند مربع میل زمین تھی، اور برِّصغیر میں یہی اس کمپنی کا کل علاقہ تھا۔ یہاں کی مقامی حکومتوں کو اس زمین کا لگان ادا کیا جاتا تھا۔
کمپنی کے پاس ایک چھوٹی سی فوج تھی جس میں زیادہ تر ہندوستانی سپاہی تھے، ان کے پاس ہتھیار تک درست نہ تھے، ان کا کام پہرا دینا اور چند کمزور سے قلعوں کی جو گوداموں کو محفوظ کیے ہوئے تھے، حفاظت کرنا تھا۔ اس وقت ہندوستان فتح کرنے کا خیال بڑے سے بڑے بہادر اور با ہمّت انگریز کے دل میں بھی پیدا نہیں ہوسکتا تھا۔ جس صوبے میں ان کے کارخانے تھے وہاں کے فرمانروا کو وہ اپنا سردار تصوّر کرتے تھے۔
اُس کے زیرِ سایہ، اُس کی زمین پر تابعدار بن کر رہنا اور پابندی سے کرایہ ادا کرنا اُن کا معمول تھا اور اسی پر وہ قانع تھے۔ رابرٹ کلائیو جیسے نوجوان شخص کے لیے ہند کی سرزمین میں کوئی دلکشی نہیں تھی۔ وہ خدمت پر مقرر ہو کر آیا تھا، اس کا کام صرف محرّری تھا حسابات درست رکھنا، جہازوں میں مال بھرنا، پیشگی روپیہ ادا کرنا محرر کے فرائض میں شامل تھا۔ تنخواہ کم تھی روزمرّہ کا کام نہایت بے لطف تھا البتہ برسوں کی جانفشانی کے بعد پرانے محرروں کو ذاتی طور پر تجارت کرنے اور اس سے دولت کمانے کا موقع مل جاتا تھا یہاں کی آب وہوا میں انگریزوں کے قویٰ بری طرح متاثر ہوتے تھے۔
کلائیو نے 1743میں انگلستان چھوڑا۔ اُس کا سفر نہایت طولانی اور سخت تکلیف دہ رہا۔ جس جہاز میں وہ سوار تھا وہ راستے میں نو مہینے رکا رہا اور بالآخر 1744کے اواخر میں مدراس پہنچا۔ جو کچھ روپیہ اُس کے پاس تھا، وہ اس عرصہ میں صرف ہوگیا اور جہاز کے کپتان سے نہایت سخت شرح سود پر روپیہ لینا پڑا۔ مدراس میں جس شخص کے نام وہ تعارف کا خط لایا تھا وہ بھی وہاں سے روانہ ہوچکا تھا۔
کلائیو بڑا متلوّن مزاج اور جذباتی تھا، اس نے ایک بار خودکشی کرنے کی بھی کوشش کی تھی۔ وہ بنیادی طور پر عسکری مزاج رکھتا تھا۔ چنانچہ انگریزوں اور فرانسیسیوں کی لڑائی میں اسے پہلی بار اپنی صلاحیّتیں دکھانے کا موقع ملا، جس کے نتیجے میں اسے بہت شہرت ملی۔ بنگال میں اس کی صحت خراب ہونے لگی تو وہ انگلستان واپس چلا گیا مگر بنگال سے خاصی دولت سمیٹ کر ساتھ لے گیا۔ کچھ دیر اس نے وہاں سیاست کرنے کی کوشش کی مگر بات نہ بنی تو اسے لیفٹیننٹ کرنل کا عہدہ دے کر دوبارہ ہندوستان بھیج دیا گیا، ساتھ ہی اسے فورٹ سینٹ ڈیوڈ کا گورنر بنادیا گیا۔
بنگال کے نواب علی وردی خان کی نرینہ اولاد نہیں تھی لہٰذا اس نے اپنی سب سے چھوٹی بیٹی کے فرزند سراج الدّولہ کو اپنا جانشین مقرر کردیا جو 1756میں نانا کی وفات کے بعد بنگال کا نواب بنا۔ اُس وقت مدراس کے علاوہ کلکتہ سب سے بڑا شہر اور تجارتی مرکز تھا جہاں ایسٹ انڈیا کمپنی نے دفاتر قائم کررکھے تھے۔ جب انگریزوں نے بلااجازت کلکتہ شہر میں قلعے بنانے شروع کردیے تو نواب سراج الدّولہ نے انھیں منع کیا، انگریز باز نہ آئے تو سراج الدّولہ نے کلکتہ پر حملہ کرکے قلعے اور شہر پر قبضہ کرلیا۔ اُس وقت ایسٹ انڈیا کمپنی اور انگریزوں کا گڑھ مدراس تھا۔
انگریزوں نے کلائیو کی کمان میں فوج بھیجی جس نے کلکتہ کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرلیا۔ اس وقت بنگال کے صوبے میں بہار اور اڑیسہ کے علاقے بھی شامل تھے اور یہ خطّہ جغرافیائی اور تجارتی اعتبار سے بے حد اہمیّت کا حامل تھا۔ اس کی زمین بہت زرخیز تھی چاول اور گنّے کے علاوہ کپاس کی پیداوار بھی بہت تھی۔ کپڑے کی صنعت عروج پر تھی اور لوگ خوشحال تھے۔
1719میں محمد شاہ مغل سلطنت کے فرمانروا بنے تو مرشد قلی خان کو بنگال کا گورنر بنادیا اور انھیں صوبائی دارالحکومت مخصوص آباد کا نام تبدیل کرکے مرشدآباد رکھنے کی اجازت دے دی گئی۔ اس کے دور میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے پورے ہندوستان میں اور خصوصاً بنگال میں اپنا تجارتی، سیاسی اور عسکری اثرورسوخ بڑی تیزی سے بڑھایا۔ نواب سراج الدّولہ کی انگریزوں کے ساتھ فیصلہ کن جنگ مرشد آباد سے 27میل دور پلاسی کے مقام پر ہوئی۔
انگریزوں نے سراج الدولہ کی فوج کے اندر سے غدار ڈھونڈ لیے اور انھیں لالچ دے کر اپنے ساتھ ملالیا۔ یہاں انگریزوں نے سراج الدولہ کے سپہ سالار میر جعفر کے ساتھ ساز باز کی اور اسے لالچ دیا کہ اگر وہ انگریزوں کا ساتھ دے تو سراج الدّولہ کو معزول کرکے میر جعفر کو بنگال کا حکمران مقرّر کردیا جائے گا۔ جنگ سے ایک روز قبل کلائیو کے نمایندوں کی میر جعفر اور میر صادق سے میٹنگ ہوئی جس میں معاہدہ طے پاگیا۔
میر جعفر 1691کو دہلی میں پیدا ہوا۔ اس کے والد کا نام سید احمد نجفی تھا۔ اس کا دادا نجف (عراق) سے ہندوستان آکر آباد ہوا تھا۔ بنگال کے نواب علی وردی خان کے دور میں میر جعفر بنگال آگیا، علی وردی کی بیوی میر جعفر کی پھوپھی لگتی تھی۔ میر جعفر کی حرکتوں کی وجہ سے علی وردی خان نے اسے معزول کردیا اور وہ دو سال تک معزول رہا۔ لیکن بعد میں پھر اسے سپہ سالار کے عہدے پر بحال کردیا گیا۔ علی وردی خان کے نواسے نواب سراج الدولہ جب بنگال کے نواب بنے تو اس وقت میر جعفر ان کی فوج کا سپہ سالار تھا۔
نواب سراج الدولہ میر جعفر کو ہمیشہ شک کی نظروں سے دیکھتا تھا۔ ایک بار نواب نے میر جعفر کو بغاوت میں ملوث ہونے پر قید بھی کردیا تھا اور اس وقت نائب سپہ سالار میر مدن نے سراج الدولہ کی فوجی کمان سنبھالی۔ پلاسی کی جنگ سے ایک دن پہلے کلائیو کے نمایندے مسٹر واٹس اور میر جعفر کی خفیہ ملاقات ہوئی جس میں تمام باتیں طے پاگئیں اور غدارِ ملت میر جعفر نے نواب بننے کے لالچ میں نواب سراج الدولہ سے غداری کرنے اور لڑائی میں حصّہ نہ لینے کا وعدہ کرلیا۔ اس خفیہ معاہدے کے مطابق میر جعفر نے سراج الدولہ کے بعد حکومت سنبھالتے ہی ایسٹ انڈیا کمپنی کو ایک کروڑ روپے ادا کرنے کے علاوہ فورٹ ولیم میں بنگال کی حکمرانی کے لیے میر جعفر کا نام تجویز کرنے والی کمیٹی کے ہر رکن کو 12 لاکھ روپے اور برطانوی فوج کو 40 لاکھ روپے دینے کی شرط تسلیم کرلی۔
جنگ میں نواب کے سپہ سالار میر مدن شہید ہوگئے۔ نواب نے مشاورت کے لیے اپنے سالاروں سے میٹنگ کی تو میر جعفر نے اسے نہ لڑنے اور پسپائی اختیار کرنے کا مشورہ دیا جو اس نے مان لیا اسی سے جنگ کا فیصلہ ہوگیا اور ہندوستان پر انگریزوں کی مکمّل حاکمیت کا دروازہ کھل گیا، اگر میر جعفر غداری نہ کرتا تو فیصلہ یقیناً مختلف ہوتا، انگریز بنگال میں شکست کھا جاتے تو پھر وہ ہندوستان پر قبضے کا خواب کبھی نہ دیکھتے۔ میر جعفر کے لالچ اور غدّاری کی وجہ سے بنگال سے مسلمانوں کی حکومت ختم ہوگئی اور پورے برِّصغیر پر انگریزوں کے قبضے کا راستہ ہموار ہوگیا جو 190 سال تک برقرار رہا۔
میر جعفر صرف نام کا کٹھ پتلی سا نواب تھا جسے انگریزوں نے بہت جلد معزول کردیا اور اس کے داماد میر قاسم کو نواب بنادیا مگر اختیارات لارڈ کلائیو کے پاس رہے۔ اہلِ بنگال نے میر جعفر کی رہائش گاہ کا نام نمک حرام ڈیوڑھی، رکھ دیا ہے اور اُس پر آتے جاتے لعنتیں ڈالتے ہیں۔ علّامہ اقبال کا لازوال شعر ہے۔
جعفر از بنگال وصادق از دکن
ننگِ ملّت ننگِ دیں ننگِ وطن