حکومت کی پسپائی اور پولیس کی جگ ہنسائی
چند روز پہلے چار ریٹائرڈ آئی جی صاحبان افطاری پر اکٹھے ہوئے تو حالیہ واقعات پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک نے کہا، "ہم نے سیکڑوں بار یورپ میں ہونے والے پرتشدد ہنگاموں اور بلوؤں کی وڈیوز دیکھی ہیں، کبھی یہ دیکھنے میں نہیں آیا کہ کسی موقعہ پر سیکڑوں کی تعداد میں پولیس اہلکار زخمی ہوجائیں یایرغمال بنالیے جائیں "۔
دوسرے آئی جی صاحب نے کہا، " وہاں بعض اوقات پولیس پیچھے ضرور ہٹتی ہے (مگر ایک منظم طریقے سے) یعنیretreat تو ہوتی ہے مگر یہ کبھی نہیں دیکھا کہ پولیس آگے آگے بھاگ رہی ہو اور بلوائی اس کا پیچھا کررہے ہوں۔
اس سے پولیس کا مذاق اڑتا ہے اور اس کے بارے میں انتہائی منفی تاثر پیدا ہوتا ہے"۔ تیسرے تجربہ کار پولیس افسر نے کہا، "جس شہر میں بیسیوں پولیس ملازمین ایک غیر منظم گروہ کے ہاتھوں زخمی ہوجائیں تویہ سمجھ لینا چاہیے کہ وہاں پولیس کے کمانڈر نااہل ہیں جو پولیس کو ایسی صورت حال سے نپٹنے کی تربیت ہی نہیں دے سکے"۔ چوتھے پولیس افسر نے ماضی کے تجربات شیئر کرتے ہوئے کہا، " دو دہائیاں بیت چکیں، ایک حسّاس اِشو پرروزانہ جلوس نکلتے تھے۔
جلوس نکالنا شہریوں کا حق ہے مگر دوسرے شہریوں کا حق چھیننے اور دوسروں کو آزادی سے محروم کرنے کا انھیں کوئی حق نہیں ہے اور ریاست اس کی اجازت نہیں دے سکتی۔ جلوس اور ریلیاں نکلتی رہیں مگر جب انھوں نے راستے بند کردیے، بچوں کے لیے دودھ کی ترسیل بند ہوگئی اور مریضوں کو اسپتال پہنچانا ناممکن ہوگیا تو پھر پولیس کو نئی صورتحال کے لیے تیّار کیا گیا۔
رات کو پولیس لائنز میں ضلع بھر کی پولیس جمع تھی اور ضلع سربراہ ان سے مخاطب ہوا، " آپ شہریوں کے جان ومال اور عزّت و آبرو کے محافظ ہیں اور ایک انتہائی مقدس فریضہ سر انجام دے رہے ہیں، آپ جانتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے راستے بند کرکے شہریوں کو عذاب میں مبتلا کردیا ہے جوکہ نبی کریمﷺ کی تعلیمات کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔"
رات کو حکمتِ عملی طے کرلی گئی۔ دوسرے روز راستہ بند کرنے والوں کو ایک بارعب پولیس افسر نے میگافون پر پورے اعتماد کے ساتھ وارننگ دیتے ہوئے کہا "آپ لوگ راستہ کھول دیں تاکہ شہریوں کی مشکلات کم ہوں، ہمارے پیارے نبی کریمﷺ نے فرمایا تھاکہ راستے بند کرنے والوں کا جہاد بھی قبول نہیں ہوگا۔ راستے بند کرکے عوام کو عذاب میں مبتلا کرنے والے رحمت اللعالمینؐ کے پیروکار نہیں ہوسکتے"۔ اس پر کچھ ڈنڈا بردار حملہ آور ہونے کے لیے پولیس کی جانب بڑھے، جس پر پولیس کا نیا دستہ پورے جوش سے نعرے لگاتا ہوا نمودار ہوا۔ رہبرو رہنما …مصطفٰےؐ، مصطفٰےؐ۔
ان نعروں کی گونج سے دھرنے والوں کے ہوش اُڑ گئے، پولیس کے جوانوں میں جوش اور ولولہ بھی زیادہ تھا اور ان کے ڈنڈے بھی زیادہ مضبوط تھے۔ میگافون والے پولیس افسر کی وارننگ اور پولیس کے نعرے سن کر مقامی لوگ (جو پہلے ہی فسادیوں سے تنگ تھے) بھی باہر نکل آئے اور انھوں نے بھی پولیس کا ساتھ دیا، پندرہ سے بیس منٹ کے آپریشن میں کچھ miscreants گرفتار ہوئے اور زیادہ تر بھاگ گئے اور راستے کھل گئے"۔ تمام تجربہ کار افسروں کا اس پر اتفاق تھا کہ پولیس کمانڈ کا معیار بہت پست ہوچکا ہے۔
حکومت ان سے صرف وفاداری چاہتی ہے، ان کی ایمانداری، پیشہ وارانہ اہلیت اور اعلیٰ تربیت نہ حکومت کی ترجیحات میں ہے اور نہ ہی پولیس لیڈر شپ کی اس پر کوئی توجہ ہے۔ پولیس کا ہجوم کے آگے بھاگنا یا ان کے ہاتھوں یرغمال بن جانا ہمدردی یا عزّت کا نہیں توہین اور تشویش کا موجب ہے، عوام سوچتے ہیں کہ جوپولیس اپنی حفاظت نہیں کرسکتی ہماری کیا کرے گی۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ لاہور کے واقعہ کے بعد پنجاب کی پولیس لیڈر شپ سر جوڑ کر بیٹھتی، اندرونی خامیوں کی نشاندہی کی جاتی، ہر ضلعے میں پُرتشدد (violent) ہجوم کو کنٹرول کرنے کی ٹریننگ شروع ہوجاتی۔ Mob Controlکے لیے ضروری equipment منگوایا جاتااور آیندہ بھرتی کے لیے جسمانی فٹنس کا معیار بلند کرنے کا فیصلہ ہوتا، مگر وہاں ترجیحِ اوّل ایک ہی ہے کہ حکمران جماعت کے سیاسی مقاصد پورے کیے جائیں تاکہ عہدہ قائم رہے۔
کچھ پولیس افسروں کا یہ بھی خیال ہے کہ یورپ میں بلوائیوں کے سامنے پولیس اس لیے ڈٹ کر کھڑی ہوتی ہے کہ اسے نہ صرف حکومت کی پوری طاقت بلکہ عدلیہ کا بھی مکمل تعاون حاصل ہوتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں پولیس اس لیے پاؤں نہیں لگاتی کہ اگر ہجوم کو کنٹرول کرنے میں معمولی سی بھی بے احتیاطی ہوگئی یا فورس زیادہ استعمال ہوگئی تو حکم دینے والے حکمران منہ موڑ لیں گے بلکہ پولیس کے شہیدوں کا خون بھی بیچ دیں گے اور پولیس افسروں کو اپنی جائیدادیں بیچ کر مقدمے بھگتنے پڑیں گے۔
مشتعل لوگوں کے ہاتھوں بیسیوں پولیس اہلکاروں کے زخمی ہونے پر جو سروے ہوئے ہیں وہ بھی تشویشناک اور پریشان کن ہیں۔ کچھ لوگوں نے مذمت بھی کی ہے مگر کچھ نے یہ بھی لکھاہے کہ پولیس والے بھی عوام کی اسی طرح تذلیل کرتے ہیں ! پولیس لیڈر شپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ سب سے بڑا مسئلہ پولیس کی ساکھ اور اعتماد کا ہے، مشکوک ساکھ کی وجہ سے وہ عوام کے اعتماد سے محروم ہے۔ صدافسوس کہ اتنی تذلیل کے بعد بھی پولیس نے اپنا طرزِعمل نہیں بدلا۔ گرفتار شدگان پر تھانوں میں تشدد کرنا اور ان سے پنجاب پولیس زندہ باد کے نعرے لگوانا غیر قانونی حرکت ہے جو ایک پروفیشنل اور ڈسپلنڈ ادارے کے شایانِ شان نہیں ہے۔ آج ایک وڈیو ملی جس میں پولیس اہلکار غریبوں کی ریڑھیاں اُلٹ رہے ہیں۔
پولیس کے سینئر افسران انھیں ایسی حرکتیں کرنے سے منع کریں۔ ریڑھیاں اُلٹانے یا ماسک نہ پہننے والوں کوتھپڑ مارنے سے عوام مزید متنفّر ہوں گے۔ ایسے کام ڈی سی یا میونسپل کمیٹی کا عملہ کرتا پھرے، پولیس کے گن مین صرف اُن سول افسران کو دیے جائیں جو قانونی طور پر اس کے حقدار ہیں، تحصیل لیول کے سول افسروں کو کس قانون کے تحت باوردی گن مین مہیّا کیے گئے ہیں؟ باوردی پولیس افسروں کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ کسی سول افسر پر چھتری کا سایہ کرکے کھڑارہے یا کسی کی جیپ یا کار کا دروازہ کھولے۔ بدقسمتی سے غلامانہ ذہنیت کے افسروں نے پوری فورس کوغلام بنادیا ہے۔
پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ ضلع اور ڈویژنل افسران نے عوام کو امن اور انصاف دینے اور تھانوں میں بہتری لانے کا اصل کام چھوڑ کر سوشل میڈیا پر پوسٹیں لگانے کا کام شروع کررکھا ہے، اگر ایک ڈی پی او نے اپنے دفتر کے عملے میں انعامات تقسیم کیے ہیں تو اس نے کونسا کارنامہ سرانجام دے دیا ہے کہ وہ پورے ملک سے داد کا طلبگار ہے، ایک اور پولیس افسر ماتحتوں کے ساتھ افطاری کرکے PROسے لکھوا رہا ہے کہ "ایس پی صاحب کتنے ماتحت پرور ہیں "۔
ماتحت پرور اُسے کہا جاتا ہے جو ماتحتوں کو کھلی چھٹی دے دے اور ان کا احتساب نہ کرے۔ او بھائی تمھاری پہچان ماتحت پروری نہیں، انصاف پروری کے حوالے سے ہونی چاہیے، تمہارے ماتحت افسر مخلوقِ خدا کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں، ان میں راشی اور بداخلاق بھی ہوں گے اور آپ ان کے نگران ہو، آپ نے عوام کو ان کی زیادتیوں سے بچانا ہے۔
پولیس افسرکام اپنے ماتحتوں کے ساتھ دوستی لگانا نہیں ان کی نگرانی موثربنانا ہے۔ تاکہ ماتحتوں کے دل میں افسر کا ڈر اور خوف رہنا چاہیے۔ ہاں اگر کوئی وزیر یا وزیرِاعلیٰ بھی پولیس افسرکے کسی ماتحت کے ساتھ ناجائز زیادتی کرے تو پھر پولیس افسر کا فرض ہے کہ اپنے ماتحت کے ساتھ کھڑا ہوجائے۔ زیادہ تر افسرجائز کام کرنے پر تو اپنے ماتحتوں کا تخفّظ نہیں کرتے مگر ان کے ساتھ تصویریں بنواتے رہتے ہیں۔
اوّل توآجکل رزقِ حلال کھانے والے افسر (ہر سروس میں یہی حال ہے) ڈھونڈنے پڑتے ہیں، اگر کوئی مل جائے تو وہ بیچارہ اتنا مسکین ہوتا ہے کہ گھاگ قسم کے ڈی ایس پی اور تھانیدار اسے بیوقوف بناتے اور انگلیوں پر نچاتے ہیں۔ ٹرانسفر ہونے پر ڈی پی اوز کی ایسی وڈیوز بھی دیکھی ہیں جن میں تبدیل شدہ ڈی پی او کو پگ پہنا کر گھوڑے پر بٹھادیا گیا ہے اور ساتھ گانا چل رہا ہے ویر میرا گھوڑی چڑھیا،۔
حال ہی میں منڈی بہاؤالدین سے ایک ایماندار اور منصف مزاج ڈی پی او کو حکومت کی اتحادی جماعت نے ٹرانسفر کرادیا، یہ سلسلہ پنجاب میں باقاعدگی سے چل رہا ہے، یقیناً ایسی ٹرانسفر پوسٹنگز وزیرِاعظم صاحب کے علم میں بھی لائی جاتی ہوں گی مگر پولیس کے سینئر افسر اس پرکوئی اسٹینڈ نہیں لیتے۔ بہرحال تبدیل ہونے والا افسر دیانتدار تو ہے۔
البتہ اس کی الوداعی تقریب میں اسے ہار پہنا کر بٹھا دیا گیا ہے اور تھانیداروں اور دوسرے ماتحتوں کی موجودگی میں ایک اہلکار گانا گا رہا ہے، "آج جانے کی ضد نہ کرو۔ ٹرانسفر کی تقریبات کا ایک SOP ہونا چاہیے۔ میں ٹرانسفر ہونے پر پولیس لائنز میں فورس سے ملنے ضرور جاتا تھا، مگرنہ کسی کو ہار پہنانے کی اجازت تھی اور نہ کبھی ماتحتوں کی طرف سے کھانے کھاتا تھا۔ پولیس کے نیچے سے لے کر اوپر تک تمام افسروں کو چاہیے کہ وہ اپنے بہتر عمل سے اپنی ساکھ بہتر بنائیں تاکہ عوام کا ان پر اعتماد قائم ہو اور ان کی یونیفارم تحفظ اور عزت کی علامت بن سکے۔