غزہ کے ملبے تلے انسانیت دفن ہوچکی
لہولہان غزہ کے ملبے تلے صرف انسان نہیں پوری انسانیت دفن ہوچکی۔ ایسی درندگی اور مغرب کی ایسی شیطان پرستی نہ کبھی دیکھی نہ سنی اور وہ بھی اکیسویں صدی میں۔ غزہ پہلے جیل تھی، اب قبرستان بن چکا ہے، اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کے ہاتھ ہزاروں معصوم بچوں کے خون سے سرخ ہوچکے ہیں۔
زمانۂ طالب علمی میں کسی تقریب سے پہلے جب احمد ندیم قاسمی کی نعت کا یہ شعر پڑھا جاتا تھا کہ ایک بار اور بھی بطحا سے فلسطین میں آراستہ دیکھتی ہے مسجد اقصیٰ تیرا۔ تو رگوں میں خون کی گردش تیز ہوجاتی تھی، اب اسرائیل کی شیطانیت آنکھوں کے سامنے ناچ رہی ہے، ہمارے سامنے ہمارے جسم کے ایک حصے کو کاٹا جا رہا ہے مگر دوسرا حصہ مکمّل طور پر بے حس ہے۔
مسلمان ملکوں کے حکمران اور عوام دونوں غلامی، بے حسی اور مصلحت کی چادر اوڑھے اپنی موج مستیوں میں مگن ہیں، دو ارب مسلمانوں کے سوز اور عشق کا جذبہ ٹھنڈا پڑچکا ہے اور اب حالت یہ ہے کہ بقولِ اقبالؒ ؎
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے، مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے۔ مگر مسلمان ملکوں کے عوام میں اب بھی کہیں کہیں وہ لوگ موجود ہیں کہ ؎
جن کی خاکستر میں ہے اب تک شرارِ آرزو
کشمیر کے مسلمانوں پر ہندوستان کے مظالم کی بات ہو یا فلسطینیوں پر اسرائیل کے جبر اور درندگی کی، پاکستان میں جماعتِ اسلامی اس پر بھرپور آواز بلند کرتی ہے۔ اس بار بھی جماعتِ اسلامی نے مختلف شہروں میں ریلیاں نکالیں، کراچی میں ملین مارچ کا اہتمام کیا اور وفاقی دارالحکومت میں"قومی فلسطین کانفرنس" منعقد کی۔
سید ابواعلیٰ مودودیؒ (جن کی فکر، پیغام اور تفہیمِ قرآن سے پوری مسلم دنیا متاثر اور مستفیض ہوئی ہے) کے جانشینوں سے یہی توقّع کی جاتی ہے کہ وہ دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کا پرچم ہمیشہ بلند رکھیں گے۔ چند روز قبل جماعتِ اسلامی کے ڈائریکٹر امورِ خارجہ آصف لقمان قاضی صاحب نے قومی فلسطین کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی، اس سے پہلے وہ کشمیر پر بھی اس نوعیّت کی کانفرنسیں منعقد کرواتے رہے ہیں۔
محترم سراج الحق صاحب کا تاکیدی پیغام بھی پہنچ گیا لہٰذا میں کانفرنس میں شرکت کے لیے اسلام آباد کے معروف ہوٹل میں پہنچ گیا، تقریباً تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے مرکزی رہنما موجود تھے۔ مسلم لیگ ن، کی طرف سے راجہ ظفر الحق صاحب اور احسن اقبال صاحب شریک ہوئے اور پیپلز پارٹی اور جمیعت العلمائے اسلام کی نمایندگی ان کے مرکزی سیکریٹری جنرل صاحبان نے کی۔ باقی جماعتوں کے لیڈروں کے علاوہ پی ٹی آئی اور ق لیگ کے نمایندے بھی موجود تھے۔
سول اور ملٹری کے چند ریٹائرڈ افسروں اور کچھ ریٹائرڈ سفارتکاروں نے بھی کانفرنس میں شرکت کی۔ میڈیا کی بھی بھر پور نمایندگی تھی۔ جماعت کے نائب امیر محترم لیاقت بلوچ صاحب اور آصف لقمان صاحب نے اسٹیج سیکریٹری کے فرائض سنبھال لیے، وہ مقررین کو دعوتِ خطاب دینے کے ساتھ ساتھ وقت کی پابندی کی بھی تاکید کرتے رہے۔
مجھے بھی اظہارِ خیال کی دعوت دی گئی۔ میں نے اختصار کے ساتھ مظلوم فلسطینیوں پر ٹوٹنے والی قیامت، امریکا اور مغربی ممالک کی جانب سے اسرائیلی جرائم کی سرپرستی اور مسلم ممالک کی بے حسی اور خاموشی پر بات کی اور آخر میں تجویز کیا کہ او آئی سی کا سربراہی اجلاس بلایا جائے جو اسرائیل کے سرپرستوں پر دباؤ ڈال کر اس کی وحشتناک کاروائیاں رکوائے اور فوری طور پر ریڈ کراس اور دوسری تنظیموں کے تعاون سے غزہ میں مظلوم فلسطینیوں کے لیے طبی امداد، پینے کا پانی، خوراک اور خیمے بھیجنے کا بندوبست کیا جائے۔
سابق سفیر عبدالباسط صاحب نے مسئلہ فلسطین اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور معاہدوں کی تاریخ پر روشنی ڈالی اور اچھی تجاویز پیش کیں۔ سابق سفیر جاوید حفیظ صاحب نے بھی مختصر اور جامع بات کی۔ راجہ ظفر الحق صاحب نے بتایا کہ ہمارا فلسطین اور فلسطینیوں کے ساتھ رشتہ بہت پرانا ہے جو کبھی کمزور نہیں ہوسکتا۔
ایران جس طرح کھل کر فلسطینیوں کی حمایت کرتا ہے اور اسرائیل کو للکارتا ہے، شرکاء کی اکثریت نے اس کی بھرپور تحسین کی۔ ایران پر امریکا اور یورپ نے اقتصادی پابندیاں لگا رکھی ہیں مگر ایران کی قیادت خاص طور پر سپریم لیڈر سید علی خامینائی نے ان پابندیوں کی کبھی پرواہ نہیں کی اور اسرائیل کی شیطانیت کی ہمیشہ بھرپور مذمّت کی ہے۔
اے این پی کے نمایندے نے اپنی تقریر میں جب قرآنی آیات اور اقبالؒ کے اشعار پڑھے تو بڑی خوشگوار حیرت ہوئی، میں نے انھیں خاص طور پر مبارک باد دی۔ محترمہ سمیعہ راحیل قاضی صاحبہ نے خواتین کی نمایندگی کے لیے سینیٹرڈاکٹر کوثر فردوس صاحبہ کا نام تجویز کیا جنھوں نے بہت مدلّل اور پر اثر باتیں کیں۔
جنرل مشرّف نے پارلیمنٹ میں خواتین کی نشستیں (غیر ضروری طور پر) ان ترقی یافتہ ممالک سے بھی بڑھادیں تھیں جہاں خواتین کی شرحِ خواندگی سو فیصد ہے۔ ہمارے ہاں اگر دو سگے بھائی یا باپ بیٹا اسمبلی کے ممبر ہیں تو انھوں نے خواتین کی سیٹ بھی گھر سے باہر نہیں جانے دی اور اس پر اپنی گھریلو قسم کی بیوی کو منتخب کروالیا جو پورے سیشن میں خاموش رہ کر نئے ریکارڈ قائم کرتی رہیں، پارلیمنٹ میں محترمہ سمیعہ راحیل قاضی اور ڈاکٹر کوثر فردوس جیسی باوقار، باکردار اور اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین ہونی چاہیئں۔ انھوں نے اپنے دور میں پارلیمنٹ کی کارروائی اور قانون سازی میں بھرپور حصہ لے کر خواتین کی صحیح نمایندگی کی اور ان کی وجہ سے پارلیمنٹ کے وقار اور اعتبار میں بھی اضافہ ہوا۔
جماعتِ اسلامی کے کچھ افراد سے یا اس کی کچھ سیاسی پالیسیوں سے تو لوگوں کو اختلاف ہوسکتا ہے مگر اس کی خدمتِ خلق کی تنظیم "الخدمت" کے سبھی گن گاتے ہیں اور جماعت کے مخالف بھی اس کی کارگردگی اور خدمات کے معترف ہیں۔
الخدمت کے صدر ڈاکٹر حفیظ الرّحمٰن صاحب نے بتایا کہ الخدمت کے اوورسیز چیپٹر کے سربراہ جناب عبدالشکور صاحب استنبول میں ہیں اور جونہی راستے کھلنے کا اعلان ہوا وہ اور ان کی ٹیم فوری طور پر مصر کے راستے سے غزہ پہنچیں گے اور اپنے مظلوم بھائیوں بہنوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کریں گے بعد میں ڈاکٹر صاحب سے تفصیلی ملاقات ہوئی جس میں انھوں نے بتایا کہ اس بار عطیات دینے والوں کے لیے پیغام یہ ہے کہ وہ صرف کیش دیں، کیش کے ذریعے قریبی ملک مصر سے ضروری اشیاء اور سامان خرید کر غزہ پہنچایا جائے گا، کل کچھ دوستوں نے عطیات الخدمت کے حوالے کیے ہیں۔
کانفرنس کے آخر میں محترم سراج الحق صاحب نے مسئلہ فلسطین پر بڑی جاندار گفتگو کی اور راجہ ظفر الحق صاحب جیسے بزرگ سیاستدان کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنادی (لیاقت بلوچ صاحب اس کے کوآرڈینیٹر ہیں) جو اہم ممالک کے سفیروں کو اس مسئلے کی سنگینی اور ان کی ذمے داریوں سے آگاہ کرے گی۔ میری اطلاع کے مطابق کمیٹی نے اپنا کام شروع کردیا ہے۔
اُدھر وادیٔ سینا میں کربلا بپا ہے، کئی ہفتوں سے دودھ اور پانی سے محروم بچے ملبے میں دبی ماؤں کو ڈھونڈ رہے ہیں، مائیں اپنے جگر گوشوں کی لاشیں اٹھائے چلّا چلّا کر پوچھ رہی ہیں کہ کیا اس دنیا میں کوئی انسان نہیں، جو اس ظلم کو روکیں؟"مہذب" کہلانے والے اور انسانی حقوق کے جعلی علمبرداروں کے چہروں سے نقاب اتر چکے ہیں۔
حیرت ہے کہ اکیسویں صدی میں اس قدر عریاں درندگی کی سرپرستی کرتے ہوئے بھی امریکی اور یورپی حکمرانوں کا ضمیر انھیں ملامت نہیں کرتا۔ وہ معصوم بچوں کا قتل عام کرنے والے قاتل کو روکنے کے بجائے اسے مزید اسلحہ اور جنگی سامان فراہم کررہے ہیں۔
مسلمان جو راکھ کا ڈھیر بن چکے ہیں صرف آسمانوں کی جانب دیکھ رہے ہیں کہ شاید آسمانوں سے پھر کوئی عمر فاروق بھیج دیا جائے اوپر سے پھر کوئی خالد بن ولید یا صلاح الدین ایوبی اتر آئے جو مظلومو ں کے ہاتھ کاٹ دے، لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ قدرت ایسے غیر معمولی انسان غیرت مند قوموں میں بھیجتی ہے۔ ہمارے جیسی پست کردار قوموں کے حصے میں ڈرامے باز اور جعلی مرشد ہی آتے ہیں۔
ایس ایم ظفر صاحب کی وفات
جناب سید محمد ظفر صاحب غیر معمولی قابلیّت کے حامل قانون دان، محبِ وطن دانشور اور ایک باوقار اور انتہائی شائستہ انسان تھے۔ وہ مخاصمت اور نفاق کے مخالف ایک صلح جو شخص تھے جو اپنی تحریروں اور تقریروں میں ہمیشہ امید دلاتے اور ملک کے روشن مستقبل کی نوید سناتے تھے۔
میرا ذاتی طور پر ان سے بڑٖا دیرینہ تعلق تھا، اس لیے ان کا انتقال میرے لیے ذاتی صدمے کا موجب ہے۔ ان کے جنازے میں سپریم کورٹ کے ججوں اور اہم حکومتی شخصیات کی غیر موجودگی پر افسوس ہوا۔ شاہ صاحب پر جلد تفصیلی کالم لکھوں گا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائیں۔