دو تشویش ناک واقعات
پارٹی اور قیادت سے وفاداری اہم ہے کہ وفاداری کے بغیر سیاسی استحکام پیدا نہیں ہوسکتا۔ مگر کیا یہ وفاداری ملک سے بڑھ کر ہونی چاہیے؟ کیا پارٹی قائدین اپنے ممبران کی تربیّت نہیں کرتے، اور کیا انھیں یہ بات صاف لفظوں میں نہیں بتاتے کہ ملک سے وفاداری اور محبّت ہر چیز پر مقدّم ہے اور ایک نہیں ہزار لیڈربھی ملک پر قربان کیے جاسکتے ہیں۔
میں خود بھی اقتدار کی غلام گردشوں کا مشاہدہ کرچکا ہوں اس لیے جانتا ہوں کہ درباری کلچر کیا ہوتا ہے۔ چونکہ تمام بڑی پارٹیوں کی قیادت حکمرانی کے تخت پر بیٹھ چکی اوراقتدار کا تاج پہن چکی ہے اس لیے ان سب کا مزاج شاہانہ اور طوراطوار ملوکانہ ہیں۔ وہ اپنے وزیروں اور سیاسی ساتھیوں کو درباری، ہی سمجھتے ہیں اور ان سے درباریوں جیسی وفاداری کا تقاضا کرتے ہیں۔
پارٹی سربراہان کے سیاسی ساتھی بھی اس تلخ حقیقت سے آگاہ ہیں کہ قربِ قائد کے حصول کے لیے موثّر ترین ذریعہ خوشامد ہے اس لیے وہ خوشامد کے فن میں مہارت حاصل کرتے ہیں اور اس میں نئے نئے رنگ باندھتے ہیں۔ آج کے زیادہ تر سیاستدان توکتب بینی کے ذوق سے محروم ہونے کے باعث فکری افلاس کا شکا ر ہیں، مگر ذوالفقار علی بھٹّو جیسا پڑھا لکھا اور جدید تاریخ و سیاست کے اسرار و رموز کا شناور بھی خوشامد میں تمام حدیں پھلانگ گیا اور اپنے خط میں سکندرمرزا جیسے ایک اوسط درجے کے سازشی بیوروکریٹ کو قائدِاعظم سے بڑا لیڈر قرار دے دیا۔ حوالے کے لیے سٹینلے وولپرٹ کی کتاب پڑھی جاسکتی ہے۔ ویسے بھٹو صاحب کا وہ خط آجکل سوشل میڈیا پر بھی گھوم رہا ہے۔
خوشامد ایسی خوراک ہے جس سے حکمرانوں کا نہ پیٹ بھرتا ہے نہ بدہضمی ہوتی ہے۔ تاریخ مگر یہ بتاتی ہے کہ صرف خوشامد کے جوس پینے والے اور تنقید کے کڑوے ٹونِک سے پرھیز کرنے والے حکمران جلد فنا کے گھاٹ اترجاتے ہیں، فرد ہو یا قوم، بقا اور دوام اسے ہی حاصل ہوتا ہے کہ
؎
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب
چند روز پہلے مسلم لیگ (ن) کے ایک ایم این اے نے بیان دیا کہ "اگر مریم نوار کو کچھ ہوا تو ہم پاکستان کھپے نہیں کہیں گے" یعنی بے نظیر بھٹّو کے قتل پر اشتعال کے باوجود آصف علی زرداری صاحب نے جس طرح "پاکستان کھپّے" یعنی پاکستان قائم و دائم چاہیے کا نعرہ لگایا تھا اور ملک کے خلاف نعرے لگانے والوں کو روک دیا تھا، ہم ایسا نہیں کریں گے۔ ہم کیا کریں گے؟ مذکورہ ایم این اے نے اس کی تفصیل تو نہیں بتائی مگر ناقدین کہتے ہیں اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ(خاکم بدھن) پاکستان توڑنے کی راہ پر چل نکلیں گے۔ یہ بیان کئی لحاظ سے محّلِ نظر ہے۔
سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ یہ بیان اُس جماعت کے ایم این اے نے دیا ہے جو اپنے آپ کو پاکستان کی بانی جماعت کہتی ہے اور خود کو پاکستان کے معماروں کی وارث سمجھتی ہے۔ پیپلز پارٹی کے دامن میں ایسا کوئی تمغہ نہیں، ماضی میں اسے سیکیوریٹی رسک جیسے الزام بھی سہنے پڑے، مگر انتہائی اشتعال انگیز ماحول میں بھی پیپلز پارٹی کی قیادت نے سندھی کے صرف دو لفظ بول کر یہ اعلان کردیا کہ بی بی ہمیں بہت عزیز تھیں مگر پاکستان عزیزترہے۔
مجھے گمان ہے کہ مریم نواز یا میاں نوازشریف اس قابلِ اعتراض بیان پرہرگز خوش نہیں ہوئے ہوں گے۔ رکنِ اسمبلی نے محض مریم نواز کی خوشنودی کے لیے اور اپنی جانثاری، ثابت کرنے کے لیے ایسا بیان دے دیا جو خود پارٹی کے لیے بھی نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ مریم نواز ملک کی مقبول سیاسی راہنما ہیں، انھیں نقصان پہنچانے کی سازش ایک سنگین جرم ہوگا اور قوم ایسے جرم کو کبھی معاف نہیں کرے گی، مگر بیان دینے والے سے کوئی پوچھے کہ مریم کو پاکستان تو نقصان نہیں پہنچارہا، پھر پاکستان سے کس چیز کا بدلہ لینا چاہتے ہو؟ اسے کہتے ہیں "ڈِگاّ کھوتے توں تے غصہّ کمہار تے"(گرایا تمہیں گدھے نے ہے مگر غصّہ کمہار پر نکال رہے ہو)۔ پاکستان کے صدقے تو مریم کے والد صاحب تین بار وزیرِاعظم بنے اور پاکستان ہی کے طفیل تم خود ایم این اے بن گئے۔
میں کئی ایسے خوشامدیوں کو جانتا ہوں جو وفاداری کے بلند بانگ دعوے کرتے رہے مگر ؎
چمکی ذرا سی دھوپ تو چھاؤں میں آگئے۔ آزمائش کا وقت آیا تو میاں نواز شریف کو چھوڑ کر حکومتی پارٹی سے جاملے۔ اس کے برعکس اسی پارٹی میں شاہد خاقان عباسی اور رانا ثناء اللہ جیسے جرأت مند لیڈر بھی ہیں جوپارٹی کو اور پارٹی قیادت کو نقصان پہنچانے والوں کا بڑی دلیری سے نام لیتے ہیں مگر ملک کے خلاف کوئی بات نہیں کرتے۔ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ پارٹی کے قائدین ہمیں بہت عزیز ہیں مگر پاکستان سے زیادہ نہیں۔ وطنِ عزیز پر ایک نہیں، سیکڑوں اور ہزاروں لیڈر قربان کیے جاسکتے ہیں۔
لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس صاحب نے اس کی درست کھچائی کی ہے۔ امید ہے کہ نواز شریف صاحب اور شہباز شریف صاحب بھی اس کی سرزنش کریں گے اور دوسرے ممبران کو بھی ایسے نامناسب بیان دینے سے سختی کے ساتھ منع کریں گے۔ مسلم لیگ کے قائدین کو یاد رکھنا چاہیے کہ جب تک کردار کو خوشامد پر فوقیّت نہیں دی جائے گی، سولین بالادستی کا خواب پورا نہیں ہوسکے گا۔
بیڈگورننس کی ایک اور مثال
ہائر ایجوکمیشن وہ خود مختار ادارہ ہے جس نے لوئر اور مڈل کلاس کے نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے وظائف دیکر دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں بھیجا، یہ انتہائی قابلِ تحسین اقدام تھا۔ اگرچہ معیار پر لوگ انگلیاں اٹھاتے رہے مگر ایچ ای سی نے بیشمار نوجوانوں کو پی ایچ ڈی بنوادیا۔
2018 میں پی ٹی آئی کی حکومت بنی تو ہائرایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر طارق بنوری (جنھوں نے امریکا کی ہارورڈ یونیورسٹی سے اکنامکس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لی اور وہاں کی ایک معروف یونیورسٹی میں پڑھاتے تھے اور جنھیں امریکا سے بلاکر پچھلی حکومت نے HEC کا چیئرمین لگایا تھا)کی وزیرِ تعلیم سمیت تمام لوگ بڑی تعریف کیا کرتے تھے۔ تعلیم و تدریس سے تمام متعلّقہ تمام لوگ ان کی قابلیّت اور اصول پسندی کا ذکر کرتے تھے۔ موجودہ حکومت ڈاکٹر بنوری کی اصول پسندی کو بھی برداشت نہیں کر سکی۔
اہم ترین اداروں سے باضمیر اور بااصول سول سرونٹس کو ہٹاکر کمزور اور ریڑھ کی ہڈی سے محروم افراد کو تعیّنات کر دیا گیا ہے۔ خیال تھا کہ HEC تو سیاست کی دست برد سے محفوظ رہیگا مگر یہاں بھی میڈیا رپورٹس کے مطابق حکومت کے کچھ احکامات نہ ماننے پراس کے چیئرمین ڈاکٹر طارق بنوری کو بغیر کسی شوکاز نوٹس کے ہٹایا دیا گیا اور اب HEC کی خودمختاری ختم کرکے اسے وزاتِ تعلیم کے ماتحت کردیا گیاہے۔ یہ بری گورننس کی طرف ایک اور قدم ہے۔ لگتا ہے حکومت کے کچھ لوگ اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ کوئی ادارہ برباد ہونے سے بچ نہ جائے۔
اپنے اپنے مفادات کی اسیر سیاسی پارٹیاں بھی اس اہم معاملے پر نہ جانے کیوں خاموش ہیں؟ کل سابق سفیر اور معروف کالم نگار جناب جاوید حفیظ نے اپنے کالم میں درست لکھا ہے کہ ایک توڈاکٹر بنوری جیسے قابل شخص کو ہٹانا ہی بلاجواز ہے اور پھر جس طریقے سے (بغیر کسی شوکاز نوٹس وغیرہ کے) ہٹایا گیا ہے و ہ انتہائی قابل اعتراض ہے۔
اِسی حکومت میں امریکا سے ملک کی خدمت کے جذبے کے تحت آنے والے ایک قابل اور محبِّ وطن ڈاکٹر جناب سعید اختر کی تذلیل کی گئی جس پروہ اور ان کے ساتھی بددل ہوکر واپس چلے گئے۔ اب ایک اور قابل اور روشن دماغ شخض (جو اپنی صلاحیتّیں ملک کے لیے صَرف کرنے کے جذبے سے آیا تھا) کے ساتھ بھی توہین آمیز سلوک کرکے اسے فارغ کردیا گیا ہے۔ ان حالات میں اہل اور قابل لوگ کیسے اپنے ملک واپس آئیں گے؟ ایسے حوصلہ شکن حالات میں ذہانت ہجرت کرجائے گی اور Brain drain کو ہرگز نہیں روکا جاسکے گا۔