دورِ حاضر کا سب سے بڑامجاہد اور مدبر
وہ ایسا مردِ مومن تھا، جن کی نگاہ سے قوموں کی تقدیر بدل جاتی ہے۔ وہ ایسا مردِ قلندر تھا کہ بستر مرگ پر بھی پورا کشمیر جس کی مٹھی میں تھا، اس بوڑھے شیر کی دھاڑ سے دلّی کے ایوان لرزتے تھے، کشمیریوں کی آزادی کا دشمن بھارت اگرکسی ایک فرد سے خائف تھا تو وہ تحریکِ آزادی کے سالارِاعظم سید علی شاہ گیلانی تھے، جنھوں نے کشمیری مسلمانوں کی آزادی کے لیے لڑتے لڑتے جان دے دی مگر وہ ان سے جدا نہیں ہوئے۔
مرنے والے کی جبیں روشن ہے اس ظلمات میں
جس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں
کسی صاحبِ دانش نے درست کہا ہے کہ تاریخ مشاہیر کے حالاتِ زندگی ہی کا دوسرا نام ہے۔ مشاہیر جو قوموں کی تقدیر بدل دیتے ہیں، جو قوموں کو غلامی اور غربت کے اندھیروں سے نکال کر آزادی اور خوشحالی کی روشنیوں میں لے آتے ہیں۔
مشاہیر جو انسانوں کی پوری نسل کو کسی اعلیٰ مقصد سے روشناس کرادیتے ہیں، اور اس کے دلوں کو سوزودرد بخش دیتے ہیں۔ سید علی گیلانی ایسے ہی مشاہیر میں سے تھے کہ زمانہ جن کا صدیوں انتظار کرتا ہے۔ اقبالؒ نے ایک صدی قبل کشمیر کے بارے میں حسرت سے کہا تھا کہ
بیدار ہوں دل جس کی فغانِ سحری سے
اس قوم میں مدت سے وہ درویش ہے نایاب
حسرت میں چھُپی ہوئی اقبالؒکی دعا قبول ہوئی اور خالقِ کائنات نے کشمیر کے مسلمانوں کو سید علی گیلانی کی صورت میں و ہ درویش عطا کردیا جس کی فغانِ سحری نے پوری قوم کو بیدار کردیا۔
بھارتی حکمرانوں نے پچھلی تین دہائیوں سے انھیں پابندِ سلاسل رکھا۔ مگر ان کاپیغام تکبیرِ ِمسلسل بن کر کشمیریوں کے دلوں میں اس طرح اُتر چکا تھا کہ غیر جانبدار بھارتی صحافیوں کے بقول بابا علی گیلانی ہڑتال کی کال دے تو کوئی کتا بھی سڑک پر نظر نہیں آتا۔ وہ نصف صدی سے زیادہ مقتل میں ڈٹ کر کھڑا رہا۔ پورا کشمیر اور بھارت جانتا تھا کہ دنیا بھر کے خزانے بھی بوڑھے سید کو نہیں خرید سکتے، مستقبل کا مورخ جب بھی آزادی کی جدوجہد کرنے والوں کی سرگزشت لکھے گا تو سیدعلی گیلانی کا تذکرہ سب سے نمایاں ہوگا۔
آیندہ نسلوں کواستقلال اور ثابت قدمی کے معنی سمجھانے کے لیے علی گیلانی کی کہانیاں سنائی جائیں گی۔ پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ نیلسن منڈیلا کے حاکم اور جیلر اتنے کمینے اور تنگ نظر نہیں تھے، اس کے علاوہ پوری دنیا کا میڈیا اورتنظیمیں نسل پرستی کی مخالفت میں منڈیلا کو سپورٹ کر رہی تھیں، مگر بھارتی حکمران۔۔ ان میں جبر اور کمینگی کو یکجا کردیا گیا ہے، پھرمظلوم کشمیریوں کو دنیا کے کسی ملک سے امداد ملی اور نہ ہمدردی، اس لیے کہ سید گیلانی اﷲ اور رسول ؐاﷲ کا نام لیتے تھے اور وہ اس اسلام کے پیروکار تھے جس میں عظمت اور شوکت بھی ہے اور شکوہ و جلال بھی، جس میں مسکینی اور محکومی کی کوئی گنجائش نہیں۔
اس لیے انسانی حقوق کے نام نہاد علمبردار ان کی حمایت سے گریزاں رہے۔ مگر غیرجانبدار مورخ ہمیشہ یہ گواہی دیں گے کہ اپنی قوم کی آزادی کے لیے جس شخص نے سب سے زیادہ ظلم اور جبر برداشت کیا، جس کے جذبے پاکیزہ، اخلاص بے ریا، جسے نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پرواہ اور جس کے پائے استقلال میں کبھی معمولی سی بھی لرزش پیدا نہ ہوئی، وہ صرف اور صرف سید علی گیلانی تھے۔ دورِ حاضر کے اس مجاہد اعظم نے نہ صرف خود اپنے خوابوں کی جنت پاکستان کو ٹوٹ کر چاہا بلکہ کشمیر کے لاکھوں نوجوانوں کے دلوں کو بھی اس کی محبت سے لبریز کردیا۔
اس کا دیا ہوا نعرہ "ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان ہمارا ہے" کشمیری مسلمانوں کا قومی ترانہ بن گیا۔ کشمیر کے ہر گھر سے نوجوانوں کے لاشے نکلے، سب پاکستانی پرچم میں لپٹے ہوئے۔ پاکستان کے ایک سابق اور اعلیٰ پائے کے وزیرِ خارجہ اعلانیہ کہا کرتے تھے کہ "سید علی گیلانی ہم سے بڑا پاکستانی ہے"۔ وہ ایک پرجوش مجاہد بھی تھا اور بے مثال مدبر بھی۔ لازوال ایمان، یقینِ محکم، آ ہنی عزم بے پناہ مطالعہ اورکردار کی پاکیزگی وہ عناصر تھے، جن سے ان کی شخصیت کی تعمیر ہوئی تھی۔ مطالعہ رہنماؤں (Leaders) کو پختہ فکری بنیاد اور استقامت فراہم کرتا ہے۔
سید صاحب وسیع المطالعہ شخص تھے، وہ قرآن اور حدیث کے پیغام سے بھی آشنا تھے اور جدید اسلامی تاریخ کے سب سے بڑے مسلم تھنکر ڈاکٹر محمد اقبالؒ کی فکر اور فلسفے کا بھی مکمل ادراک رکھتے تھے۔ وہ تیس کتابوں کے مصنف تھے، بڑے بڑے فارسی دان خود مانتے ہیں کہ اقبالؒ کی فارسی کی معرکۃالآرا کتاب جاوید نامہ، کا اصل مفہوم سمجھنے کے لیے سید علی گیلانی کی تصنیف اقبال، روحِ دین کا آشنا، سے بہتر کوئی کتاب نہیں۔
سید صاحب لڑکپن میں حصولِ تعلیم کے لیے لاہور آگئے جہاں ان کے بقول وہ بادشاہی مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر قبرِ اقبال ـؒکی زیارت کیا کرتے تھے "جس سے مجھے اتنا قلبی سکون اور روحانیت حاصل ہوتی کہ میں گھنٹوں مزار کی جانب ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہتا تھا"۔
لڑکپن کے اس قلبی تعلق نے انھیں اقبالؒ کے کلام اور پیغام سے اس طرح روشناس کرایا کہ حکیم الامّت کے نورِ بصیرت سے سید علی گیلانی کے قلب و دماغ منور ہوگئے اور وہ خود یقینِ محکم اور عملِ پیہم کی مجسم تصویر بن گئے۔ فکرِ اقبالؒ نے انھیں ایک ایسے مردِ مومن میں ڈھال دیا جو ذوقِ یقین سے مالا مال تھا، کیونکہ وہ غلامی کی زندگی بسر کرنے والوں کا المیہ جانتا تھا۔
غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوقِ یقین پیداتوکٹ جاتی زنجیریں
فکرِ اقبالؒ کا شناور ہونے کے باعث وہ جانتے تھے کہ جب ایک مسلمان کو یقین (مضبوط ایمان) کی دولت حاصل ہوجاتی ہے تو اس میں ناقابل شکست طاقت آجاتی ہے۔
جب اس انگارۂ خاکی میں ہوتا ہے یقیں پیدا
تو کرلیتا ہے یہ بال و پررِوح الامیں پیدا
ڈاکٹراقبالؒ کی فکر اور سید مودودی ؒکی کتابوں سے فیضیاب ہوئے تو سید علی گیلانی کو اپنی منزل صاف نظر آنے لگی۔ اور اسی منزل کے حصول کے لیے انھوں نے حیاتِ مستعار وقف کردی۔ پھر نہ پیچھے مڑ کر دیکھا اور نہ تکلیفیں، صعوبتیں اور ظلم اور جبر ان کے آہنی ارادوں کو کمزور کرسکا۔
انھوں نے ایک دن کے لیے بھی کشمیر پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ تسلیم نہیں کیا۔ وہ اسے آزاد کراکے پاکستان کے ساتھ ملانا چاہتے تھے۔ وہ اپنے اس موقف پر پاکستان کی کسی قسم کی مدد اور سپورٹ کے بغیر قائم تھے اور آخری سانسوں تک اُس کی پاسبانی کرتے رہے۔ اس موقف (جو ریاستِ پاکستان کا بھی موقف ہے) سے اگر پاکستان کے کسی حکمران نے منحرف ہونے کی کوشش کی تو سید صاحب نے اس کا بھی محاسبہ کیا۔
پاکستان کے کئی سیاستدان اور سفارت کار گواہ ہیں کہ جنرل مشرف نے عالمی طاقتوں کے دباؤ کے تحت ریاستِ پاکستان کے موقف سے روگردانی کرنے اور ایک نیا شوشہ چھوڑنے کی کوشش کی تو دلّی کے پاکستانی سفارت خانے میں جرأت و حمیت کے پیکر عظیم کشمیری رہنما نے پاکستان کے ڈکٹیٹر کو کھری کھری سنائیں اور اس سے مصافحہ کیے بغیر چلے گئے۔
بلاشبہ سید علی گیلانی دورِ حاضر کے سب سے بڑے مجاہد بھی تھے اور سب سے عظیم مدبر بھی، اور پھر خالقِ کائنات نے انھیں خودی، فقر اور غیرت سے مالامال کررکھا تھا۔ ان کی ادائیں قلندرانہ اور جلال سکندرانہ تھا، وہ گفتار اور کردار میں اﷲ کی بُرہان بھی تھے اور دریاؤں کا دل دہلا دینے والا طوفان بھی تھے۔
کشمیریوں کے دلوں پر حکومت کرنے والے اُن کے بابائے قوم کے جسدِ خاکی کو ان کی وصیت کے مطابق دفن نہیں کرنے دیا گیا اور بھارتی فوج اہلِ خانہ سے ان کی میت زبردستی چھین کر لے گئی۔ یہ غیر انسانی اور شرمناک حرکت جبر اور کمینگی کی بدترین مثال ہے جو بھارتی حکومت نے قائم کی ہے۔ مقبوضہ کشمیر سے رابطہ رکھنے والے برطانیہ میں مقیم ایک دوست بتارہے تھے کہ جنازے میں شرکت سے روکنے کے لیے کرفیو نہ لگا یا جاتا تو کشمیر کا ہر مرد اپنے روحانی اور سیاسی باپ کے جنازے میں شریک ہوتا اور کئی ملین انسانوں کے لیے سرینگر شہر کا دامن تنگ پڑجاتا۔
سید صاحب قید و بند کے باعث بے شمار جسمانی بیماریوں اور ذہنی صدموں کا شکار ہوئے اور انھی عوارض نے ان کی جان لے لی۔ اس لحاظ سے علماء کے بقول وہ شہادت کے اعلیٰ مرتبے پر فائز ہوئے ہیں، مجھے یقین ہے کہ ایسی پاکیزہ اور بامقصد زندگی گزار کر جب وہ دربارِ الٰہی میں حاضر ہوں گے تو فرشتے ان کا استقبال کریں گے، اورحضورنبی کریم ﷺ اپنے اس پُرجوش اور پُرسوز پیروکار کو گلے لگائیں گے۔
مبارک ہیں وہ لوگ جنھوں نے ا س ملکوتی صفات کے انسان کو دیکھا، اس سے ملاقات کی اور اس کی باتیں سنیں، انھیں قریب سے جاننے والوں کی متفقہ رائے ہے کہ وہ قافلۂ رسالتؐ مآب کا کوئی بچھڑا ہوا فرد تھا جو موجودہ سیاست کی علتوں اور آلائشوں سے بہت بلند اور ارفعٰ تھا۔
ایک اسکالر دوست (جو سید صاحب سے مکہ میں مل چکے ہیں) بتاتے ہیں کہ وہ پاکستانی وفد سے بار بار یہی کہتے رہے کہ "یہ دیکھ کر میرا دل خون کے آنسو روتا ہے کہ اہلِ پاکستان آزادی جیسی عظیم نعمت کی قدر نہیں کر رہے۔ ہماری طرف دیکھو ہم تمھارے استحکام اور خوشحالی کے لیے ہردم دعائیں کرتے ہیں اور تمھاری آزادی کو حسرت سے دیکھتے ہیں۔ خدارا آزادی کی قدر کریں "۔ کیا ہم اس عظیم پاکستانی کی دردِ دل میں ڈوبی ہوئی نصیحت پر غور کریں گے۔