چند اہم واقعات
بر صغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے لیے 23مارچ 1940 کا دن کوئی عام دن نہیں تھا، وہ ایک عظیم انقلاب کی طرف مسلمانوں کا فیصلہ کن قدم تھا۔ ہندوستان کے کونے کونے سے لاہور آنیوالے افراد صرف جلسہ دیکھنے نہیں بلکہ ہندوستان کی تاریخ اور جغرافیہ بدل دینے کا عزم لے کر آئے تھے۔
عالمگیری مسجد کے پر شکوہ مینار دیکھ رہے تھے کہ لاہور کے اس تاریخی میدان میں (جو اب مفکّرِ پاکستان کے نام سے موسوم ہے) کرہ ارض پر بسنے والی مسلمانوں کی سب سے بڑی آبادی کے مستقبل کا فیصلہ ہونے جارہا ہے، اسٹیج پر ہندوستان کے ہر علاقے کے مسلمانوں کے چوٹی کے رہنما موجود تھے۔ مگر ہزاروں سامعین کی نظریں کسی اور کو تلاش کر رہی تھیں۔ ٹھیک دو بجکر پچپن منٹ پر پورے ہندوستان کا سب سے قابلِ اعتبار اور سب سے بلند کردار رہنما اسٹیج پر نمودار ہوا تو مجمعے میں برقی رو دوڑ گئی۔
سامعین کے جوش و خروش نے انتہاؤں کو چھولیا۔ قائدِاعظم زندہ باد کے نعروں کی گونج پورے لاہور میں سنائی دینے لگی۔ اُس جلسے میں پاس ہونے والی قرارداد چند الفاظ کا مجموعہ نہیں تھا وہ اسلامیانِ ہند کے علیحدہ وجود کا اعلان تھا، اپنے آپ کو ایک علیحدہ ملت کے طور پر منوانے کی للکار تھی، اور حصولِ منزل کے لیے عزمِ صمیم کا اظہار تھا۔
منظرنامہ تیزی سے بدل رہا تھا، مایوسی اور بے یقینی کے اندھیروں میں بھٹکتا ہوا ہجوم قوم میں بدل گیا اور قوم کو منزل نظر آگئی۔ مسلمانوں کو منزل حاصل ہوگئی، پاکستان معرضِ وجود میں آگیااور ہم آزادی کی نعمت سے مالا مال ہوئے۔
اسی لیے پاکستان کے شہری اس تاریخی دن کو یومِ پاکستان کے طور پر ہر سال مناتے ہیں کہ اُس روز مسلمانوں نے متفقہ طور پر دو قومی نظریے کا اعلان کیا تھا۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ہر سال 23مارچ کو تعلیمی درسگاہوں میں اور میڈیا کے ذریعے دوقومی نظریے کی اہمیت اور فضیلت اور مسلمانوں کی علیحدہ وطن کے لیے عظیم جدوجہد کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا جائے، مگر 23مارچ ہی کے حوالے سے ریاستِ مدینہ کا راگ الاپنے والی حکومت کے ایک وزیر نے بیان داغا ہے کہ 23 مارچ کی اہمیت ہمارے لیے اس لیے ہے کہ اس روز بھگت سنگھ اور کچھ سکھوں کو پھانسی دی گئی تھی۔ کئی اہلِ نظر نے اس درفنطنی کو یومِ پاکستان کی اہمیت کم کرنے کی ایک بھونڈی حرکت قرار دیا ہے۔
اُدھر خیبر پختونخواکے گورنر نے فرمایا Subcontinet کے مسلمانوں کے "غالباً"سب سے بڑے لیڈر محمد علی جناح نے 2013 میں مسلم لیگ کو جوائن کیا تاکہ " وہ بھی اوٹ پٹانگ مارتے رہے، کیا وزیراعظم صاحب اپنے ساتھیوں کی ایسی حرکتوں کا نوٹس لیں گے جس سے ان کی حکومت کی مزید بدنامی ہورہی ہے۔ بہتر ہے کہ حکومتی شخصیات پر 23مارچ یا 14اگست کو تحریکِ پاکستان کے بارے میں مطالعہ کیے بغیر تقریر کرنے کی پابندی عائد کردی جائے۔
٭…٭…٭
چند روز پہلے سرکاری طور پر اعلان کیا گیا تھا کہ وزیرِاعظم صاحب کورونا کا شکار ہوگئے ہیں۔ ہم سب نے ان کی صحتیابی کی دعا کی۔ پرائم منسٹر کے مشیرنے اعلان کیا کہ وزیرِاعظم نے تمام مصروفیات منسوخ کردی ہیں، ایسا ہی ہونا چاہیے تھا۔ اپوزیشن کے چند بڑے رہنماؤں نے البتہ یہ کہا کہ الیکشن کمیشن نے انھیں 22مارچ کو ذاتی حیثیّت سے طلب کررکھا ہے۔
اس لیے یہ "کورونا" پیشی کو avoidکرنے کے لیے ہے، اُدھر پیشی کی تاریخ گزرگئی اور مریم نواز کی پیشی کی تاریخ قریب آگئی تو وزیرِاعظم صاحب نے وہ کام کردیا جس کی پوری دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی کیونکہ دنیا کے کسی لیڈر نے قرنطینہ میں ہوتے ہوئے اپنے قریب ترین مشیروں کے ساتھ بھی فزیکل میٹنگ نہیں کی، مگر ہمارے وزیرِاعظم صاحب نے قرنطینہ کو چھوڑ چھاڑ کر کچھ خاص لوگوں کو بلایا اور مریم نواز کی پیشی کے بارے میں حکمتِ عملی طے کرتے رہے۔ دوسری طرف کورونا SOPs کو نظر انداز کرنے پر کئی شہری حوالاتوں کی ہوا کھا چکے ہیں۔ کیا پاکستان میں بھی کبھی حاکموں سے باز پرس بھی ہوسکے گی؟
٭…٭…٭
لگتا ہے نالائقی اور میرٹ کے برعکس تقرریاں اور فیصلے موجودہ حکومت کا طُرۂ امتیاز بن چکا ہے۔ 23مارچ کو مختلف فیلڈز میں غیرمعمولی خدمات اورکارکردگی دکھانے والے خواتین و حضرات کو صدرِ مملکت ایوارڈ دیتے ہیں۔ اس بارs Citation کا معیار بہت پست تھا، مگر اس سے اہم بات یہ ہے کہ کچھ ایوارڈز پر لوگوں نے سخت تخفظات کا اظہار کیا ہے۔
اسلام کی تبلیغ میں مولانا طارق جمیل کی خدمات بلاشبہ غیرمعمولی ہیں۔ اللہ نے انھیں غیر معمولی حافظے اور خطابت کے جوہر سے نوازا ہے اور انھوں نے اپنی ان صلاحیتوں کو تبلیغِ دین کے لیے استعمال کیا ہے۔ میں ذاتی طور پر ان کا قدردان ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی کچھ باتوں سے اختلاف بھی رکھتا ہوں۔ انھیں حکمرانوں کے قرب کا شوق ہے۔ اسلام کی روح کو سمجھنے والے سب سے بڑے تھنکر اور شاعر علامّہ اقبال فرماگئے ہیں کہ
ہے وہی تیرے زمانے کا امامِ برحق
جو تجھے حاضر وموجود سے بیزار کرے
فتنۂ ملتِ بیضا ہے امامت اس کی
جو مسلماں کو سلاطیں کا پرستار کرے
مگر اس سے کون انکار کرسکتا ہے کہ انھوں نے آخرت کا خوف اور اللہ اور نبی کریمﷺ کی محبت لاکھوں مسلمانوں کے دلوں میں ڈال دی ہے۔ جو ان کا غیرمعمولی کارنامہ ہے۔ وہ تو ویسے بھی وزیرِاعظم صاحب کے حمایتی ہیں، انھیں مذہبی خدمات پر ہلالِ امتیاز بھی دے دیا جاتا تو بھی کوئی اعتراض نہ کرتا مگر انھیں پرائیڈ آف پرفارمنس کا ایوارڈ دیا گیا جو ان کے مقام اور مرتبے سے کمتر ہے۔
کئی تیسرے درجے کے گلوکاروں اور ایکٹرسوں کو ستارۂ امتیاز دے دیا گیاہے جو پرائیڈ آف پرفارمنس سے برتر سمجھا جاتا ہے۔ ویسے بھی پرائیڈ آف پرفارمنس آرٹسٹوں کو دیا جاتا ہے۔ مولانا طارق جمیل کوئی آرٹسٹ نہیں بلکہ ملک کے معروف اور مقبول مبلغ ہیں۔ اُن کے مرتبے سے کمتر ایوارڈ دیکر ان کی توہین کی گئی ہے۔
راقم کو 2016 میں ستارۂ امتیاز دیا گیا مگر اس لیے کہ سروس کے دوران سات بار مختلف حکمرانوں نے خود بلاکر اہم ذمے داریاں سونپیں اور ہربار خالق و مالک نے سرخروکیا۔ اِس ناچیز کے ہاتھوں کئی محکمے transform ہوئے اور کئی ڈوبے ہوئے ادارے پاؤں پر کھڑے ہوئے۔ اُس وقت کی ایوارڈ کمیٹی کے ممبران کا کہنا تھا کہ "صرف پاسپورٹ کے سنگین قومی بحران پر قابو پالینا ہی سب سے بڑا ایوارڈدلانے کے لیے کافی ہے"۔ اس ضمن میں یہ بھی نشاندہی کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ شعروادب کا سب سے بڑا ایوارڈ جناب انور مسعود صاحب کو دیا جانا چاہیے۔ اس سے خود ایوارڈ کی عزت افزائی ہوگی۔
٭…٭…٭
حکومت کسی پارٹی کی بھی ہو، صوبے کا وزیرِاعلیٰ اور حکومتی پارٹی کے ممبرانِ اسمبلی، بلدیاتی اداروں کو سوکن سمجھتے ہیں، وہ اپنے اختیارات اور فنڈز اُنکے ساتھ شیئر نہیں کرنا چاہتے۔ جیسے بھی ہوئے، پچھلی حکومت میں صوبہ پنجاب کے بلدیاتی اداروں کے انتخابات ہو گئے اور اداروں نے اپنا کام شروع کردیا، جن منتخب اداروں کی تعمیر و تشکیل پر اربوں روپے خرچ ہوئے تھے، پی ٹی آئی کی حکومت نے انھیں ایک انتظامی حکم کے تحت برخاست کردیا۔ حکومت کے اس اقدام کو اُس وقت بھی ہر ذی شعور اور جمہوریت پسند شخص نے غیرجمہوری، آمرانہ اور ظالمانہ قرار دیا تھا۔ خیال تھا کہ اعلیٰ عدالتیں حکومت کے اس غیرآئینی اقدام کو فوری طور پر کالعدم قرار دیکر منتخب ادارے بحال کردینگی، ایسا نہ ہوسکا۔ بہرحال اب جاکر سپریم کورٹ نے بلدیاتی ادارے بحال کردیے ہیں۔
عدالت عظمیٰ کا یہ فیصلہ قابلِ تحسین ہے۔ امید ہے کہ وزیرِاعظم سپریم کورٹ کے فیصلے کی روح کے مطابق اس پر عملدرآمد کرائینگے اور بلدیاتی اداروں کے فنڈز روک کر یا ان کے اختیارات افسر شاہی کو منتقل کرکے منتخب اداروں کو غیرفعال بنانے کی کوشش نہیں کرینگے۔ جس طرح مرکزی اور صوبائی حکومتیں چاہتی ہیں کہ وہ اپنی مدت پوری کریں، اسی طرح بلدیاتی اداروں کو پورے پانچ سال کام کرنے دیا جائے۔ انھیں جتنے عرصے کے لیے معطل رکھا گیا ہے، اتنا عرصہ انھیں اضافی دیا جائے تاکہ وہ بھی اپنی مُدت پوری کرسکیں۔
٭…٭…٭
سیاسی پارٹیوں کے نظریات کچھ بھی ہوں، ریاستِ پاکستان کا کشمیر کے بارے میں ایک واضح موقف ہے اور پچھلے ستر سال سے وہ اُس پر قائم ہے، مگر پہلی بار ِ پاکستان کے موقّف میں تبدیلی نظر آئی ہے، جس میں کشمیری مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کو اور خود کشمیر کو فراموش کرکے بھارت کے ساتھ دوستی کی بات کی گئی ہے۔ اس پر کشمیر کے سب سے مقبول رہنما سید علی گیلانی نے دکھ کا اظہار کیا ہے اور ملک کے اندر بھی لوگ تشویش کا اظہار کررہے ہیں۔ عوام اور پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر ریاستی موقّف میں کوئی تبدیلی نہیں ہونی چاہیے۔
٭…٭…٭
اسٹیٹ بینک کی "اٹانومی" کے بارے میں ماہرین تشویش کا اظہار کررہے ہیں، کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے پارلیمنٹ اور میڈیا میں تفصیلی بحث ہونی چاہیے۔