بچھڑنے والوں کی یاد اور کچھ اہم مشاہدات
پچھلی چھ دہائیوں میں ہم نے کوئی ایسی قدرتی آفت یا وباء نہیں دیکھی جس نے اتنی قیمتی جانیں نگل لی ہوں۔ ان چند مہینوں میں دستِ اجل نے ہمیں بہت سے دوستوں اور عزیزوں سے محروم کردیا ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس او ر سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس سردار محمد اسلم صاحب قانون اورانصاف کے شعبے کی انتہائی معتبر شخصیّت تھے۔ شائستگی اور شستگی کا مرقّع اور حسنِ اخلاق کی تجسیم۔ راولپنڈی اور اسلام آباد کے وکلا ٔ کا کہنا ہے کہ اس شعبے میں اسقدر نفیس، بے لوث، پاکیزہ اور اعلیٰ کر دار کا انسان ہم نے نہیں دیکھا۔ جب وکیل تھے تو اسقدر مقبول کہ ساتھیوں نے ہر بارا یسوسی ایشن کے اعلیٰ ترین عہدے کے لیے منتخب کیا۔ منصبِ قضاء پر فائز ہوئے تو بھی ایک مثالی منصف ثابت ہوئے۔
پچھلے دس پندرہ سالوں میں اگر وکلاء اور عوام نے کسی جج کا دل سے احترام کیا ہے۔ احترام ہی نہیں بلکہ دل سے محبت کی ہے تو وہ جسٹس سردار اسلم صاحب تھے۔
ہمارے خاندان کے ساتھ سردار صاحب کے بہت گہرے مراسم تھے۔ چند ماہ قبل میری کتاب Straight Talk’، کی تقریبِ رونمائی میں وہ اپنے خطاب میں اس تعلق کابڑی دیر تک ذکر کرتے رہے۔ ان کے چلے جانے سے ہماری پوری فیمیلی صدمے سے دوچار ہے۔ بلاشبہ قانون اور انصاف کے شعبے میں اُن جیسا کوئی دوسرا نظر نہیں آتا۔ ان کا خلاء پوراکرنا مشکل ہی نہیں نا ممکن نظر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ انھیں جنّت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائیں۔
چوہدری امتیازجی سی لاہور میں ہمارے ساتھ تھے، بے حد فراخدل، دوستوں کی دعوتیں کرنے اور اُن پر پیسے خرچ کرنے میں دلی خوشی محسوس کرتے تھے۔ وہ شروع سے ہی سلم، اسمارٹ اور صحت مندتھا، مگر موذی کورونا ایسا حملہ آور ہوا کہ چند دنوں میں اس کی سانسیں بند ہو گئیں۔ جہانگیر عالم سے لاء کالج میں دوستی ہوئی۔ انتہائی مخلص اور ہنس مکھ، کالج کے زمانے میں کئی بار لاہور کے پڑوس میں اس کے گاؤں جانا ہوا جہاں اس کے باغات کے انتہائی میٹھے امرودوں سے لطف اندوزہوتے رہے۔ ایک روز خبرملی کہ ڈاکٹرز اسپتال داخل ہو گیا ہے اور گزشتہ روز جنازے کی خبر مل گئی۔ عجیب بے بَسی کا دور تھا کہ قریب ترین عزیزوں اور دوستوں کے جنازے تک پڑھنے نصیب نہ ہوئے۔
اس موذی دشمن کے خلاف ملک بھر میں ہمارے ڈاکٹر زجان ہتھیلی پر رکھ کر لڑے اور سیکڑوں جاں سے گذر گئے۔ کئی لیڈی ڈاکٹرز جان دیکر بہادری اور فرض شناسی کا استعارہ بن گئیں۔ گوجرانوالہ کے ڈاکٹر گلزار صاحب ہمارے مہربان بزرگ تھے اعلیٰ کردار کے انتہائی نفیس انسان اور انسانی فلاح کے کاموں میں جوش و جذبے سے حصہ لینے والے وہ بھی رخصت ہو گئے۔
نشتریونیورسٹی ملتا ن کے وائس چانسلر بڑی غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک اور اپنے ساتھیوں اور شاگردوں میں بے حد مقبول تھے۔ ان کی وفات کو ہر شخص نے محکمہء صحت کا بہت بڑا نقصان قرار دیا ہے۔ چند روز پہلے ہمارے قابلِ احترام بزرگ سابق صدرمحترم جسٹس محمد رفیق تارڑ صاحب کی اہلیہ محترمہ اور ہمارے بھائیوں کیطرح عزیز ایڈیشنل آئی جی زبیر ہاشمی کی ہمشیرہ بھی جہانِ فانی سے رخصت ہو گئیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائیں۔
ہمارے ہمسایہ ملک بھارت کے اردو شاعر راحت اندوری بھی کورونا کی نذر ہوگئے۔ وہ اپنے پرجوش انداز اور منفرد ادائیگی کیوجہ سے بہت معروف اور مقبول تھے۔ اور مشاعروں کی کامیابی کی ضمانت سمجھے جاتے تھے۔ ہندوستان کے مسلمان جوہر روز حکومت اور ہندوغنڈؤں کے ظلم وستم کا نشانہ بنتے ہیں، راحت اندوری کے شعروں میں اپنے جذبات کی تسکین حاصل کرتے تھے، اس لیے مسلمان سامعین ا نہیں بڑے پرجوش انداز میں داد دیتے تھے۔ ان کے یہ شعر بہت مشہور ہوئے
جو آج صاحبِ مسند ہیں کل نہیں ہونگے
کرائے دار ہیں ذاتی مکان تھوڑی ہے
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے
……………
دو گز سہی مگر مری ملکیّت تو ہے
اے موت تونے مجھ کو زمیندار کر دیا
……………
سرحدوں پر بہت تناؤ ہے
کیا پھر کہیں چناؤ ہے
اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائیں۔
حال ہی میں کچھ ایسی نامناسب چیزیں مشاہدے میں آئیں جنھیں نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہے۔
٭زندہ قومیں اپنے یومِ آزادی کو بڑے بھرپور انداز میں مناتی ہیں اور اسے نئی نسل کی motivation کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ اُس روز زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلّق رکھنے والے ایسے ممتاز افراد کو اسکرین پر دکھایا اور سنوایا جاتا ہے جنکی باتیں اور زندگی کے واقعات سن کرلوگ inspire ہوں اور اُن جیسا بننے کی کوشش کریں۔
اس سلسلے میں مہذّب قومیں مشنری جذبے سے سرشار استادوں کے انٹرویو دکھاتی ہیں، بے لَوث طریقے سے انسانوں کی خدمت کرنے والے ڈاکٹروں کو سامنے لایا جاتا ہے۔ قوموں کی سمت متعین کرنے اور اُنکی راہنمائی کرنے والے دانشوروں اور لکھاریوں کے انٹرویو سنا ئے جاتے ہیں، نوجوانوں کو قومی جذبوں اور امنگوں سے سرشار کرنے والے نغمے تخلیق کرنے والے شاعروں کو مدعو کیا جاتا ہے، دیانتد ار اور روشن ضمیر سول سرونٹس کو بلایا جاتا ہے تاکہ مستقبل کے سول سرونٹس ان کی باتیں سنیں اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے کا ارادہ باندھ لیں۔
14اگست کو میں اپنے ملک کے چینلز بدل بدل کر دیکھتا رہا، مگر اس قسم کی کوئی شخصیّت نظر نہ آئی۔ کسی چینل پر کوئی گانے والا بیٹھا ہوا تھا، کسی پر کوئی ڈانسر بھاشن دے رہی تھی، کسی پر کوئی اداکارہ وعظ فرمارہی تھیں۔ برقی میڈیا ہمارے ذہنی افلاس کی مکمّل عکاّسی کر رہا تھا۔ کیا نئی نسل کو inspireکرنے کے لیے ہمارے پاس یہی رول ماڈلز رہ گئے ہیں؟ کیا پوری قوم اپنے بیٹوں کو گلوکار یا اداکار اور بیٹیوں کو رقاصائیں بنانا چاہتی ہے؟ کوئی ہے جو اس کا نوٹس لے۔ حکومت چھوڑیں، حکومت نام کی تو کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ اگرہوتی تو اُسے طیّب اردگان کی طرح معلوم ہوتا کہ نئی نسل کو کیا پڑھانا ہے، کیا دکھانا ہے اور کیا سنانا ہے!
٭کچھ لوگوں نے ایک کلپ بھیجا ہے جس میں گریڈ بیس کے افسران ملکر قومی گیت گا رہے ہیں۔ کچھ عرصے سے نغمے جاری کرنے کا ایسا کلچر پروان چڑھا ہے کہ مختلف شعبوں کے خواتین وحضرات نے اپنا اصل کام چھوڑ کر ساری توجہ گانے بجانے پر مبذول کردی ہے کہ شائد عوام کو مطمئن اور حکومت کو خوش کرنے کا صحیح طریقہ یہی ہے۔ پولیس افسروں نے بھی اپنی صلاحتّیں اور وسائل سوشل میڈیا پر اپنی تصویر یں لگا نے پر جھونک دیے ہیں۔
جس پر مجھے حال ہی میں تین کالم لکھنا پڑے اور انھیں بتانا پڑا کہ اصل ایشوز کیا ہیں جن پر توجّہ دینے کی ضرورت ہے پولیس ہی کی راہنمائی کے لیے میں نے یومِ آزادی پر د س نکاتی چارٹر شیئر کیا ہے۔ کئی نیک نام سینئر افسران کا کہنا ہے کہ اگر اُن میں سے پانچ چھ نکات پر بھی عمل ہوجائے تو واضح تبدیلی نظر آئے گی۔
لیکن اگر اصل کاموں پر توجہ دینے کے بجائے ہر ضلع کا ڈی پی او اور ہر ڈویژن کا ڈی آئی جی صرف نغمے جاری کرتا رہے تو کیا اس سے عوام کو تحفّظ اور انصاف مل سکے گا؟ مذکورہ نغٖمہ گانے اور فلمانے والے خواتین و حضرات کودیکھنا یہ چاہیے کہ کیا عوام ان کی یا ان کے دفتر کی کارکردگی سے مطمئن ہیں؟ اگر نہیں ہیں اور یقینا نہیں ہیں تو اس لیے نہیں کہ ان کے کان آپکی گائیکی سننے کو ترس گئے ہیں بلکہ ان کے عدم اِطمینا ن کی وجہ آپ کے محکمے کی کرپش اور اہلکاروں کا عوام کے ساتھ غیرہمدردانہ روّیہ ہے۔
آپکو اپنے محکمے کی کرپشن دور کرنے اور ملازمین کا رویّہ بہتر بنانے پر توجہّ دینی چاہیے تھی۔ نغمہ جاری کرنے کے بجائے اگر آپ تمام لوگ اکٹھے ہو کر یہ عہد کرتے کہ آیندہ ہم صرف رزقِ حلال پر قناعت کریں گے، اور اپنے دفتروں میں عام آدمی کو عزّت اور انصاف دینگے تو اس کی کہیں زیادہ اہمیّت ہوتی۔ اور پھر اس عہد کا کچھ بھی پاس کیا جاتا تو کئی محکموں میں بہتری آجاتی۔
٭چند روز پہلے سوشل میڈ یا پر ایک کلپ دیکھنے کا موقع ملا بینڈ باجے کے ساتھ ساتھ کچھ نوجوان رقص کر رہے تھے، پھر نظر پڑی کہ کچھ نوجوانوں کے ہاتھوں میں کرنسی نوٹ ہیں اور کچھ کے ہاتھوں میں پھول۔ میں سمجھا کہ کسی الیکشن کی ویڈیو ہے، اور ابھی دکھایا جائے گا کہ فلاں ایم پی اے کے جیتنے کی خوشی میں اس کے ورکر جشن منارہے ہیں۔ مگر یہ دیکھ کر میں حیران وششدر رہ گیا جب نظر آیا کہ یہ کسی کونسلر یا ایم پی اے کی جیت کا جشن نہیں، بلکہ یہ ایک افسر کی پروموشن پر جشن منایا جا رہا ہے۔ ہر چیز کے قواعد، ادب اَداب اور SOPs مقررّ ہیں۔ پروموشن پر اس نوعیّت کا جشن دیکھ کر مجھے حیرانی بھی ہوئی اور افسوس بھی کہ یہ چیزیں ہماری روایات میں شامل نہیں تھیں۔
اسی طرح ایک اور کلپ دیکھا جس میں ایک سیشن جج صاحب بگھی پر سوار ہو کر جلوس کی شکل میں اپنی جائے تعیناتی کی طرف جارہے ہیں اور بینڈ باجا اور بھنگڑا گروپ ساتھ ساتھ چل رہے ہیں، یہ بھی انتہائی نامناسب طریقہ ہے۔ سنا ہے کہ چیف جسٹس صاحب نے اس کا نوٹس لیا ہے اور متعلقہ ججوں کو او ایس ڈی بنا دیا ہے۔