بے مہار طوفانوں کو لگام ڈالی جائے
یہ سچا واقعہ میرے بھانجے سعد نے سنایا تھا کہ وہ ترکی میں پاکستان کا سفارتکار رہا ہے۔ 2010میں پاکستان کے سیلاب کی تباہ کاریوں کی خبریں انٹرنیشنل میڈیا پر بھی چلنے لگیں توانھی دنوں انقرہ میں تعینات سفیرِ پاکستان کو ایک خط موصول ہوا۔ لکھا تھا "میرا نام خالدوردل ہے، میں دو بچوں کی ماں ہوں اور ہم انقرہ کے نواحی علاقے میں رہتے ہیں، رات کو میں تپائی پر اپنے شوہر اور بچوں کے لیے کھانا لگا رہی تھی کہ ٹیلیویژن پر پاکستان میں آنے والے سیلاب کی خبریں آنے لگیں، پاکستان کا نام سن کر ہم سب متوجہ ہوگئے۔
ٹی وی پر دکھایا گیا کہ پاکستان کے ہزاروں لوگ سیلاب کی وجہ سے بے گھر ہوگئے ہیں۔ ہمارے ان تباہ حال بہن بھائیوں کے تو گھر تباہ ہو گئے ہیں، انھوں نے کھانا کیسے کھایا ہوگا۔ یہ سوچ کر مجھے شرم محسوس ہوئی، کہ ہمارے ہزاروں بہن بھائی بھوکے اور بغیر کھانا کھائے پڑے ہیں اور ہم آرام سے کھانے کھاتے رہیں، یہ کتنے شرم کی بات ہے، شوہر کی جانب دیکھا تو اس کے بھی یہی جذبات تھے، بچوں کو بتایا تو انھوں نے بھی کھانا کھانے سے انکار کردیا، ہم میں سے کسی نے بھی کھانا نہیں کھایا۔ ماضی میں مشکل وقت میں آپ نے ہماری مدد کی تھی، اب ہماری باری ہے مجھے افسوس ہے کہ میرے پاس صرف ایک انگوٹھی اور کانوں کی دو بالیاں ہیں، وہ میں فوری طور پر بیچ رہی ہوں۔ جلد ہی گھر کی کچھ چیزیں بیچ کر اور پیسے بھیجوں گی۔ "
سیلاب کے دوران ترکی ہی کی ایک دس سالہ بیٹی مرو بیضا نے صدرِ پاکستان کو خط لکھا تھا"مسٹر پریذیڈنٹ! میں چاہے بہت چھوٹی ہوں مگر پاکستان میں سیلاب کی خبریں سن کر بہت دکھ ہوا ہے۔ میں یہ خط یہ بتانے کے لیے لکھ رہی ہوں کہ ہمیں آپ کی تکلیف کی خبر مل گئی ہے۔ امداد کے لیے فوری طور پر اپنی ایک سال کی جمع کردہ پاکٹ منی بھیج رہی ہوں، مگر میں اور بھی بھیجتی رہوں گی۔ یہ رقم قبول کرنے سے انکار نہ کیجیے کیونکہ ہم آپ کے بہترین دوست ہیں۔ "
اگر ہمارے سیلاب زدگان کا دکھ درد محسوس کرکے ہزاروں میل دور ترکی کی ایک بیٹی تڑپ اُٹھتی ہے اور وہ اور اس کے بچے کھانا تک نہیں کھاتے تو وہ تڑپ اور وہ درد اس بار وطنِ عزیز میں کیوں نظر نہیں آیا۔ یہاں لقمے آسانی سے حلق سے کیوں اُتر رہے ہیں؟ یہاں کھانا کھاتے ہوئے پاکستانیوں کے ہاتھ کیوں نہیں رکے؟ جس جگہ ہم (ڈی ایچ اے کے باسیوں) نے سیلاب زدہ بہن بھائیوں کے لیے ریلیف کیمپ لگا رکھا ہے، اس کے قریب کئی ریستوران ہیں، یہاں آبادی زیادہ نہیں ہے مگر مغرب کے بعد گاڑیاں اتنی کثیر تعداد میں ہوتی ہیں کہ پارکنگ کی جگہ نہیں ملتی اور ریستوران کے اندر تو انتظار کرنے والوں کی لمبی لائنیں لگی ہوتی ہیں، یہی حال کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے بڑے ہوٹلوں کا ہے۔ مہنگے کھانے اور کھابے اُسی طرح چل رہے ہیں، اُسی طرح موج مستی چل رہی ہے۔
اس ملک میں پچھلے پندرہ بیس سالوں میں ایک ایسی نسل اور ایک ایسا طبقہ پیدا ہوچکا ہے جسے صرف اپنے عیش و نشاط سے غرض ہے، یہ وہ لوگ ہیں جو ٹی وی پر لاکھوں پاکستانیوں کو بے گھر ہو کر آسمان تلے بے یارومددگار پڑا دیکھ کر بھی ایک کھانے کابیس بیس ہزار بل ادا کرتے ہیں اور ان کا ضمیر انھیں ملامت نہیں کرتا۔ یہ طبقہ اپنے آفت زدہ بہن بھائیوں کے لیے اپنی موج مستی اور کھیل تماشے چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ترقی یافتہ قومیں کھیل کو کھیل ہی سمجھتی ہیں مگر اپنی کمرشل ضروریات کے لیے انھوں نے ہم جیسی قوموں کو ہیجان زدہ بنادیا ہے جو کھیل کو کشمیر کی جنگ سمجھ لیتی ہیں۔
کرکٹ میں جیت، نہ ہمارے قرضے اتارنے میں مدد کرسکتی ہے، نہ مہنگائی کم کرتی ہے اور نہ ہی اس سے عالمی سطح پر ہمارے مقام اور مرتبے میں اضافہ ہوتا ہے، عزت، مقام اور مرتبہ یا مالی طاقت سے حاصل ہوسکتا ہے یا عسکری طاقت سے۔ عالمی سطح کے کھلاڑی کوئی تمغہ جیت کر اپنے ملک کی وقتی طور پر تشہیر کا باعث ضرور بنتے ہیں مگر یہ کہنا مبالغہ ہے کہ کھلاڑی ملک کی عزت و توقیر میں اضافے میں کوئی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
چلیں کرکٹ وغیرہ کے میچ تو ممکن ہے بہت پہلے سے طے ہوں مگر ہمارے سیاستدان اپنے مصیبت زدہ بہن بھائیوں کے لیے اپنی سیاست بازی کچھ دنوں کے لیے معطل کرنے کے لیے بھی تیار نہیں، وہ کروڑوں روپیہ اپنے جلسوں کے اسٹیج بنانے کے لیے صرف کررہے ہیں۔ مگر مصیبت زدگان کے دکھ درد بانٹنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ تمام جماعتوں کے راہنما جلسوں اور جلوسوں کو چھوڑ کر سیلاب زدگان کی امداد اور بحالی کو اپنی ترجیحِ اوّل بنالیتے، مگر افسوس کہ یہ خواہش حسرت ہی رہی۔ چلیں میڈیا کے ذریعے یہ تو بتادیا جائے کہ مختلف سیاسی لیڈروں نے آفت زدگان کی امداد اور بحالی کے لیے اپنی جیب سے کتنی رقم donate کی ہے۔ سب سے شرمناک کردار اُن دکانداروں اور تاجروں کا ہے جو انسانیت کی ادنیٰ ترین سطح سے بھی نیچے گر کر مصیبت زدگان کی فوری ضرورت کی اشیاء مہنگی کر دیتے ہیں۔
خیموں کی طلب میں اضافہ ہوا تو ان کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ کردیا گیا۔ خشک خوراک بھیجنے کے لیے کھجوروں اور بھُنے ہوئے چنوں کی ضرورت پڑی تو ان کی قیمتیں بے تحاشہ بڑھادی گئیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے، کیا ہم انسانی شرف سے محروم ہوچکے ہیں، کیا ہم اخلاقی گراؤٹ کی اتھاہ گہرائیوں میں گر چکے ہیں؟ ایسے موقعوں پر غیر مسلم ممالک میں دکانداروں کی طرف سے قیمتیں کم کرنے کے اعلان سنتے ہیں تو سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ پورے یورپ میں کرسمس میں قیمتیں کئی گنا کم کردی جاتی ہیں، کرسمس کی سیل پوری دنیا میں مشہور ہے مگر اس کے برعکس ہمارے ہاں رمضان المبارک کی مہنگائی ضرب المثل بن چکی ہے۔
چند سال پہلے جب جاپان میں سونامی آیا تو بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی، اُن دنوں بی بی سی نے ایک چھوٹا سا کلپ نشتر کیا تھا کہ ایک بوڑھی جاپانی عورت سیلاب زدہ علاقے میں الیکٹرانک کا سامان بیچ رہی تھی۔ میڈیا کے کسی نمایندے نے اس سے بیچی جانے والی اشیاء کی قیمت پوچھی، اس کا خیال تھا کہ بڑھیا کئی گنا مہنگا بیچ رہی ہوگی مگر وہ یہ سن کر حیران رہ گیا کہ بڑھیا تو مارکیٹ ریٹ سے بھی کم ریٹ پر بیچ رہی تھی۔ جب صحافی نے پوچھا کہ "آپ یہ اشیاء اتنی سستی کیوں بیچ رہی ہیں؟ اتنی سستی تو کہیں بھی نہیں بکتیں" تو عمر رسیدہ خاتون نے بتایا کہ "میں بڑی مارکیٹ میں جاکر ہول سیل قیمت پر سامان خرید لاتی ہوں اور اسی ریٹ پر وہ سامان اپنے مصیبت زدہ لوگوں کو بیچتی ہوں تاکہ اس مشکل وقت میں انھیں کوئی چیز مہنگی نہ خریدنی پڑے۔ "
یہ تعلیمات تو ہمارے نبیؐ کی تھیں مگر محسنِ انسانیتؐ کے پیروکاروں نے بھلادیں اور غیر مسلموں نے اپنالیں۔ کیا وجہ ہے کہ غیر معمولی حالات میں ہماری ہوسِ زر انسانی ہمدردی پر غالب آجاتی ہے اور ہم ایثار کے بجائے لُوٹ مار شروع کر دیتے ہیں؟ اب بھی کچھ شیطان صفت لوگ سیلاب میں جاں بحق اور زخمی ہونے والوں کا سامان چوری کرنے سے باز نہیں آئے، کچھ انسان نما درندے گروہ بنا کر مصیبت زدگان کے لیے آنے والا سامان لوٹنے لگے۔ ایڈیشنل آئی جی ساؤتھ پنجاب احسان صادق کی موثر کارروائی سے یہ مجرم پکڑے گئے ہیں۔
مگر ایسی وارداتیں نہ یورپ میں ہوتی ہے اور نہ کبھی ترکی اور ایران میں سنی ہیں۔ آخر پاکستانی قوم کی ذہنیت اتنی گھٹیا اور کردار اتنا پست کیوں ہوچکا ہے؟ جواب ہے کہ تربیت نہیں کی گئی، واعظ اختلاف بیچتا ہے اور سیاسی لیڈر نفرت کی پرورش کررہا ہے، نوجوانوں کو سب سے زیادہ متاثر کرنے کی صلاحیت اب برقی میڈیا کے پاس چلی گئی ہے اور اس کے کار پردازوں کا ہمارے ملک کے لیے خاص ایجنڈا ہے جس میں یہ بات شامل ہے کہ اسکرین کے ذریعے ایسے مواد کی بھرمار کردی جائے جس سے نوجوان دین اور ملک کے بارے میں شکوک کا شکار ہوں، پاکیزگی اور حیا کے قلعے کو مسمار کردیا جائے، مقدس رشتوں کا تقدس روند دیا جائے، رقص اور موسیقی کو ان کی زندگی کا اہم ترین جزو بنادیا جائے تاکہ نوجوان صرف ڈانسرز اور اداکاروں کو ہی آئیڈیالائز کریں۔
ہماری بستی میں بہت سی تنظیموں کے کیمپ لگے ہوئے ہیں لیکن لوگوں نے سب سے زیادہ پیسہ اور امدادی سامان سینٹرل پارک والے کیمپ میں دیا ہے۔ کیونکہ اِس کیمپ کے بھیجے ہوئے سامان کی اصل حقداروں میں تقسیم جس شفاف اور ڈسپلنڈ طریقے سے ہوئی ہے وہ سب کے لیے باعثِ اطمینان ہے۔ اس سلسلے میں آئی جی خالد محمود، احسان صادق، عبدالخالق شیخ، غلام نبی میمن اور ایس ایس پی احمد، نجم اور جواد نے بہت دعائیں لی ہیں۔ دوسری طرف وطنِ عزیز کا ہر لیڈر کشکول لے کر خیرات مانگ رہا ہے حتیٰ کہ بنگلہ دیش نے بھی کچھ خیرات ڈال دی ہے، یہ پوری قوم کے لیے باعثِ ننگ و عارہے۔
آخر میں سب سے انتہائی اہم بات کہ کیا ہم ہر سال ہزاروں باشندے مروا کر اور اربوں روپے کا نقصان کراکے کشکول اُٹھا کر مانگنا شروع کردیا کریں گے؟ نہیں! یہ کسی باوقار قوم کا چلن نہیں ہے۔ درست منصوبہ بندی کرکے ہرسال دریاؤں کو جدید مشینری کے ذریعے گہرا اور چوڑا کیا جائے اور ان کی گزرگاہوں پر تجاوزات قائم کرنے کو ناقابلِ ضمانت جرم قرار دیا جائے اور خالقِ کائنات کی دی ہوئی عقل اور وسائل استعمال کرکے بپھرے ہوئے پانیوں کو مسخّر کیا جائے اور بے مہار طوفانوں کو لگام ڈالی جائے۔