عورت کی مجبوری اور ہمارا احساسِ کمتری
یوں لگتا ہے کہ ہمارے سوشل میڈیا پر بھارت کی فلم انڈسٹری کا قبضہ ہوچکا ہے، اگر یہاں کوئی مضبوط حکومت ہوتی اور اس کی ترجیحات درست ہوتیں تو اس کا فوری نوٹس لیا جاتا مگر یہاں تو ان باتوں کے بارے میں کوئی سوچنا ہی گوارا نہیں کرتا کہ قوم کے لیے خصوصاً نئی نسل کے لیے کیا مفید ہے اور کیا خطرناک ہے۔ کچے ذہنوں تک کون سا مواد پہنچنا چاہیے، کون سا مواد روکنا چاہیے، کون سی چیزیں ان کے لیے ضروری ہیں اور کون سا مواد ان کے اخلاق کے لیے تباہ کن ہوگا۔
بھارت میں بھی اب فارمولہ فلموں ہی کی بھرمار ہے کیونکہ اچھی کہانی لکھنے والے غالباً ختم ہوگئے ہیں، اسی لیے فلم چلانے کے لیے پروڈیوسر اور ڈائریکٹر عورت کا جسم دکھا رہے ہیں۔ ہر روز بھارت کی مشہور ایکٹرسوں کی ایسی تصویریں سوشل میڈیا پر لگائی جاتی ہیں جن میں ان کا جسم عریاں ہوتا ہے۔ کئی ایکٹرسیں تقریبات میں بھی جسم کی نمائش کرنے لگی ہیں یعنی ہر وہ گھٹیا کام کیا جا رہا ہے جس سے دیکھنے والوں کے سفلی جذبات برانگیختہ کیے جا سکیں، ان کی نقالی میں پاکستانی ایکٹرسیں بھی اپنے آپ کو عریاں کررہی ہیں۔
چند سال پہلے تک ایسی تصویروں پر کُھل کر ناپسندیدگی کا اظہار کیا جاتا تھا۔۔ مگر اب نہیں ہوتا۔۔ ایسا کیوں ہے؟ اس لیے نہیں کہ معقول لوگ فحش تصویروں کو پسند کرنے لگے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ وہ احساسِ کمتری کی وجہ سے خاموش ہوگئے ہیں۔ اوباش نوجوانوں اور نودولتئیے لوگوں کی بات چھوڑدیں، انتہائی مہذب اور decent لوگ بھی ایسی واہیات تصویریں دیکھ کر خاموش رہتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر انھوں نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا تو ان پر تنقید ہوگی اور ان پر قدامت پسندی کا لیبل لگا دیا جائے گا۔ یہ بد ترین قسم کا احساسِ کمتری ہے۔ جس میں ہم سب مبتلا ہو چکے ہیں۔
حیاء عورت کا حسن اور اس کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے، عورت کا تقدّس بھی شرم اور حیاء سے جڑا ہوا ہے۔ جو عورت حیا کو پرے پھینک دے اور اپنا ستر چھپانے کے بجائے دکھانے کی کوشش کرے۔ وہ عورت نہیں عورت کی توہین ہے۔
اُسے دنیا کا ہر معاشرہ بے شرمی سے تعبیر کرتا ہے۔ مہذب گھرانے اسے کبھی عزت کی نظر سے نہیں دیکھ سکتے۔ آج کی کمرشل دنیا اور مارکیٹ اکانومی کا معاشرہ چاہے اس پر شہرت اور دولت کے کتنے غلاف چڑھائے اور اسے سیلیبریٹی بنا کر پیش کرنے کی کوشش کرے مگر پڑھے لکھے مسلمان گھرانے اللہ تعالیٰ کی حدود کو توڑنے والی اور حیاء کو پامال کر دینے والی عورتوں کو کبھی اچھا اور قابلِ عزت نہیں سمجھیں گے۔ وہ کل بھی انھیں ناپسندیدہ ہی سمجھتے تھے اور آج بھی ایسا ہی ہے۔ اِس وقت دہشت گردی کی ایک خطرناک قسم، بے حیائی ہے جوہمارے ملک میں بھی پوری قوّت سے حملہ آور ہوچکی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ اب بھارتی ایکٹرسوں کی فحش اور عریاں تصویر یں دیکھ کر ہمارے خاندانی معزز گھرانے بھی خاموش رہتے ہیں اور اپنی ناپسندیدگی اور نفرت کا کھلے عام اظہار اس لیے نہیں کرتے کہ کہیں ان پر رجعت پسندی کی مہر چسپاں نہ کردی جائے۔ شرفاء احساسِ کمتری کی زنجیروں میں بندھے ہوئے ہیں جب کہ بے حیائی کا طوفان شدید سے شدید تر ہو رہا ہے، یہ ایک دو مہینوں میں نہیں ہوا اس کے پیچھے کئی دھائیوں کی منصوبہ بندی ہے۔
قدرت نے حیاء اور شرم کو عورت کی فطرت میں رکھ میں شامل کر رکھا ہے۔ اس لیے جب زنانہ جسم کے تاجروں نے آغاز میں عورت کو عریاں کرنا چاہا تاکہ زیادہ مال اور پیسہ بنایا جاسکے تو وہ تیار نہ ہوئی اور اس نے پہلے پہل مزاحمت کی۔ مگر عیّار اور چالباز دلالوں نے اسے رام کرنے کے لیے مختلف حربے استعمال کرنا شروع کیے۔ بے شرمی اور بے حیائی کے لیے دلکش لبادے ایجاد کیے گئے۔
پہلے آرٹ کا لبادہ ایجاد کیا اور ہوس پرست مردوں کا دل لبھانے والی عورت کو آرٹسٹ کا نام دیا گیا، پھر طوائف کو سیکس ورکر کا ٹائٹل دیا گیا۔ عریانی کو بولڈنس کا لبادہ پہنا دیا گیا۔ ایک طرف پیسے کی چکا چوند دکھائی گئی اور دوسری طرف انھیں باور کرایا گیا کہ اگر آپ کا جسم خوبصورت ہے تو اسے دکھانا آپ کا حق ہے اور یہ کوئی بے حیائی نہیں، بہادری(boldness) ہے۔ عورت جسمانی اور فطری طور پر کمزور ہے، اس کے علاوہ وہ بیچاری صدیوں سے مجبوریوں میں گرفتار اور مردوں کے ظلم کا شکار رہی ہے، اپنی کمزوریوں اور مجبوریوں کے باعث اس نے ھوس پرست مرد کی چالبازیوں کے آگے ہتھیار ڈال دیے اور پھر وہ اس جال میں پھنستی چلی گئی، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج porn industry کا حجم اربوں کھربوں ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔
بھارت کی فلم انڈسٹری بھی تیزی سے بانجھ ہو رہی ہے، اچھے کہانی نویس ناپید ہو رہے ہیں اس لیے وہ بھی اب زندہ رہنے کے لیے porn content کا سہارا لے رہی ہے۔ عورت سے حیاء کا زیور چھین لینا اور اسے کاروباری جنس کے طور پر بیچنا عورت کی سب سے بڑی توہین ہے مگر حیرت ہے کہ اس سنگین ترین جرم پر عورتوں کی تنظیموں نے کبھی آواز بلند نہیں کی۔ شوبز کی عورتوں سے جب پوچھا جاتا ہے کہ جب ڈائریکٹر آپ سے بدن کے اعضاء عریاں کرنے کا تقاضا کرتا ہے تو آپ اسے اپنی بے عزتی اور توہین نہیں سمجھتیں؟ تو ان میں سے اکثر جواب دیتی ہیں، یہ اسکرپٹ کا تقاضا ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے ورلڈ آرڈر یعنی دینِ اسلام نے عورت کو تحفّظ بھی دیا ہے اور عزت و تکریم بھی عطا کی ہے۔ مگر مغربی تہذیب نے اس سے تقدّس اور تکریم چھین کر اسے بیچ بازار کے لا بٹھایاہے۔ عورت کوcommercial commodity سمجھنے اور پھر بیچنے کے شیطانی کھیل میں سب سے بڑا مجرم اگرچہ ہوس پرست مرد ہے مگر اب کروڑ پتی بننے کی خواہشمند عورتیں بھی برابر کی شریکِ ہیں۔ اس لیے جب بھی کوئی فحش اور نیم عریاں تصویر آپ لوڈ کی جائے تو اس پر ناپسندیدگی کا کھل کر اظہار ہونا چاہیے۔
دو ٹوک انداز میں تنقید ہونی چاہیے اور کسی احساسِ کمتری کی وجہ سے خاموش نہیں رہنا چاہیے۔ سوشل میڈیا پر عالمی طاقتوں کے سرمائے سے بے حیائی کے کارندے پوری طرح سرگرمِ عمل ہیں۔ اس میں انھوں نے پاکستانیوں کو بھی hire کیا ہوا ہے اور اِس وقت ان کا ھیڈ کوارٹر دبئی اور ممبئی میں ہے اور وہ پورے لاؤ لشکرکے ساتھ حیا کے قلعے پر حملہ آور ہوچکے ہیں۔ تازہ ترین واردات یہ شروع کی گئی ہے کہ ان پڑھ اور نیم خواندہ مرد اور عورتیں منظّم اسکیم کے تحت ایک دوسرے کے ساتھ انتہائی فحش گفتگو کرتے ہیں، جتنی کوئی زیادہ فحش اور گندی گفتگو کرتا /کرتی ہے، اتنے ہی اُسے زیادہ پیسے ملتے ہیں۔ ان غلیظ کرداروں میں سے کچھ دبئی میں ہیں اور کچھ پاکستان میں ہیں۔
کیا پاکستان میں ایسے جرائم کو روکنے والے اداروں نے آنکھیں اور کان بند کیے ہوئے ہیں؟ کیا ایف آئی اے کام صرف بااثر شخصیات پر تنقید کرنے والوں کو پکڑنا ہی رہ گیا ہے۔ کیا معاشرے میں بگاڑ اور جنسی انتشار پیدا کرنے والے اور نئی نسل کو تباہ کرنے والے ان اخلاق باختہ عورتوں اور مردوں کا محاسبہ کرنا ان کے فرائض میں شامل نہیں ہے؟ حکومت کا فرض ہے کہ فوری طور پر فحش اور نامناسب مواد کی سائٹس بند کرادے۔ دوسری طرف والدین کا فرض ہے کہ وہ اپنی بچیوں کو بے حیائی اور فحاشی کی دہشت گردی سے بچانے کے لیے انھیں حیاء کی حفاظت کے بارے میں Sensitise کریں تاکہ مہذب اور باعزت خاندانوں کی بیٹیاں احساسِ کمتری سے باہر نکلیں، پوری طرح متحد ہوکر جرأت اور شان کے ساتھ حیاء کے قلعے کا دفاع کریں اور حملہ آوروں کا رخ موڑدیں۔