ایٹمی دھماکوں کی اصل کہانی (2)
میں نے کل کے کالم میں لکھا تھا کہ کامیاب ایٹمی دھماکوں کے بعد بھارتی حکمران اور میڈیا جارہانہ انداز میں پاکستان کو دھمکیاں دینے لگے۔
ملک کی سلامتی پر خطرے کے سیاہ بادل منڈلاتے دیکھ کر وزیرِاعظم نے 11 مئی کو قازقستان سے ہی اپنے پرنسپل سیکریٹری کو پاکستان میں دو اہم شخصیات سے فوری طور پر رابطہ کرکے انھیں وزیرِاعظم کی خصوصی ہدایات پہنچانے کی ہدایت کی تھی۔
جی ہاں! وزیرِاعظم نوازشریف صاحب نے سعید مہدی صاحب کو علیحدہ لے جاکر کہا کہ آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت اور ڈاکٹر عبدالقدیرسے فوراً رابطہ کریں اور دونوں کو میری طرف سے کہہ دیں، "پاکستان کے پاس اب ایٹمی قوّت بننے کے سوا کوئی چارہ نہیں، لہٰذا آپ فوری دھماکے کرنے کے انتظامات کریں "۔ رابطہ کرنے پر جنرل کرامت نے کہا کہ اس مسئلے پر ڈیفنس کمیٹی میں تفصیلی بحث ہو نی چاہیے اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بتایا کہ دھماکوں کے لیے چند ہفتوں کی مہلت درکار ہے۔
میں نے کل کے کالم میں یہ بھی لکھا تھا کہ پرائم منسٹر نے وطن واپس پہنچتے ہی ڈی سی سی کی میٹنگ سے بھی ایک دن پہلے ایک اور اہم میٹنگ کی جس میں پرنسپل سیکریٹری اور ڈاکٹر ثمر مبارک شریک تھے، اس میں پرائم منسٹر نے ڈاکٹر ثمر مبارک کو مخاطب کرتے ہوئے کہا "ڈاکٹر صاحب! ملکی سلامتی خطرے میں پڑچکی ہے، وطنِ عزیز کے دفاع کی ذمے داری میرے اور آپ کے کندھوں پر ہے۔
ہم نے ہر قیمت پر یہ ذمّے داری نبھانی ہے ورنہ ہم اﷲ کو جواب دے سکیں گے اور نہ قوم کو۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا، سر! آپ بالکل بجا کہہ رہے ہیں۔ پھر پرائم منسٹر نے پوچھا، "آپ کو دھماکوں کے لیے کتنا وقت درکار ہے"؟ ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا، "سر!دو ہفتے۔" اس پر پرائم منسٹر نے فیصلہ کن انداز میں کہا، "فوراً تیاری شروع کردیجئے اور Secracyلیک نہ ہو"۔
ڈاکٹر صاحب نے اپنے گھر ملاقات میں یہ ساری کہانی سناتے ہوئے خود ہی وضاحت کی، "پرائم منسٹر کا ذہن واضح تھا، معمولی سا بھی شک و شبہ یا ابہام نہیں تھا۔ انھوں نے مجھے دو ٹوک انداز میں حکم دے دیا، جس کے بعد20مئی سے ہم نے متعلقہ سازوسامانTesting siteتک پہنچانا شروع کر دیا"۔ دوہفتے کا وقت گزارنے کے لیے وزیرِاعظم نے "مشاورت" کا سلسلہ جاری رکھا۔ اخبارات و رسائل کے مدیران کو بلاکر ان سے بھی رائے مانگی گئی۔
مختلف لوگ مختلف باتیں کرتے رہے، آخر میں بزرگ صحافی مجید نظامی صاحب سے پوچھا گیا تو انھوں نے اپنا وہ مشہور فقرہ بولا، "میاں صاحب! دھماکے کردیں ورنہ قوم آپ کا دھماکا کردے گی"۔ اس پر بڑی تالیاں بجیں۔ پرائم منسٹر اُسی وقت یہ بتاکر کہ میں دھماکے کرنے کی ہدایات دے چکاہوں اور سامان بھی testing siteکی طرف روانہ ہوچکا ہے، زیادہ زور سے تالیاں بجوا سکتے تھے مگر وہ ملک کے ذمّے دار سربراہ تھے اس لیے خاموش رہے اور مسکراتے رہے۔ وزیرِاعظم کو دراصل یہ خدشہ لاحق رہتا تھا کہ خدانخواستہ بات لیک ہوگئی تو شائد اس پر عملدرآمد نہ ہوسکے اور یہ کہ امریکا اور یورپ پاکستان کے خلاف کوئی ایسا جارحانہ اقدام کردیں جو ہمیں ایٹمی قوّت بننے سے روک دے۔
اُدھرپانچ کامیاب ایٹمی دھماکے کرنے کے بعد بھارتی حکومت ذہنی توازن کھو بیٹھی تھی۔ بھارتی حکمرانوں اور میڈیا پر ہذیانی کیفیّت طاری ہوگئی، دونوں پاکستان کو کھلم کھلا دھمکیاں دینے لگے۔ بھارتی مسلمانوں کے لیے جینا دوبھرکردیاگیا، انھیں کہا جانے لگا۔ بی جے پی کے وزیروں نے کہنا شروع کردیا کہ "پاکستان کشمیر کو ہمارا حصّہ تسلیم کرلے ورنہ ہم اسے سبق سکھادیں گے، پاکستان کواب ہمارے کہنے پر چلنا ہوگا ورنہ"۔
بھارتی حکمرانوں کے بیانات اور تقریروں میں تکّبر کے ساتھ ساتھ پاکستان کے لیے تضحیک، اہانت اور دھمکیوں میں اضافہ ہوتا گیا۔ یوں لگتا تھا کہ بھارت نے ایٹمی قوّت صرف پاکستان کو "سبق سکھانے" کے لیے حاصل کی ہے۔ وزیرِ اعظم نوازشریف صاحب یہ سب سن اور دیکھ رہے تھے، بھارت کی دھمکیاں سن کر اُنکا چہرہ مزید لال ہوجاتا اور غصّے کے آثار نمایاں ہوجاتے۔ مگر وہ کیا کرنے جارہے ہیں اور کب کرنے جارہے ہیں، اس راز سے زیادہ تر وزراء بھی بے خبر تھے۔
28مئی کی دوپہر کو میں پرائم منسٹر آفس کے چوتھے فلور پر اپنے آفس میں بیٹھا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی۔ آپریٹر نے کہا، ڈاکٹر صاحب ضروری بات کرنا چاہتے ہیں، دوسرے طرف میرے بھائی ڈاکٹر نثار احمد صاحب تھے۔ انھوں نے بے پناہ خوشی کے عالم میں بتایا "مجھے ابھی ابھی چاغی سے ایک آرمی افسر نے فون پرمبارکباد دی ہے اور بتایا ہے کہ پاکستان نے کامیاب ایٹمی دھماکے کردیے ہیں۔
الحمدللہ۔ بی بی سی پر یہی بریکنگ نیوز چل رہی ہے، پاکستانی میڈیا خاموش ہے، پتہ کرکے بتائیں "میں بھاگم بھاگ پرائم منسٹر ہاؤس پہنچا تو وہاں خاموشی تھی، البتہ سعید مہدی صاحب مل گئے جنھوں نے تصدیق کی اور بتایا کہ پرائم منسٹر صاحب لباس تبدیل کرنے گئے ہیں، ابھی چند منٹ بعد وہ قوم سے خطاب کے لیے ٹی وی اسٹیشن جائیں گے۔ ملٹری سیکریٹری نے بتایا کہ پرائم منسٹر صاحب ساری رات نہیں سوئے، بس کامیابی کے لیے دعائیں مانگتے رہے ہیں۔ کچھ دیر بعد مشاہد حسین سیّد اور الطاف گوہر بھی پہنچ گئے۔
سب ایک دوسرے کو مبارکیں دے رہے تھے۔ اتنے میں گھنٹی بجی، سب الرٹ ہوگئے، وزیرِاعظم رہائشی حصّے سے نمودار ہوئے تو ان کا چہرہ مسرّت و افتخار سے دمک رہا تھا۔ میں نے مبارکباد دی توکہنے لگے، "اﷲ تعالیٰ کا شکر ہے سب کچھ کامیابی سے ہوگیا ہے۔ پھر کہا، "ٹی وی اسٹیشن چل رہے ہیں، ساتھ ہی آجائیں "۔ دو تین منٹ میں ہم پی ٹی وی کی عمارت میں داخل ہوگئے۔ اور اس کے کچھ ہی دیر بعد پاکستان کے کروڑوں شہریوں اور دنیا بھر کے اربوں افراد نے ٹیلی وژن اور ریڈیو پر وزیرِاعظم میاں نواز شریف کی آواز سنی، "ہم نے ہندوستان کے پانچ دھماکوں کے مقابلے میں چھ کامیاب ایٹمی دھماکے کرکے حساب چکا دیا ہے، پاکستان اب اﷲ کے فضل و کرم سے ایٹمی قوّت بن چکا ہے، اب انشاء اﷲ کوئی دشمن وطنِ عزیز کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرأت نہیں کرسکے گا"۔
وزیرِاعظم کے یہ الفاظ سنتے ہی پاکستانیوں کے چہرے خوشی اور فخر سے چمک اُٹھے۔ وہ ایک دوسرے سے بغلگیر ہوکر مبارکبادیں دینے لگے، لاکھوں نوجوان سڑکوں پرنکل آئے، ملک بھر کے شہر اوردیہات نعرۂ تکبیر اﷲ اکبر سے گونج اُٹھے۔ ٹنوں کے حساب سے مٹھائیاں بانٹ دی گئیں۔ کراچی سے چترال تک اور مہران سے بلوچستان تک ایک جیساجوش و جذبہ تھا۔ ایک جرأتمندانہ فیصلے نے قوم کو متحد کردیا۔ سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک میں (جہاں عربی شیخ پاکستانیوں کو مسکین کہتے اور حقارت کی نظروں سے دیکھتے تھے)تیس تیس فٹ لمبی گاڑیوں سے اتر کر کھرب پتی عرب امرائٔ پاکستانی مزدوروں سے بغلگیر ہوتے رہے۔ پوری دنیائے اسلام میں فخر و انبساط کی لہر دوڑ گئی۔
دنیا بھر کے مسلمانوں میں اس خیال سے احساسِ تحفّظ پیدا ہوا کہ یہ قوّت صرف پاکستان کی نہیں پوری مسلم دنیا کی مشترکہ قوّت ہے۔ پاکستانی بجا طور پر یہ سمجھنے لگے کہ بھارت کے تمام جارحانہ عزائم خاک میں مل گئے ہیں اور اب ہماری سالمیّت کو کوئی خطرہ نہیں۔ اہلِ دانش نے بجا طور پر کہا اور لکھا کہ
14 اگست 1947کے بعد یہ پاکستان کے قومی وقار اورعزّت و عظمت کی سربلندی کاسب سے بڑا دن ہے۔ ذاتی طور پر میرے لیے یہ بات ہمیشہ مسرّت و افتخار کا باعث رہے گی کہ ان تاریخی لمحات کا میں عینی شاہد ہوں اور جس وقت پاکستان کا وزیرِاعظم وطنِ عزیز کے ناقابلِ تسخیر بن جانے کا اعلان کررہا تھا تو میں پی ٹی وی کے اُسی اسٹوڈیو میں چند فٹ کے فاصلے پرموجود تھا اور وہ تاریخی کلمات ادا ہوتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ دو روز بعد وزیرِاعظم لاہور پہنچے جہاں انھوں نے ایک پر جوش ہجوم سے خطاب کیا، جس کے صرف دو جملے قارئین سے شیئر کررہا ہوں۔
"ہمارے ایٹمی پروگرام کی بنیاد بھی ایک سیاسی راہنما ذوالفقار علی بھٹو نے رکھی تھی اور اس کی تکمیل کا اعزاز اﷲ تعالیٰ نے مجھے عطا کیا ہے۔ امریکی صدر نے بار بار فون کرکے کہا کہ نوازشریف صاحب آپ دھماکے نہ کریں، ہم آپ کو پانچ ارب ڈالر فوراً دیتے ہیں، اس کے علاوہ بھی وہ کئی incentives دیتے رہے۔ کلنٹن صاحب! آپ ہماری عزت اور وقار کو ڈالروں سے خرید نا چاہتے ہیں۔ آپ ہماری قومی غیرت کا اندازہ نہیں لگا سکتے"۔
مخالفین و حاسدین جو چاہیں کہیں، لیکن یہ ایک ناقابلِ تردید تاریخی حقیقت ہے کہ ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان کو ناقابلِ تسخیربنانے کا فیصلہ میاں نواز شریف کا اپنا فیصلہ تھا۔ وہ نہ پابندیوں سے گبھرائے اور نہ دباؤ کی پرواہ کی، انھوں نے بے تحاشا پریشر اور تحریص کو رد کرکے صرف ملکی بقأ اور سلامتی کے لیے یہ جرأتمندانہ فیصلہ کیا۔ اُدھر بھارت میں پورے ملک پر سکتہ طاری ہوگیا، لوک سبھا کا اجلاس ختم کردیا گیا۔
بھارتی لیڈروں اور میڈیا کی زبانیں گنگ ہوگئیں، کہاں پاکستان کو ختم کرنے کی شیخیاں اور دھمکیاں اور کہاں پاکستان کے ایٹمی قوّت بننے کے چند ماہ بعد اُسی بی جے پی کا وزیرِاعظم خود پاکستان آیا، اپنی خواہش پرمینارِ پاکستان پر گیا اور وہاں جاکر پوری دنیا کے سامنے اعتراف کیا کہ "پاکستان ایک حقیقت ہے جسے کوئی جھٹلا نہیں سکتا، اب ہم آپس میں جنگ نہیں کریں گے"۔ مگر پھر دوکام ایسے ہوگئے کہ جن کے باعث ہم، قیامِ پاکستان کے بعد کیے جانے والے اس سب سے بہترین فیصلے کے ثمرات سے پوری طرح فیضیاب ہونے سے محروم رہے۔ (باقی آیندہ)