ایک صاحب کتاب کا کمزور مقدمہ (2)
سندھ کے سابق چیف سیکریٹری شکیل درانی صاحب نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ "میں نے آئی جی، سی سی پی او اور سول افسران کو بلا کر ان کی موجودگی میں پرائم منسٹر کو فون کیا۔ وہ تو نہ مل سکے مگر ان کے پرنسپل سیکریٹری خالد سعید کو میں نے صاف لفظوں میں بتادیا کہ ایم کیو ایم کی ریلی سے کراچی میں بہت بڑاخون خرابہ (Blood shed) ہونے جا رہا ہے، بعد میں پتا چلا کہ پرائم منسٹر شوکت عزیز نے جنرل مشرف سے بات کی اور غالباً میرے خدشات صدر تک پہنچائے مگر مشرف صاحب نہ مانے، اور گورنر کو سختی سے ہدایت دی کہ "ْچیف جسٹس ایئرپورٹ سے باہر نہ آنے پائیں اور حکومتی ریلی ضرور نکالی جائے۔ لہٰذا 11 مئی کی شام تک کنٹینروں سے سڑکیں بند کر دی گئیں۔ بارہ مئی کی صبح کو ہائی کورٹ کی جانب جانے والے تمام راستے بھی بلاک کر دیے گئے۔
اُسی روز سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے مجھے فون کرکے اپنی تشویش سے آگاہ کیا تو میں نے جواب دیا کہ" میں بے بس ہوں۔ " کچھ ہی دیر بعد ٹی وی اسکرینوں پر تشدد اور فائرنگ کی خبریں آنا شروع ہوگئیں، ڈی سی او جاوید حنیف نے بھی مجھے فون کرکے فائرنگ اور قتل و غارت گری کے واقعات کی تصدیق کی۔ شام تک 48 بے گناہ افراد (جن میں سے زیادہ تر مزدور اور دیہاڑی دار تھے) کے ہلاک ہونے کی تصدیق ہوچکی تھی۔
اس عظیم ٹریجیڈی کے بعد 12مئی ملکی تاریخ میں بدترین قانون شکنی کی علامت بن گیا۔ اس کے بعد ہونے والی میٹینگوں میں، مَیں حکومت کو بتا تا رہا کہ اس سانحے سے بچا جا سکتا تھا۔ " اس موقعے پر درانی صاحب نے آئی جی سندھ، سی سی پی او کراچی اور ڈی جی رینجرز پر سارا ملبہ ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ "ایک دن انھیں اپنے ضمیر کی عدالت میں جواب دہ ہونا پڑے گا۔ "
انتظامی امور کو سمجھنے والا ہر قاری اس بات سے اتفاق کرے گا کہ ضمیر کی عدالت میں صوبے کے انتظامی سربراہ کو بھی کھڑا ہونا پڑے گا، دوسرے افسر ساتھ کھڑے ہوں گے۔ صوبے کا چیف سیکریٹری صوبے کی ساری بیوروکریسی کا سربراہ ہوتا، عوام کے جان و مال کی حفاظت کا بھی ذمے دار ہوتا ہے، وہ دوسروں پر ذمّے داری ڈال کر اپنے آپ کو کیسے بری الذمہ قرار دے سکتا ہے؟ مصنف نے اپنے دفاع میں پولیس آرڈر 2002کے کا حوالہ دیا ہے۔
میرے علاوہ بہت سے ریٹائرڈ سول سرونٹس (جنھوں نے یہ کتاب پڑھی ہے) نے بھی کتاب کے مصنف کی اس دلیل کو کمزور قرار دیا ہے۔
بہت سے سابق چیف سیکریٹریز سے تفصیلی بات ہوئی جنھوں نے واضح طور پر بتایا کہ پولیس آرڈر 2002نے چیف سیکریٹری کے اختیارات میں نہ کمی کی اور نہ ہی ان کی حیثیّت کو متاثر کیا تھا۔ وہ صوبے کے انتظامی سربراہ کے طور پر آئی جی کا Boss اور عوام کے جان و مال کے ذمّے دار ہوتا ہے۔
وہ آئی جی، سی سی پی او اور کراچی کے تمام پولیس افسروں کو بلا کر انھیں واضح ہدایات دے سکتے تھے کہ سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی ہدایت کے مطابق 12مئی کو کسی ریلی کی اجازت نہیں دی جاسکتی، اگر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو ایئرپورٹ پر روکنا ہے تو مسلّح جلوسوں کو بھی سڑکوں پر آنے اور خون کی ہولی کھیلنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ کیا پولیس افسروں کو بلا کر ایسی ہدایات دی گئی؟
آپ نے چیف جسٹس صاحب کو صرف یہ کہا کہ "میں بے بس ہوں۔ " ایسا جواب تو کمزور قسم کے افسر دیتے ہیں۔ دلیر اور بااختیار سول سرونٹ کبھی بے بس نہیں ہوتا، انسانی جانیں بچانے کے لیے اس کے بس میں جو بھی ہوتا ہے، وہ کر گزرتا ہے۔
حکومت کی طرف سے مسلّح ریلی نکالنے کا واضح مطلب مصنف کے بقول خون خرابہ تھا، اس لحاظ سے میرے فہم کے مطابق حکومت کے یہ احکامات صریحاً غیرقانونی تھے، سول سرونٹ unlawful احکامات ماننے سے انکار کرسکتا ہے۔ "Say No to unlawful orders" جیسے فقرے کیا صرف تقریروں کے لیے ہی ہوتے ہیں؟
unlawful order کے سامنے No کہنے کی جرأت کیوں نہ دکھائی گئی؟ پچاس بے گناہ انسانوں کو قتل کردیا گیا مگر صوبائی انتظامیہ اور اس کا سربراہ کیسے بے بس ہوگیا؟ استعفیٰ کا آپشن تو کھلا ہوتا ہے، مزید کام کرنے سے انکار بھی ہوسکتا ہے، مگر ایسا کچھ بھی نہ کیا گیا، جو ایسے موقعوں پر سول سرونٹس کیا کرتے ہیں۔
اتنے بڑے سانحے پر احتجاج کی غرض سے ٹرانسپورٹرز نے مکمل ہڑتال کردی تھی، اس وقت لوگوں کے بپھرے ہوئے جذبات کنٹرول کرنا مشکل تھا، صاحب کتاب لکھتے ہیں کہ اس کے بعد صدر مشرف صاحب نے فون پر مجھ سے درخواست کی کہ ہڑتال ختم کرانے کے لیے میں اپنا اثرورسوخ استعمال کروں۔ چونکہ زیادہ جانی نقصان پختونوں کا ہوا ہے۔
اس لیے انھوں نے مجھ سے پختون ہونے کے ناتے اپنے علاقائی تعلقّات استعمال کرنے کی گذارش کی۔ یہاں مصنف لکھتے ہیں کہ اس طرح مجھے صدر مشرف کو oblige کرنے کا موقع ملا ہے اور میں نے فون پر مشرف صاحب کو معاملات درست کرنے یقین دہانی کرائی۔
ایک سابق سفارتکار نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی ظالم جاگیردار کسی غریب کسان کے دو بیٹے قتل کرانے کے بعد تھانیدار کو فون کرتا ہے کہ "بس اب صلح کرادو، ہم مقتولین کے ورثاء کے لیے پیسے بھی بھیج رہے ہیں، اور ان کے ایک بھائی کو نوکری بھی دلا دیں گے۔ " اور تھانیدار کہتا ہے "حضور فکر نہ کریں سب ٹھیک ہوجائے گا۔ " ایسا ہی کچھ پرویز مشرف نے بھی کیا، مجھے یقین ہے۔
اگر محترم درانی صاحب! اُس روز کراچی کی تمام انتظامیہ اور پولیس کے تمام افسروں کو لے کر خود شاہراہِ فیصل پر پہنچتے، وزیرِاعلیٰ اور جلوس اور ریلیاں نکالنے والے لیڈروں کو سخت پیغام بھیجا جاتا کہ آپ کا فیصلہ غیر قانونی ہے، ممکنہ قتلِ عام روکنا ہماری انتظامی ذمے داری ہے، اس لیے ہم کراچی میں کوئی ریلی نہیں نکلنے دیں گے۔
اس قسم کا سخت اسٹینڈ دیکھ کر یقینا ریلی نکالنے کا فیصلہ تبدیل کرایا جاسکتا تھا اور اس طرح پچاس گھرانے اجڑنے سے بچ جاتے۔
بعد میں درانی صاحب ریلوے کے چیئرمین بنے اور ریٹائرمنٹ کے بعد وہ پانچ سال تک واپڈا کے چیئرمین رہے۔ میری کئی ایسے دوستوں سے بھی بات ہوئی جنھوں نے ان کے ساتھ کام کیا ہے اور آپ نے کتاب میں ان کا اچھے لفظوں میں ذکر کیا ہے۔
ان کا بھی کہنا تھا کہ" درانی صاحب کُھلے ڈھلے اور اچھے آدمی ہیں تاہم 12مئی کو سول سرونٹس کی طرف سے جس سطح کا اسٹینڈ لینے کی ضرورت تھی، وہ نہیں لیا گیا۔ " 12مئی کے سانحے کے بارے میں اُس وقت کے آئی جی سندھ سے بھی میری بات ہوئی، اُن کا کہنا تھا کہ "اس اشو پر آئی جی اور چیف سیکریٹری کا موقف ایک تھا اور اس معاملے میں پولیس اور انتظامیہ ایک صفحے پر تھی۔ "
بہت سے دانشور دوستوں کی متفقہ رائے ہے کہ اگر 9 مئی کے واقعات نہ ہوتے تو پاکستان کی تاریخ میں سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد 12مئی کا سانحہ سب سے بھیانک سانحہ تھا۔ اس پرجنرل مشرف، سندھ کے وزیراعلیٰ، گورنر اور اُس وقت کے وزیرِداخلہ سندھ پر مقدمات درج ہونے چاہئیں تھے جب کہ چیف سیکریٹری، آئی جی، سی سی پی اور ڈی جی رینجرز نے اگر غفلت کا ارتکاب کیا تھاتو ان کے خلاف بھی قانون کے مطابق کاروائی ہونی چاہیے تھی۔ سب کی متفقہ رائے ہے کہ جب پچاس بے گناہوں کا لہو پکارے گا، جب میزان سجے گی تو کٹہرے میں سب اکٹھے کھڑے ہوں گے۔