ایک دن پھر اپنے ایبٹ آباد میں
اُس وقت میں بہت چھوٹا تھا جب بڑے بھا ئی جان پنجاب یونیورسٹی لاء کالج میں پڑھتے تھے، وہ کسی انٹر کالجیٹ ڈیبیٹ کے سلسلے میں ایبٹ آباد گئے اور واپسی پر بہت سا ڈرائی فروٹ اور بہت ساری کہانیاں لے کر آئے، اس وقت سے ایبٹ آباد کے بارے میں ایک دلفریب پہاڑی شہر کا افسانوی سا تصور دل میں بیٹھ گیا۔
کبھی کبھار خوابوں کے اس شہر کو دیکھنے کی خواہش مچلنے لگتی۔ اور پھر کئی دہائیوں بعد قدرت نے وہ آرزو پوری کر دی۔ 1986میں جب پولیس کی ٹریننگ مکمل کرنے کے بعد ہماری ایک سال کے لیے فرنٹیئر کانسٹیبلری میں پوسٹنگ ہوئی تو مجھے اوگی تعینات کیا گیا، جو مانسہرہ سے 29کلو میٹرکے فاصلے پر ایک خوبصورت پہاڑی قصبہ ہے جہاں پہنچنے کے لیے ایبٹ آباد سے گزر کر جانا پڑتا تھا۔
سروس کے ابتدائی دن اوگی میں گزرے جہاں کی یادیں اور یاریاں ابھی تک تازہ اور قائم ہیں۔ اوگی کے ڈاکٹرفیاض صاحب سے پینتیس سال پہلے دوستی ہوئی جو وقت کے ساتھ ساتھ مزید مستحکم ہوتی گئی۔ اوگی میں ہمارے سینئرکولیگ انتہائی پاکیزہ کردار پولیس افسر خالد مسعود صاحب تھے، جو بعد میں آئی جی اور ممبر پبلک سروس کمیشن بھی رہے۔ اُنکے ساتھ چلاس، گلگت، ناران اور وہاں سے پیدل جھیل سیف الملوک تک کے تاریخی سفر ابھی تک یاد ہیں۔
اوگی سے اکثر ایبٹ آباد کا چکّر لگ جاتا تھا جہاں مین بازار میں ماڈرن بیکری سے کچھ خریداری ہوتی اور ورایٹی بک اسٹورسے کوئی کتاب بھی خریدلی جاتی، بازار میں یا سڑکوں پر رش بالکل نہیں ہوتا تھا۔ انھی دنوں فاٹا سے تعلق رکھنے والا ہمارا بَیج میٹ عزیز اللہ ضلع ایبٹ آباد کے محکمہ ڈاک کا سربراہ بن کر تعینات ہوا، جی پی او کے اوپراُنکا ریسٹ ہاؤس تھاجہاں ویک اینڈ پر ایک دو بار رہنے کا اتفاق بھی ہوا۔
اُن دنوں میرے دوست کیپٹن یوسف اور ڈاکٹر شجاعت مانسہرہ میں زیرِ تربیت اسسٹنٹ کمشنرتھے۔ کبھی وہ اوگی آجاتے اور کبھی میں ان کے پاس مانسہرہ چلا جاتا جہاں ٹینس کھیلنے کے علاوہ گپ شپ بھی ہوجاتی۔ گلگت کے مُہماتی سفر میں وہ دونوں ہمارے ہمسفر تھے۔ فرنٹیئر کانسٹیبلری کے ڈسٹرکٹ اوگی کی فورس (پلاٹونیں) نتھیا گلی، کاغان اور ناران کے مقامات پر بھی تعینات تھی اس لیے مجھے وہاں انسپیکشن کے لیے جانا پڑتا جس سے خوبصورت مقامات کی سیر بھی ہوجاتی اور جوانوں کے مسائل بھی حل ہوتے رہتے۔
مجھے یاد ہے میں گورنر ہاؤس نتھیا گلی پر تعینات ایف سی کی انسپیکشن کے لیے گیا تو پلاٹون کے انچارج صوبے دار نے میرے لیے (اسوقت وہاں کوئی وی آئی پی قیام پذیر نہیں تھا) گورنر ہاؤس کے برآمدے میں کرسیاں لگوائیں۔ میں چائے کی پیالی کے لیے چند منٹ کے لیے رکنا چاہتا تھا، مگر سامنے نظر پڑی تو ایک روح پرور نظارہ دیکھ کرمبہوت ہوگیا۔
لان کیا تھے لگتا تھا سبز قالین بچھے ہوئے ہیں اور سامنے کسی ماہر مصور نے کمالِ فن سے بہت بڑی پینٹنگ بنا کر لٹکا دی ہے، کئی گھنٹے دم بخود بیٹھا رہا۔ عمران خان صاحب بھی اُس جگہ کے حسن اور کشش کے باعث بار بار وہاں جاکر کھو جاتے ہیں اور گورنر ہاؤس کو ہوٹل بنانے کا وعدہ بھول جاتے ہیں۔
اوگی سے پنجاب آنے کے بعد بھی میں فیملی ممبرز اور دوستوں کے ساتھ اوگی جاتا رہااور راستے میں ایبٹ آباد کے پولیس ریسٹ ہاؤس میں رکتا رہا، جس کے برآمدے یا لان میں بیٹھ کر چائے پینا ایک ٹریٹ سے کم نہیں اور ہم آتے جاتے اس سے لطف اندوز ہوتے رہتے تھے۔ اور پھر بیس سال بعد، ڈیرہ اسمٰعیل خان میں ڈیڑھ سال گزارنے کے بعد مجھے ہزارہ ڈویژن (جس کا صدر مقام ایبٹ آباد ہے) کا ڈی آئی جی مقرر کر دیا گیا، اس نئی حیثیت سے میں ڈی ایس پی کے نئے دفتر کا افتتاح کرنے پھر اوگی گیا جہاں ڈاکٹرفیاض صاحب اور دوسرے دوستوں سے ملکر پرانی یادیں تازہ ہوئیں۔
راقم 2006 میں ایبٹ آباد تعینات ہوا جب کہ 2005کے قیامت خیز زلزلے نے پولیس تھانوں سمیت بے شمار سرکاری عمارتیں مکمل طور پر تباہ یا ناکارہ بنا دی تھیں۔ ہمارے آدھے سے زیادہ تھانے خیموں میں کام کررہے تھے۔ پہلے تو ہم نے صوبائی حکومت سے اسپیشل فنڈز لے کر جستی چادروں سے تھانہ اسٹاف کے لیے عارضی بندوبست کیااور اس کے بعد قدرت نے اسطرح مدد کی کہ میرے بہت قریبی دوست سیرت اصغر صاحب زلزلہ زدگان کی بحالی کے لیے قائم کردہ ادارے ایرا (ERRA) میں ڈائریکٹر جنرل تعینات ہوگئے۔
ہمیں معلوم ہوا کہ پولیس کی تباہ شدہ عمارتوں کی تعمیرِ نو کی باری تیسرے مرحلے میں آئیگی جس میں پانچ سے سات سال لگ جائینگے۔ چنانچہ میں بھاگم بھاگ اسلام آباد پہنچا اور سیرت اصغر صاحب سے مل کر انھیں پولیس کی حالتِ زار سے آگاہ کیا، وہ مجھے ایرا کے انچارج جنرل صاحب کے پاس لے گئے جہاں ہم دونوں نے ملکر پولیس کامقدمہ لڑااور اسے پہلے فیز میں شامل کروالیا۔ چند روز بعد سیرت صاحب نے آرکیٹیکٹ سمیت ایرا کی پوری ٹیم بھیج دی جنھوں نے ہمارے ساتھ بیٹھ کر ہماری ضروریات کے مطابق پولیس لائنز اور پولیس اسٹیشنز کے نئے نقشے تیار کیے۔
اس کے دو سالوں بعد نئی پولیس لائنز کی دیدہ زیب عمارت مکمل ہوگئی۔ ایبٹ آباد میں ہم نے تھانوں کی سطح پر مصالحتی کمیٹیاں بنائیں جن میں باکردار افراد کو شامل کیا، ان کمیٹیوں نے بیشمار جھگڑوں میں صلح کرادی اور بیسیوں خاندان ٹوٹنے سے بچالیے۔ مصالحتی کمیٹیوں کے حیران کن نتائج دیکھ کر اُس وقت کے گورنر صاحب نے پورے صوبے میں مصالحتی کمیٹیاں بنانے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ ایبٹ آباد کی چار شخصیات نے خصوصی طور پر متاثر کیا، درویش صفت بابا حیدر زمان صاحب ڈسٹرکٹ ناظم تھے، انتہائی دیانتدار مگر سخت گیر منتظم تھے۔
میرے ساتھ ان کی خصوصی شفقت ہمیشہ قائم رہی۔ سردار مہتاب عباسی صاحب (سابق وزیر ِ اعلیٰ) انتہائی بااصول اور اعلیٰ پائے کے منتظم تھے۔ سیاست میں ہونے کے باوجود اپنیdignity اور وقار قائم رکھتے تھے۔ مجھ سے دیرینہ تعلق ہونے کے باوجود کبھی کوئی کام نہیں کہا۔ سردار فیصل کے پی کے سب سے بڑے اخبار آج، سے منسلک ہے۔ انتہائی دیانتدار اور جرأتمند صحافی اور مخلص انسان ہے، دیانتدار افسروں کی دل و جان سے قدر کرتا ہے اور کرپٹ افسروں کے کالے کرتوت پوری جرأت سے بے نقاب کرتا ہے، ہمارے گوجرانوالہ کے ڈاکٹر عمر نصیر صاحب کی طرح۔ ڈاکٹر عمر نصیر اور سردار فیصل جیسے انمول ہیرے کسی بھی معاشرے کا قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں۔ اور واحد سراج صاحب جو ایبٹ آباد میں علم و ادب کے فروغ کا سب سے معتبر حوالہ ہیں۔
پہلے تحریر کردہ باتیں سردار فیصل اور واحد صاحب نے تقریب میں (جس کا ذکر ابھی آئے گا) اپنی تقریروں میں یاد دلائیں۔ فیصل نے ایبٹ آباد کے پولیس ریسٹ ہاؤس میں امن و امان کے لیے بلائے گئے اُس اجتماع کا بھی ذکر کیاجس میں پانچوں اضلاع کے ضلعی ناظم اور ڈپٹی کمشنر(اس وقت کمشنر نہیں ہوتے تھے)موجود تھے، تلاوت کے بعد اجتماع کے میزبان (ڈی آئی جی) کی تقریر تھی، تقریر ختم ہوئی تو فریقین (سنّی اور شیعہ) کے علماء نے کھڑے ہوکر کہا کہ اب کسی اور تقریر کی گنجائش نہیں اور اجتماع بخیروخوبی اختتام پذیر ہوگیا اور محرم بھی انتہائی پُرامن رہا۔
ڈیرہ اسمٰعیل خان کے گومل تھنکر فورم کی طرز پرہزارہ تھنکرز فورم بھی قائم کیا گیا جس کی ایک دو میٹنگز پولیس ریسٹ ہاؤس میں ہوئیں جن میں وائس چانسلرز تعلیمی اداروں کے سربراہان اور اصحابِ علم ودانش نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ ایبٹ آباد سے ٹرانسفر ہونے کے کچھ سالوں بعدمیرا پیارا بھانجا اُسامہ احمد (شہید) ایبٹ آباد میں اسسٹنٹ کمشنر تعینات ہوا تو میں اس کے پاس بھی جاتا رہا۔ ایبٹ آباد کے لوگ جب اُسامہ کی دیانتداری اور بہادری کی تعریف کرتے تو بے پناہ خوشی ہوتی۔ وہ بلاشبہ سول سروس کابڑا روشن ستارہ تھا مگر خالق و مالک نے بہت جلد اُسے اپنے پاس بلالیا۔
واحد سراج صاحب علوم و فنون اور زبان و ادب کے فروغ کے لیے صوبے کی سب سے متحر ک تنظیم بزمِ علم و فن کے سربراہ ہیں۔ یہ تنظیم 1953میں قائم ہوئی، معروف قانون دان جسٹس سجاد احمد جان (جناب وسیم سجاد کے والد محترم)اس کے پہلے صدر تھے، یہ تنظیم اعلیٰ معیار کی علمی اور ادبی تقریبات منعقد کرنے میں خاص شہرت رکھتی ہے۔ جناب مختار مسعود، مشتاق احمد یوسفی اور اشفاق احمد خان سمیت ملک کی معروف ادبی شخصیات ان تقریبات میں شریک ہو چکی ہیں۔
اسی بزم کے زیرِاہتمام میری دو کتابوں (دو ٹوک باتیں اور دو ٹوک) کی تقریب ِپذیرائی بھی منعقد ہو چکی ہے۔ راقم کو پاکستان ملٹری اکیڈمی نے9اگست کو فکرِ اقبال پرلیکچر کے لیے مدعو کر رکھا تھا۔ سردار فیصل اور واحد صاحب کو پتہ چلا تو انھوں نے میری نئی کتاب "پسِ پردہ" کی تقریبِ پذیرائی منعقد کرنے کا عندیہ دے دیا۔
وقتِ مقررہ پر ہال میں داخل ہوا تو اسٹیج پر ریٹائرڈآئی جی خالد مسعود صاحب (جن کے ساتھ میں برسوں پہلے اوگی میں تعینات رہاتھا) کو دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی، وہاں دیگر معززین کے علاوہ ڈی آئی جی ہزارہ میرواعظ نیاز (جو ایک ایماندار، باکردار اور خوش اطوار افسر ہیں) اور نیک نام ڈی پی او ظہور آفریدی سے بھی ملاقات ہوئی۔
واحد سراج اور سردار فیصل نے اپنی تقریروں میں پرانے قصے یاد کرائے اور ایبٹ آباد کی معروف ادبی شخصیات ڈاکٹر عامر سہیل اور احمد حسین مجاہد نے کتاب پر اتنے اعلیٰ معیار کے مضامین پڑھے کہ لاہور اور کراچی کی ادبی محفلوں میں بھی ایسے معیاری مضامین اب سننے کو نہیں ملتے۔ میری خواہش بھی ہے اور توقع بھی کہ اگر یہ چاروں اصحاب تہیہ کرلیں تو ایبٹ آباد میں ایک قومی سطح کا کامیاب کتاب میلہ بھی منعقد ہوسکتا ہے۔