پاکستانی سیاست
پچھلے دنوں پاکستانی سیاست میں ہیجان عروج پر رہا جو ابھی بھی جاری ہے، میاں نواز شریف کا بیرون ملک جانا اور اُ س پر فی البدیہہ عمران خان کی تقریر نے اس میں مزید اضافہ کردیا۔ بعض ایسے دانشور جو خود کودوراندیش کہتے ہیں، انھوں نے فرمایا کہ دھرنا ختم اور نوازشریف ملک سے باہر۔ ضرورت سے زائد عقل مند یہ دانشور فرما رہے ہیں کہ دھرنے اور نواز شریف کے ملک سے باہر جانے کی ٹائمنگ پر ذرا غور فرمائیں۔ 26 اکتوبر کو کراچی سے دھرنے کا آغاز ہوتا ہے، 31اکتوبر کو اسلام آباد میں داخل ہوتا ہے اور 12 سے 14 نومبر کے درمیان دھرنے کا بوریا بستر لپیٹا جاتا ہے۔ اس دھرنے کے ذریعے صرف دو ہفتوں کے اندر نتائج حاصل کر لیے جاتے ہیں۔ پھر اُس کے بعد نہ پلان کی Bکی ضرورت رہتی ہے اور نہ ہی پلان C کی۔
نوازشر یف کی بیرون ملک روانگی پر بہت سے لوگ سوالات کر رہے ہیں کیونکہ جمہوری دور میں سوال کرنے والوں کا منہ بند نہیں کیا جا سکتا۔ کوئی کہتا ہے کہ تشویش ناک حالت میں مبتلا مریض کو اسپتال سے گھر منتقل نہیں کیا جاتا۔ شاید ہی دنیا میں ایسی کوئی مثال ہو کہ مریض اسپتال سے گھر اپنی خواہش اور مرضی سے منتقل ہو۔ لندن پہنچ کر بھی تشویش ناک حالت میں مبتلا شخص نے اسپتال جانے کے بجائے گھر جانا پسند کیا۔
لندن پہنچنے سے پہلے دوحہ قطر میں آرام فرمایا جہاں وہ شاہی استقبال سے لطف اندوز ہوئے۔ ان کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان جب تک نواز شریف لاہور اسپتال یا گھر میں رہے ان کی ایک ہی گردان تھی کہ نواز شریف کی حالت تشویش ناک ہے۔ جیسے ہی اُن کے مریض نے لندن قدم رکھا تو انھوں نے پہلی مرتبہ ارشاد فرمایا کہ مریض کی حالت کچھ بہتر ہے۔ نواز شریف کے باہر جانے کے لیے پورا ماحول بنایا گیا۔ دھرنے اور نواز شریف کی بیماری سے حکومت بے پناہ دباؤ میں آگئی۔
یہ بات ذہن میں رہے کہ دھرنے والوں نے براہ راست نواز شریف کی رہائی کا مطالبہ نہیں کیا۔ اسلام آباد پہنچتے ہی دھرنے والوں نے دو دن میں عمران خان کو استعفیٰ کا الٹی میٹم دے دیا۔ جیسے ہی صورت حال موافق ہوئی۔ دھرنے کے خاتمے کا اعلان کر دیا گیا۔
نوا ز شریف کی بیماری کے حوالے سے پلیٹ لیٹس کا بڑا چرچا رہا۔ مسلم لیگ (ن) کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل نے ایک دفعہ اعلان کیا کہ نواز شریف کے پلیٹ لیٹس صرف 6 سے7 ہزار رہ گئے ہیں۔ یہاں تک کہ دو ہزار تک پہنچنے کی بھی خبر آئی۔ چلیں اس معاملے کو یہاں چھوڑ کر تھوڑا مہنگائی کا ذکر کرتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ دن رات مہنگائی کا ڈھول پیٹنے سے مہنگائی ختم نہیں ہوتی۔
سب کو پتہ ہے کہ مہنگائی ہے۔ چاہے اس کی ذمے دار موجودہ حکومت ہو یا سابقہ۔ مہنگائی تو اپنے وقت پر ہی ختم ہو گی چاہے کتنا ہی شور مچایا جائے۔ عوام کو صرف مہنگائی کا مقابلہ نہیں کرنا بلکہ مصنوعی مہنگائی کے ساتھ کم تول کا بھی مقابلہ کرنا ہے۔ پاکستان میں ہر سال ٹماٹر مہنگا ہو جاتا ہے۔ ا س سال ٹماٹر کچھ زیادہ ہی مہنگا ہو گیا ہے۔ دیگر سبزیوں کے ریٹ بھی بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں، عنقریب سندھ، پنجاب سے نئی فصل آنے والی ہے۔ اُس کے بعد سبزیوں کے ریٹ میں کافی حد تک کمی آ جائے گی۔
ایک طرف مہنگائی اپنے عروج پر دوسری طرف دھرنا۔ عوام دن رات مہنگائی مہنگائی کرتے رہے۔ چنانچہ دھرنے میں عوامی شرکت نہ ہونے کے برابر رہی۔ دھرنے کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی تھی۔ بہرحال یہ بھی حیرانی کی بات ہے کہ عمران خان کے مخالف حلقے ایف اے ٹی ایف کے معاملے پرخوشی سے نہال تھے کہ پاکستان بلیک لسٹ میں چلا جائے گا۔ جب نہیں ہوا تو اُن کی مایوسی کی انتہا نہ رہی۔ یہی صدمہ تو انڈینز کو بھی تھا، افسوس صد افسوس اب ان کی امیدیں اگلے اجلاس سے ہیں۔
ادھر افوائیں بھی عروج پر رہیں۔ آئی ایس پی آر کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کے بتانے کے باوجود کہ آرمی چیف اور وزیر اعظم ایک پیج پر ہیں ان میں کوئی اختلاف نہیں، ملاقاتیں باقاعدگی سے ہوتی رہیتی ہیں لیکن ان تمام ملاقاتوں سے عوام کو آگاہ نہیں کیا جاتا۔ حکومت اور فوج میں تمام معاملات پر ہم آہنگی ہے۔ اس عرصے میں زہر آلود افواہیں اپنے عروج پر رہیں۔ ذرا اندازہ کریں کہ دھرنے کے آغاز سے لے کر دھرنے کے اختتام تک یہ افواہیں اپنے عروج پر رہیں۔ یہ اب بھی جاری ہیں نئی تاریخوں کے ساتھ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے بھی اپنی تقریر میں نواز شریف کی صحت پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ میں نے جب نواز شریف کو دیکھا تو حیران رہ گیا۔ کہ نواز شریف ایک دم کیسے ٹھیک ہو گئے۔ تحقیقات کی ضرورت ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ نواز شریف صاحب لندن پہنچنے پر بظاہر ہشاش بشاش نظر آرہے تھے، بیمار وہ ضرور ہیں لیکن ان کی حالت انتہائی تشویش ناک ہرگز نہیں۔ باقی اﷲ جانے۔ یہ پاکستان ہے یہاں ہر ناممکن چیز ممکن ہے۔ ہمارے پیارے پاکستان کی 72سالہ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔