1.  Home
  2. Zamurd Naqvi
  3. Kartarpur Rahdari

Kartarpur Rahdari

کرتارپور راہداری

پاکستان اور بھارت کے درمیا ن آخر کار کرتا رپور راہداری کھل گئی جس کا ایک سال پہلے سنگ بنیاد رکھا گیا۔ صرف د س ماہ کی قلیل مدت میں گوردوارے کی عظیم الشان عمارت تعمیر کی گئی، اب یہ دنیا کا سب سے بڑا گوردوارہ ہے۔ افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ایک سال پہلے مجھے کرتار پور کی اہمیت کا اندازہ نہیں تھ۔ ا حقیقت میں کرتار پور سکھوں کے لییانتہائی عقیدت کی حیثیت رکھتا ہے کہ وہ پچھلے72 سال سے تین کلو میٹر کے فاصلے سے اپنے گوروداوارے کو دیکھتے رہے لیکن اُ س تک پہنچ نہیں سکے۔

گولڈن ٹیمپل بھارتی پنجاب امرتسر میں ہے، اس کے علاوہ سکھوں کی بیشتر عبادت گاہیں پاکستانی پنجاب میں ہیں۔ تقسیم برصغیر کے موقع پر قتل و غارت کی جہاں دوسری وجوہات ہیں لیکن ایک بہت بڑی وجہ سکھوں کے مقدس مقامات کا پاکستانی پنجاب میں واقع ہونا بھی ہے۔ تقسیم کی وجہ سے یہ مقدس مقامات ان کی پہنچ سے دور ہو گئے۔

افتتاحی تقریب میں سابق بھارتی کرکٹر اور کانگریس پارٹی کے رہنما نوجوت سنگھ سدھو نے اپنے خطاب میں شاعرانہ انداز میں عمران خان کی تعریف کی۔ انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان نے آج تاریخ رقم کر دی۔ انھوں نے کہا کہ سکھ قوم پوری دنیا میں ایک فیصد ہے لیکن اس کا دبدبہ بہت ہے۔ میری زبان سے14کروڑ سکھوں کی آواز نکل رہی ہے، میں آپ کے لیے شکرانہ لے کر آیا ہوں، نذرانہ لے کر آیا ہوں۔ عمران خان پرواہ نہ کریں جس دلیری سے انھوں نے راہداری " لانگا" کھولا ہے سکھ قیامت تک عمران خان کے شکر گزار رہیں گے۔ عمران خان کو اندازہ نہیں کہ سکھ ان کو کہاں سے کہاں تک لے جا سکتے ہیں۔

سکھ ایک بہادر اور نڈر قوم ہے، میں نے بڑے بڑے قائدین دیکھے لیکن اُن کے دل چڑی جتنے تھے لیکن عمران خان کا دل سمندر جیسا ہے، ہماری چار پشتیں اپنے گرو کے گھر آنے کے لیے ترستی رہیں۔ سکندر نے ڈرا کر دنیا جیتی تھی لیکن عمران خان نے محبت سے دنیا کے دل جیت لیے۔ تقسیم ہند کے بعد سب سے بڑا مرہم لگایا۔ 72 سال سے سب حکمرانوں نے اپنا نفع و نقصان دیکھا لیکن عمران خان پہلا بہادر وزیر اعظم ہے جس نے بغیر کسی نفع و نقصان کے کروڑوں سکھوں کودل کی ٹھنڈک پہنچائی۔ سکھ دنیا میں عمران خان کے ترجمان بن کر جائیں گے۔ عمران خان جیسے کچھ لوگ ہوتے ہیں جو تاریخ بنایا کرتے ہیں۔ سدھو نے گزشتہ سال کی جھپی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا جو انھوں نے پاکستانی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے کی تھی، کہا کہ اگر ایک جھپی کے نتیجے میں کرتار پور راہداری کھل سکتی ہے تو ہمیں ایک دو تین چار نہیں سو جھپیاں ڈالتی چاہیں۔

سکھ دھرم کے بانی بابا گورونانک کا جنم استھان ننکانہ صاحب میں واقع ہے جہاں انھوں نے اپنی زندگی کے آخری 18 سال گزارے وہ کرتار میں گزارے ہیں۔ یہ بات قابل غور ہے کہ دنیا میں جتنے بھی نیک لوگ آئے ان کا زور اس بات پر تھا کہ انسانوں کو انسانوں کے ساتھ نیک سلوک کرنا چاہیے۔ کسی کی حق تلفی نہیں کرنا چاہیے دوسروں پر ظلم نہیں کرنا چاہیے۔ اسی طرح سے دنیا میں امن قائم ہو سکتا ہے۔ اسی لیے ہر مذہب میں سخاوت اور بھوکوں کی بھوک مٹانے مل جل کر پیار محبت اور ایک دوسرے کی مدد کرنے پر زور دیا گیا۔ آج سے دس ہزار سال پہلے انسان مل جل کر رہتے تھے۔ زمین مویشی ہر چیز مشترکہ تھی۔

بابا جی گورو نانک نے ظلم کو محسوس کیا اور انسانوں کو تقسیم کرنے کے بجائے جوڑنے کا عمل شروع کیا۔ تاکہ تمام انسان ذات پات، رنگ ونسل زبان سے بالا تر ہو کر اپنی توانائیاں دنیا کو پرامن بنانے کے لیے استعمال کر سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ بابا جی ایک ہندو گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود ان کا رجحان مسلم صو فیا کی جانب ہو گیا۔ تلاش حق کی کھوج میں مکہ مکرمہ اور مدینہ پہنچ گئے، 6سال بغداد میں رہے جہاں وہ ہر روز حضرت امام موسی کاظم اور شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کے مزار پر حاضری دیتے۔ ڈیرہ بابا گورو نانک میں وہ چولا محفوظ ہے جس پر قرآنی آیات تحریر ہیں جو انھیں بغداد عراق میں دوران قیام ملا۔ بابا گورونانک کے استاد کا نام سید حسن قطب الدین تھا۔

جو سادہ لوح کرتار پور راہداری کھلنے پر اعتراض کر رہے ہیں، انھیں پتہ ہونا چاہیے کہ اس راہداری کھلنے کے فوری اثرات یہ تھے کہ مشرقی پنجاب کے شہروں امرتسر، پیٹالہ، گورداسپور، چندی گڑھ اور جالندھر میں پاکستانی پرچم لہرانے شروع ہو گئے۔ کیسا عجیب اتفاق ہے کہ 9نومبر کو آج سے تیس سال پہلے دیوار برلن ٹوٹی تو اسی دن کرتار پور رہداری بھی کھلی۔ دیوار برلن نے تقسیم ہوئے انسانوں کو پھر سے جوڑ دیا، اب کرتا ر پور راہداری کا کھلنا کیا رنگ لائے گا، یہ تو مستقبل کا نادیدہ ہاتھ ہی بتائے گا۔ کرتار پور راہداری کا کھلنا خطے کا ناک نقشہ بدلنے کی طویل منصوبہ بندی کا ابتدائی حصہ ہے۔

سمجھنے اور ذہن نشین کرنے کی بات یہ ہے کہ 72سال پہلے سامراج نے ہمارے خطے کی جو تقسیم کی اُس پر نظر ثانی کا وقت آ گیا ہے کیونکہ یہ اب اُس کی نئی "ضرورتوں " کا تقاضا ہے۔ خطے کی پرانی تقسیم سے اُس نے جتنا فائدہ حاصل کرنا تھا کر لیا اب اس صورت حال کو برقرار رکھنا اُس کے لیے نقصان دہ ہے۔ خطے میں ملکوں قوموں کا "STATUS CO" تبدیل ہونے کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ " ایک وقت" آئے گا کہ قائداعظم کے فرمان کے مطابق پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے لیے ایسے ہوجائیں گے جیسے امریکا اور کینیڈا۔

جو نیگیٹو فیز میاں نواز شریف کا 4 اپریل 2016 ؁ء کو شرو ع ہوا تھا، وہ اب بریک ہونے والا ہے۔ اس کا آغاز نومبر کے تیسرے ہفتے سے دسمبر کے شروع سے شروع ہو جائے گا۔ " آزادی" ملنے والی ہے لیکن اس کے ساتھ دعا بھی ضروری ہے۔

نوٹ: طبی وجوہ کی بناء پر ہو سکتا ہے کالم کا تسلسل قائم نہ رہے۔

Check Also

Talaba O Talibat Ki Security Aur Amli Iqdamat

By Amirjan Haqqani