Thursday, 18 April 2024
  1.  Home/
  2. Zahir Akhter Bedi/
  3. Samandar Main Doob Kar Marnay Walay

Samandar Main Doob Kar Marnay Walay

سمندر میں ڈوب کر مرنے والے

مہاجرت دنیا کا بڑا قدیم المیہ ہے۔ دنیا اکیسویں صدی میں داخل ہوگئی ہے لیکن ہزاروں سال پرانا یہ المناک سلسلہ پہلے سے زیادہ اذیت ناک طریقوں سے جاری ہے۔ تازہ اطلاع کے مطابق موریطانیہ میں ہجرت کرنے والوں کی کشتی ڈوبنے سے 57 افراد سمندر برد ہوگئے۔ کشتی ڈوبنے کا یہ واقعے بحر اوقیانوس میں موریطانیہ کے ساحل کے قریب پیش آیا۔

83 افراد تیر کر اپنی زندگیاں بچانے میں کامیاب رہے۔ کشتی میں عورتوں اور بچوں سمیت 150افراد سوار تھے۔ افریقہ سے یورپ پہنچنے کے خواہش مندوں کے ساتھ یہ حادثہ رواں برس پیش آنے والا بد ترین حادثہ ہے، اس سے قبل اس قسم کے بے شمار حادثات پیش آچکے ہیں۔

مہاجرت ایک ہزاروں سال پرانا المیہ ہے۔ انسان جب انسان کو بوجوہ برداشت نہیں کرتا تو انسان نئی لیکن بے منزل شہروں کی طرف کوچ کرتے ہیں۔ بلاشبہ انسان اپنے مادر و طن کو بہت اذیت کے ساتھ چھوڑتا ہے لیکن ایک اچھی اور پرامن زندگی کی تلاش میں اسے کن کن اذیتوں سے گزرنا پڑتا ہے اور کیسی اذیت ناک موت کا شکار ہونا پڑتا ہے یہ انسانیت خاص طور پر ماڈرن انسان کی پیشانی پر ایک کلنک ہے۔ موریطانیہ کے ساحل پر ڈوب کے مرنے والوں کے ذمے دار اقوام متحدہ اور ترقی یافتہ ملکوں کے حکمران ہیں۔

مجھے ذاتی طور پر بھی ایک نہیں دو، دو مہاجرت سے گزرنا پڑا۔ اس لیے میں ذاتی طور پر مہاجرت کی اذیتوں سے واقف ہوں۔ 1948میں بھارت نے حیدرآباد دکن پر فوجی حملہ کیا جسے پولیس ایکشن کا نام دیاگیا جس میں ہزاروں بے گناہ انسان مارے گئے۔ ہمارے وطن بیدر بھی بھارتی فوج آگئی۔ شہر کے عوام سوائے چند سرپھروں کے ایک روز پہلے ہی شہر سے جاچکے تھے۔

شہر سے 15-14میل دور ایک دیہات چدری ہماری منزل ٹھہرا۔ بیدر سے چدری 15-14میل کا فاصلہ کن اذیتوں سے اورکیسے کیسے پل صراط پر سے طے کیا آج بھی اس کے تصور سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔

چدری کے ساتھ مشہور دریا مانجرا بہتا تھا۔ ہم نوجوان مانجرا کے کنارے جا بیٹھے تھے چدری میں مسلمان زیادہ رہتے تھے اس لیے مسلمان یہاں اپنے آپ کو نسبتاً محفوظ سمجھتے تھے لیکن یہ ہمارا وہم تھا کہ مانجرا کے کنارے جا بیٹھے تھے اور دریا میں پیچھے سے بہتی لاشوں کی گنتی کرتے تھے۔ بچوں، بڑوں، عورتوں، مردوں کی پھولی ہوئی لاشوں کو دیکھ دیکھ کر ذہن ماؤف ہوگیا تھا۔ شیطان ان لاشوں کے ساتھ تیرتا چلا جاتا تھا۔ شیطان ہر طرف ننگا ناچ رہا تھا۔

دوسری بڑی مہاجرت بیدر سے کھوکھرا پار کی تھی بڑی اذیت ناک، بڑی دلچسپ تھی۔ دن کے اس سفر میں ایک سوال بسلسلہ ہمارے ذہن پر ہتھوڑا بن کر لگتا رہا کہ آخر ہم نسل ہا نسل سے رہنے والے کیوں کھوکرا پار جارہے ہیں؟ یقیناً یہ سوال افریقہ سے یورپ جانے والوں کے ذہنوں میں بھی ہتھوڑا بن کر لگتا ہوگا۔

کھوکراپارریتیلی جگہ، طرح طرح کے کیڑے مکوڑے، ریت اوڑھنا، ریت بچھونا، ساتھ لائے بستر ہزاروں میل کے سفر اور ریت کے سمندر سے گندے ہوگئے تھے۔ کھوکھرا پار کا قیام زندگی کا ایک دلچسپ تجربہ تھا۔ سفر بذات خود تکلیف دہ ہوتا ہے لیکن کھوکھرا پار کا سفر اپنی توبہ، بہرحال خدا خدا کرکے ایک مال گاڑی آئی جس میں ہم جانوروں کی طرح بھر کر عازم حیدرآباد سندھ روانہ ہوئے۔ نئی نئی جگہیں، نئے نئے لوگ زندگی کا ایک دلچسپ دور، پھر دوسرے دن کراچی چلے۔ کینٹ اسٹیشن میں ہمارے بڑے بھائی الیاس سلیم جو ہم سے پہلے پاکستان آئے تھے ہمارے استقبال کے لیے موجود تھے۔ اسٹیشن سے پی آئی بی کالونی (مہمان داری) دو مہینے پی آئی بھی کالونی میں رہے پھر لانڈھی پہنچائے گئے۔

یہ تو ہوا برسبیل تذکرہ آئیے! اب موریطانیہ چلتے ہیں جہاں 57 افریقی سمندر میں ڈوب کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ مہاجرت کے دوران اتنا بڑا جانی نقصان ہوا ہے۔ یہ سلسلہ شروع سے جاری ہے۔ جانے اب تک اس حوالے سے کتنی بڑی تعداد میں عوام سمندر برد ہوچکے ہیں۔

سمندر میں ڈوب کر مرنے والوں کی دو قسم ہے ایک تووہ لوگ ہیں جو زبان، رنگ، نسل وغیرہ تعصبات میں جان گنوانے سے بچنے کے لیے پر امن جگہ کی تلاش میں سرگردانی کے عالم میں سمندر برد ہوجاتے ہیں اور دوسرے وہ لوگ ہیں جو اچھی زندگی کی تلاش میں جان خطرے میں ڈالتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ میں رپیٹ کررہا ہوں سوال یہ ہے کہ کیا یہ دونوں سلسلے ناقابل حل ہیں؟

دنیا کے ترقی یافتہ ملک اگر ایک منصوبے کے ساتھ مہاجرین کو اپنے اپنے ملکوں میں اپنی سہولت کے مطابق حل کرنا چاہیں تو کیا یہ ممکن نہیں؟ ترقی یافتہ دنیا میں ابھی اتنی گنجائش ہے کہ وہ پریشان حال مہاجرت میں مبتلا لوگوں کی مدد کرسکتی ہے۔ بات صرف احساس کی۔ ٹرمپ سمیت بڑی طاقتوں کے سربراہ بھی انسانی جانوں کے اس ضیاع کی خبریں پڑھتے ہوں گے اور سفارتی ذرائع سے بھی انھیں یہ اطلاع ملتی رہتی ہوں گی۔ بات صرف احساس کی ہے کیا موریطانیہ کے ساحل پر ڈوب کر مرنے والے انسان نہیں؟ اگر انسان ہیں تو انسانوں کو ایسی دردناک موت سے بچائیں۔

Check Also

Ye Ik Shajar Ke Jis Pe Na Kanta Na Phool Hai

By Saadia Bashir